تھے صورتِ سوال سبھی اُس کے گھر کے پاس

افتخار راغبؔ

تھے صورتِ سوال سبھی اُس کے گھر کے پاس

گویا ہر اِک جواب تھا دیوار و در کے پاس

کیا جانے کیا ہو ردِّ عمل کچھ خبر نہیں

جائے گی جب خبر مِری اُس بے خبر کے پاس

دنیا کی تیز آنکھوں سے بچنا محال ہے

دل میں تجھے چھپاؤں کہ رکھّوں جگر کے پاس

ناقدریِ خلوص و محبّت سے کر گریز

رختِ سفر یہی ہے تِرے ہم سفر کے پاس

راہِ وفا میں جان لڑانے کا وقت ہے

یا رب یہ امتحاں بھی دکھا دوں میں کر کے پاس

ظاہر کی نذر ہو گیا باطن کا حسن کیا

یا وہ نظر نہیں رہی اہلِ نظر کے پاس

اس  کی  ستم ظریفی  کی  کیا  دے  کوئی  مثال

ہر بات کا جواز ہے اس فتنہ گر کے پاس

سورج کے سامنے کہیں جلتا ہے کوئی دیپ

اُگتا ہے کوئی پیڑ تناور شجر کے پاس

کوشش تو کر رہا ہے وہ اپنی بساط بھر

مانا کہ روشنی نہیں راغبؔ قمر کے پاس

تبصرے بند ہیں۔