’ہندستانی زبان‘ کے فروغ میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کا کردار

ابرا ہیم افسر

 بابائے قوم مہاتما گاندھی کی جتنی خدمات اور قربانیاں ہندوستان کوانگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے تھیں، اُتنی ہی جد و جہد’’ ہندستانی زبان‘‘ کی ترقی، بقا، اشاعت و ترویج کے لیے بھی ت ھیں۔ مہاتما گاندھی’’ ہندستانی زبان‘‘ کو ہندوستان کے لیے معجزہ تسلیم کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھاکہ یہ مشترکہ زبان ہندوستان کی ترقی اور سا  لمیت میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے گی۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ’’ہندستانی زبان‘‘ہندی +اُردو=ہندستانی کا ایک ایسا سنگم ہے جو گنگا، جمنا اور سرسوتی سے بھی عظیم ہے۔ شمالی ہند کے لوگ جب جنوب میں جائیں تو انھیں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے میں آسانی ہو اور جب جنوب کے لوگ شمالی ہند میں آئیں تو ان کو بھی اپنی بات رکھنے میں آسانی ہو۔ انھیں نظریات اور خیالات کی اشاعت و تبلیغ کے لیے سیٹھ جمنا لال بجاج کی ایما پر’’ہندستانی پرچار سبھا ‘‘کا قیام 1920ء (چوپاٹی، ممبئی )میں ’ہندی پرچارنی سبھا‘‘سے علاحدگی کی شکل میں آیا۔ ہندستانی پرچار سبھا کی شاخیں ہندوستان کے کونے کونے میں کھولیں گئیں۔ سابرمتی اور وردھا میں اس کے مراکز قائم کیے گئے۔ گاندھی جی کے اس نظریۂ ہندستانی کی حمایت پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، بابو راجیندرپرساد، سردار ولبھ بھائی پٹیل، کاکا کالیکر، آصف علی، ڈاکٹر تارا چند، ، مورارجی ڈیسائی، پیرن کیپٹن، پنڈت سدرشن، ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ نامور لیڈران نے کی۔ ہندستانی پرچار سبھا کا یہ بھی عظیم کارنامہ تھا کہ اس نے ملک کی مختلف ریاستوں سے اس بات کا سرٹی فکٹ اور عہد و پیماں لے لیا تھا کہ’’ ہندستانی زبان ‘‘کے اہلیتی امتحانات میں پاس ہونے والے سرکاری ملازمین کو ایک ایکسٹرا انکریمنٹ دیا جائے۔ اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ پروفیسر عبدالستار دلوی نے ہندستانی پرچار سبھا اور گاندھی جی کے ’’ہندستانی زبان ‘‘کے نظریے کے بارے میں تفصیلات دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’گاندھی جی اُردو اور ہندی کو ہندستانی کی پالنے والی بھاشائیں کہتے تھے اور آسان اور عام فہم زبان کی حیثیت سے فروغ دینا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں مختلف طریقوں سے اپنے نظریۂ ہندستانی کی وضاحت کی۔ مہاتما گاندھی کو اُردو سے ایک خاص طرح کا لگاؤ تھا اور ہندستانی کا نظریہ پیش کرنے سے قبل انھوں نے خود اُردو سیکھی تھی اور اپنے کئی دوستوں سے اُردو میں خط و کتابت بھی کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے نظریۂ ہندستانی کو فروغ دینے کے لیے شمال تا جنوب کئی ہندستانی پرچار سبھائیں قائم کیں۔ افسوس ہے کہ وہ ساری ہندستانی پرچار سبھائیں ایک ایک کرکے ختم ہو گئیں۔ ممبئی کی ہندستانی پرچار سبھا، جس کی روحِ رواں پیرن بہن کیپٹن اور گوشی بہن کیپٹن تھیں۔ انھوں نے البتہ گاندھی جی کے ہندستانی کے چراغ کو ہمیشہ جلائے رکھا۔ ‘‘(مہاتما گاندھی، اُردو، اقبال اور دوسرے مضامین، پروفیسر عبدالستار دلوی، ہندستانی پرچار سبھا ممبئی، 2013ء، صفحہ10)

کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار محمد مجیب نے اپنے مضمون’’گاندھی جی کہاں ہیں ؟‘‘میں کیا ہے۔ جس میں ان کے’’ نظریۂ ہندستانی‘‘ پر خاطر خواہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس مضمون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گاندھی جی ہندوستان میں انگریزی زبان کے بڑھتے اثر و رسوخ سے پریشان تھے۔ وہ صرف لکھنے۔ پڑھنے اور جاننے کی حد تک انگریزی کی حمایت کرتے تھے، اس کے کلچر میں محو ہو جانے یا اسے اپنانے کے وہ سخت مخالف تھے۔ محمد مجیب نے لکھا ہے:

’’گاندھی جی کی آرزو تھی کہ ہندوستان کی ایک زبان ہو’’ہندی یعنی ہندوستانی‘‘جسے دیو ناگری اور اُردو لیپیوں میں لکھا جائے۔ ہم نے زبان کو ایک سیاسی مسئلہ بن جانے دیا، ہندستانی بولتے رہے، اسے پسند کرتے رہے مگر اسے سیکھنا، سِکھانا بند کر دیا۔ ادھر ہندی کو جنتا کی زبان کہتے رہے اور اسے اتنا مشکل بنا دیا کہ وہ جنتا کی ہو ہی نہیں سکتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزی کی حیثیت بڑھ گئی۔ تعلیم اور تہذیب میں اس نے اپنے قدم جما لیے اور اب ماں باپ عام طور پر چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اور کچھ سیکھیں یا نہ سیکھیں انگریزی ضرور پڑھیں۔ ‘‘(رسالہ جامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جلد نمبر 97، شمارہ 10۔ 12، اکتوبر تا دسمبر 2000ء، مدیر شمیم حنفی، صفحہ12)

  گاندھی جی کا اُردو سے لگاؤ اور والہانہ محبت کا رشتہ قیامِ جنوبی افریقہ کے دوران ہی سے تھا۔ جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے23؍برس گزارے۔ 1915ء میں جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آنے کے بعد گاندھی جی نے کانگریس کے اجلاس میں شرکت کرنا شروع کیا تو ان کا سابقہ کئی اُردو داں افراد سے ہوا۔ اُردو اور ہندی کے رشتے ان کے ہندوستان لوٹنے سے قبل ہی تلخ ہو چکے تھے۔ آئے دن دونوں زبانوں کو لے کر مختلف مقامات پر کشیدگی کی خبریں آتی تھیں۔ کئی ہندی ادیب، جن میں پرشوتم داس ٹنڈن وغیرہ پیش پیش تھے، نے ہندی کو قومی زبان بنانے کی مہم چلا رکھی تھی۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ کانگریس کے اجلاس کی کارروائی بھی ہندوستانی زبان میں ہونے لگی تھی۔ ا س طریقۂ کارپربہت سے لوگوں نے سخت اعتراض کیا۔ اس بات کا حوالہ بنارس ہندو یونی ورسٹی کے شعبۂ ہندی کے صدر پروفیسر دھیریندر ورما ایم۔ اے نے اپنی کتاب ’’ہندی راشٹر یا صوبہ ہندوستان‘‘نامی کتاب میں پیش کیا ہے۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں :

 ’’ہندوستانی کی اشاعت آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ مہا سبھا(کانگریس)کی کارروائی بہت کچھ ہندوستانی میں ہونے لگی ہے۔ ممکن ہے مستقبل میں ہندوستانی حکومت کی قوبی زبان ہندستانی ہو جائے، لیکن تو بھی یہ پورے ہندوستان کے عوام کے مادری زبا ن کے برابر نہیں ہو سکتی۔ ہندستانی کا ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ ویسا ہی مقام ہوگا جیسا کہ آج کل انگیریزی حکومت میں انگریزی کا ہے، مسلم دور میں فارسی کا تھا، گُپت عہد میں سنسکرت اور موریہ دور میں پالی کا تھا۔ اعلان نامے ہندستانی میں نکل سکتے ہیں اور ممکن ہے انھیں پورے ہندوستان میں تھوڑا بہت سمجھ بھی لیا جائے حالاں کہ اس میں شک و شبہات ہے۔ کیوں کہ انگریزی اعلان ناموں کو سمجھنے کے لیے آج کل بھی صوبائی زبانوں میں ترجمہ کرنا پڑتا ہے اور اشوک کے حکم ناموں میں بھی صوبائی پراکرتوں کا اثر موجود ہے۔ لیکن پورے ہندوستان کے عوام کے دلوں تک تو کبھی ہندستانی پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ہندستانی، ہندوستان کی ’’راج بھاشا‘‘بھلے ہی ہو جائے لیکن ’’راشٹر بھاشا[قومی زبان]نہیں ہو سکتی۔ ‘‘صفحہ 12تا13)(مشمولہ ہندی، اُردو اور ہندوستانی، پدم سنگھ شرما، لوک بھارتی پرکاشن، الٰہ آباد، 1932ء، صفحہ43)

  محبان ہندی گروہ چاہتا تھا کہ ملک گیر سطح پر قومی زبان کا رُتبہ ’ہندی‘زبان کو حاصل ہو لیکن اس نظریہ کی تردید میں اُردو ادیب و دانشور یہ چاہتے تھے کہ ملک کے رابطے کی زبان اُردو ہونی چاہیے۔ اس کے لیے مولوی عبدالحق اور ان کے رفقہ  رات دن ایک کیے ہوئے تھے۔ ناگپور میں 1936ء کے بھارتیہ ساہتیہ پریشد کے اجلاس کے دوران گاندھی جی اور مولوی عبدالحق کے درمیان قومی زبان کے مسئلے پر کشیدگی آ گئی تھی۔ منشی پریم چند نے بھی ہندستانی زبان کی کھل کر حمایت کی۔ انھوں نے4؍جون 1936ء کو مولوی عبدالحق کے نام لکھے خط میں اس بات کو ظاہر کیا۔ لکھتے ہیں :

’’مہاتما گاندھی ہندی کے خدا نہیں اور نہ ان کی تاویل ماننے کے لیے ہم مجبور ہیں۔ ہمارا دعوا ہے کہ پریشد کی زبان ہندستانی ہونا چاہیے۔ ‘‘(رسالہ اُردو ادب، عبدالحق نمبر صفحہ83، ، مشمولہ مہاتما گاندھی اور اُردو رسم الخط، گیان چند جین، شب خون الٰہ آباد، صفحہ1655)

اس کشیدگی کے درمیان بھی گاندھی جی مولوی عبدالحق کے ادبی کارناموں اور ان کی اُردو دوستی کے قائل تھے۔ گاندھی جی مولوی عبدالحق کی اس بات پر بھی فخر کرتے تھے کہ جو کام وہ عثمانیہ یونی ورسٹی میں اُردو کی خدمت کے لیے کر رہے ہیں وہ بڑا اعزازی کام ہے۔ عثمانیہ یو نی ور سٹی میں درس و تدریس کا ذریعہ تعلیم اُردو ہونے اور دیگر مضامین بھی اُردو میں پڑھائے جانے کی بات پر گاندھی جی خوش ہوتے تھے۔ وہ یہاں تک کہتے تھے کہ عثمانیہ یونی ورسٹی میں تعلیم ہندوؤں کو زیادہ سے زیادہ سے لینی چاہیے تاکہ’’ ہندستانی زبان‘‘ کو فروغ حاصل ہو۔

  گاندھی جی نے ان دونوں نظریات (ہندی اور اُردو کے تنازع )سے جدا گانہ راہ نکالتے ہوئے 1917ء میں ایک نئے نظریے ’’ہندستانی زبان‘‘کا تصور عوام کے سامنے رکھا۔ گاندھی جی نے اپنی آخری سانس تک اس زبان کی ترقی، اشاعت و ترویج کے لیے کام کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ’’ہندستانی کا مطلب اُردو نہیں بل کہ ہندی اُردو کی وہ خوب صورت ملاوٹ ہے جسے اُتری(شمالی)ہندوستان کے لوگ سمجھ سکیں اور جو ناگری یا اُردو لکھاوٹ میں لکھی جاتی ہو یہ پوری راشٹر بھاشا(قومی زبان)ہے، باقی جو کچھ ہے ادھورا ہے‘‘۔ ان کی اس تجویز کو ہاتھوں تو نہیں لیا گیا البتہ یہ ملک بھر میں بحث کا موضوع ضرور بن گیا۔ بعد میں اس نظریے نے زور پکڑا اور لسانی سطح پر ہونے والے ٹکراؤ کو روکنے کے لیے اس تجویز پر بھی غور و خوض کیا جانے لگا تھا۔ اپنے نظریے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے گاندھی جی نے جو اخبارا ت نکالے وہ ہندی اور اُردو دونوں رسم الخط میں ہوتے تھے۔ اسی نظریے کی اشاعت کے لیے 1909ء میں انھوں نے ’’ہند سوراج‘‘میں تحریر کیا:

’’ہر ایک پڑھے لکھے ہندوستانی کو اپنی بھاشا، ہندو کو سنسکرت، مسلمان کو عربی، پارسی کو فارسی اور سب کو ہندی جاننی چاہیے۔ کچھ ہندوؤں کوعربی اور کچھ مسلمانوں اور پارسیوں کو سنسکرت سیکھنی چاہیے، اُتّر اور پچھم میں رہنے  والے ہندوستانی کو تامل سیکھنی چاہیے، مگر سارے ہندستان کے لیے تو ہندی ہونی چاہیے، اسے اُردو میں لکھا جائے یا ناگری میں۔ ہندو مسلمانوں کے وچار وں کو ٹھیک رکھنے کے لیے بہت سے ہندووستانیوں کے لیے دونوں لکھاوٹوں کا جاننا ضروری ہے۔ ‘‘

  مہاتما گاندھی کی ادارت یا نگرانی میں جو اخبارات یا رسائل شائع ہوتے تھے ان کی پالیسی میں یہ بات شامل تھی کہ وہ اُردو اور ہندی دونوں رسم الخظ کا خاص خیال رکھیں گے۔ اس کا ثبوت ہمیں ’’ندائے ملت ‘‘میں عبدالسلام صدیقی کا شائع شدہ مضمون سے ملتاہے۔ جس میں ’’ہری جن سیوک ‘‘اخبار کے ہندی اُردو ایڈیشن کو ایک ساتھ بند کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں گاندھی جی نے ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنا موقف واضح کیا۔

’’گاندھی جی نے ’’ہری جن سیوک ‘‘کے ہندی ایڈیشن کے ساتھ اُردو ایڈیشن بھی جاری کیا تھا بعد میں جب حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ انھیں اُردو ایڈیشن بند کرنا پڑا تو انھوں نے منصفانہ طور پر ہندی ایڈیشن بھی بند کر دیا۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ انھیں دونوں رسم خطوں سے برابر کا پیار تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے فرمایا’’مجھے اس بات کی وضاحت کرنے دیجیے کہ میں نے کیوں دونوں ایڈیشنوں کو بند کر دیا اور کیوں نہ ایک ہی کو بند کیا۔ یہ صحیح ہے کہ جب ناگری ’’نو جیون ‘‘اور دیو ناگری ’’ہری جن سیوک‘‘شائع ہونا شروع ہوئے تو دونوں رسم خطوں کا کوئی تنازعہ نہیں تھا اور اگر رہا بھی تو کم از کم میرے علم میں نہیں۔

دریں اثنا مرحوم سیٹھ جمنا لال بجاج کی ایما پر ’’ہندستانی پرچار سبھا‘‘کا قیام عمل میں آیا۔ اس بنا پر اُردو ایڈیشن نکالنا بے حد ضروری ہو گیا۔ اب اگر میں اُردو ایڈیشن بند کر دیتا اور صرف ناگری ایڈیشن جاری رکھتا تو یہ خود میری نظروں میں انتہائی غیر معمولی امر ہوتاکیوں کہ ہندستانی پرچار نی سبھاکی رو سے’’ہندوستانی‘‘کے معنی اس زبان کے ہیں جو دونوں خطوں میں تحریر کی جائے۔ نتیجے کے طور پر اگر یہ اخبار دونوں رسم خطوں میں طبع ہو رہا ہو تو تبھی اسے جاری رکھنا چاہیے۔ بالخصوص ان حالات میں یہ بات اور بھی اہم ہو جاتی ہے جب چاروں طرف سے لوگ شور و غوغا کر رہے ہوں کہ ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہونا چاہیے جو صرف دیو ناگری رسم خط میں لکھی جائے۔ میرا یہ فرض ہے کہ میں یہ واضح کر دوں کہ یہ دعوا یا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ اگر میری دلیل ٹھیک ہے تو پھر مجھ پر یہ فرض اور بھی زیادہ عائد ہوتا ہے کہ یا تو میں ’’ہری جن سیوک‘‘کے دونوں ایڈیشنوں کو بند کر دوں۔ ‘‘(مہاتما، مصنفہ ڈی۔ جی تندلکر، جلد ہشتم، ایڈیشن1954ء، صفحہ294۔ 295، مشمولہ ہماری زبان، انجمن ترقی اُردو (ہند) 15جون1978ء، مضمون نگار، گوپال متل، بہ شکریہ رسالہ تحریک، نئی دہلی)

  مہاتما گاندھی دوسرے قومی رہنماؤں سے خط و کتابت کرتے وقت ہندی اور اُردو رسم الخط میں دستخط کرتے تھے۔ اگر گاندھی جی کو کہیں بولنے یا تقریر کرنے کا موقع فراہم ہوتا تو وہ اس بات کی احتیاط ضرور کرتے تھے کہ مجلس میں ایسی عام فہم اور سہل زبان استعمال کی جائے جس سے بات سب لوگوں کی سمجھ میں آجائے۔ اور زبان کے معاملے پر کسی بھی طرح کا تنازع کھڑا نہ ہو۔ ایک بار جب رنگ روٹوں کی بھرتی کے مسئلے پر گاندھی جی کی رائے وائسرائے لارڈ چیمس فورڈنے جاننا چاہی تو گاندھی جی نے وہاں پر بولنے کے لیے جس زبان کا استعمال کیا وہ ’’ہندستانی‘‘تھی۔ اس زبان کو وائسرائے کے سامنے بولنے پر انھوں نے فخر محسوس کیا اور یہ بھی باور کرایا کہ اپنی بات ہمیں ’ہندستانی‘میں ہی کہنا چاہیے۔ اس بات کا تذکرہ انھوں نے اپنے تجربات پر مبنی کتاب’’میرے تجربات‘‘(ہندی میں میرے انو بھو، سوانح عمری )میں یوں کیا ہے:

’’میں سبھا میں حاضر ہوا۔ وائسرائے کی شدید خواہش تھی کہ میں سپاہیوں کی مدد والی تجویز کی حمایت کروں۔ میں نے ہندی ہندوستانی میں بولنے کی اجازت چاہی۔ وائسرائے نے ا جازت تو دی، لیکن ساتھ ہی انگریزی میں بھی بولنے کے لیے کہا۔ مجھے تقریر تو کرنی نہیں تھی۔ میں نے وہاں جو کہا سو اتنا ہی تھا:’’مجھے اپنی ذمے داری کا پورا خیال ہے اور اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے میں اس تجویز کی حمایت کرتا ہوں۔ ‘‘

ہندوستانی میں بولنے کے لیے مجھے بہتوں نے شکریہ کہا۔ وہ کہتے تھے کہ کہ ادھر کے زمانے میں وائسرائے کی سبھا میں ہندستانی میں بولنے کی یہ پہلی نظیر ہے۔ شکریے کی اور پہلی نظیر کی بات سن کر مجھے دکھ ہوا۔ میں شرمایا۔ اپنے ہی ملک میں ملک سے تعلق رکھنے والے کام کی سبھا میں، ملک کی زبان کا اخراج یا اس کی حقارت کتنے دکھ کی بات تھی!اور میرے جیسا کوئی ہندوستانی میں ایک یا دو جملے بولے، تو اس میں شکریہ کیسا؟یہ واقعہ ہماری گری ہوئی حالت کوباورکرانے والے ہیں۔ سبھا میں کہے گئے جملوں میں میرے لیے تو بہت وزن تھا۔ ‘‘(میرے تجربات، موہن داس کرم چند گاندھی، ویشو بُکس، وشو وجے پرائیویٹ لمیٹڈ، نئی دہلی، صفحہ303ء)

  مہاتما گاندھی نے جب ترکِ موالات اور خلافت تحریک کی کمان اپنے ہاتھوں میں لی تو ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ عوام سے رابطے کا تھا۔ کیوں کہ اب سے قبل انھوں نے اتنی بڑی تحریک، جس میں مسلمانوں کی حصے داری ہو، میں شرکت نہ کی تھی۔ اس معاملے میں مولا نا ابوالکلام آزاد اور مولانا شوکت علی نے ان کی بھر پور مدد کی۔ لیکن جب مہاتما گاندھی کا سابقہ’عدم تعاون تحریک ‘اور ’ترکِ موالات‘ کے معاملے میں مولانا حسرت موہانی جیسے اُردو کے دانشور اورادیب سے پڑا تو وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’میں مولانا جیسی تقریر اُردو میں نہیں کر سکتا‘‘۔ لیکن گاندھی جی نے ہمت سے کام لیااور ہندستانی زبان میں بھرے جلسے میں اپنی بات کہی۔ لکھتے ہیں :

’’مجھے کوئی ہندی یا اُردو لفظ نہیں سوجھا۔ ایسی خاص مسلمانوں کی مجلس میں۔ مدلل تقریر کرنے کا میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔ کلکتے میں مسلم لیگ کی مجلس میں میں بولا تھا، لیکن وہ تو کچھ منٹوں کی اور دل کو چھونے والی تقریر تھی۔ لیکن یہاں تو مجھے مخالف متوالے سماج کو سمجھانا تھا لیکن میں نے شرم چھوڑ دی تھی۔ مجھے دلّی کے مسلمانوں کے سامنے خالص اُردو میں لچھے دار تقریر نہیں کرنی تھی بل کہ اپنی منشا ٹوٹی پھوٹی ہندی (ہندستانی)میں سمجھا دینی تھی۔ یہ کام میں اچھی طرح کر سکا۔ یہ مجلس اس بات کا سیدھا ثبوت تھی کہ ہندی اُردو ہی قومی زبان بن سکتی ہے۔ اگر میں نے انگریزی  میں تقریر کی ہوتی تو میری گاڑی آگے نہ بڑھتی اور مولانا صاحب(مولانا حسرت موہانی)نے جو چیلینج مجھے دیا اُسے دینے کا موقع نہ آیا ہوتا اور آیا بھی ہوتا تو مجھے اُس کاجواب نہ سوجھتا۔ ‘‘(میرے تجربات، موہن داس کرم چند گاندھی، وشو بُکس، وشو وجے پرایئویٹ، لمیٹڈ، نئی دہلی، صفحہ355)

  کانگریس کے خصوصی کلکتہ اجلاس ستمبر1920ء جس میں صدر لالہ لاج پت رائے کو منتخب کیا گیا تھا، گاندھی جی ٹرین میں سفر کرتے وقت اس ادھیڑ بُن میں مشغول رہے کہ ’’اسہیوگ آندولن ‘‘(عدم تعاون)کا مترادف ہندستانی لفظ کون سا استعمال کیا جائے۔ مولانا شوکت علی کی مدد سے گاندھی جی نے عدم تعاون کا مسودہ رات کو ہی دورانِ سفر تیار کیا۔ لیکن مسودے میں سنسکرت نزاد لفظ’’شانتی مع‘‘کو وہ بدلنا چاہتے تھے اس کی جگہ عام فہم لفظ کے استعمال کو ترجیح دینا چاہتے تھے۔ ساتھ ہی اسہیوگ لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ، وہ اس مسودے میں رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد سے تبادلۂ خیال کیا۔ مولانا آزاد کی ایماپرلفظ ’ترکِ موالات ‘کو مسودے میں شامل کیا گیا۔ اس بارے میں گاندھی جی رقم طراز ہیں :

’’مولانا شوکت علی کے کہنے پر میں نے اسہیوگ کی تجویز کا مسودہ ریل گاڑی میں تیار کیا۔ آج تک میرے مسودوں میں اکثر’’شانتی مع‘‘لفظ نہیں آتا تھا۔ میں اپنی تقاریر میں اس لفظ کا استعمال کرتا تھا۔ صرف مسلمان بھائیوں کے اجلاس میں ’’شانتی مع ‘‘لفظ سے مجھے جو سمجھانا تھا وہ میں سمجھا نہیں پاتا تھا۔ اس لیے میں نے مولا ابوالکلام آزاد سے دوسرا لفظ مانگا۔ انھوں نے ’’بہ امن ‘‘لفظ دیا۔ اور اسہیوگ کے لیے’’ترکِ موالات‘‘لفظ سجھایا۔ ‘‘(میرے تجربات، موہن داس کرم چند گاندھی، وشو بُکس، نئی دہلی، صفحہ366)

  مہاتما گاندھی خود ہندستانی کے فروغ اور ترقی کے لیے دن رات کوشاں تھے اور اپنے رفیقوں کو بھی ہندستانی سیکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ گاندھی جی کو اُردو لکھنے۔ پڑھنے اور سیکھنے کا یہ حال تھا کہ انھوں نے مولانا ابوالکلا م آزاد کی ’ترجمان القرآن‘، مولانا شبلی کی لکھی ہوئی’سیرت النبی‘اور صحابہ کی سیرت کا مطالعہ کیا۔ گاندھی جی جب جیل میں ہوتے تو اپنے ساتھ دیگر کتابوں کے ساتھ اُردو کتابیں بھی رکھتے، خاص کر قرآن، بائبل، رامائن اور پریم چند کی لکھی کتابوں کے مطالعے میں مصروف رہتے۔ اہل اُردو کے خطوط کا جواب وہ خود اُردو رسم الخط میں لکھ کر دیتے تھے۔ اس کام میں گاندھی جی کی مدد زہرہ انصاری کرتیں تھیں۔ اُردو املا کی غلطیاں بھی زہرہ انصاری ہی درست کراتیں۔ زہرہ انصاری کے نام گاندھی جی کے نام خطوط میں ان تمام مذکورہ باتوں کا ذکر ہے۔ کبھی کبھی اسی املا کی بنا پر کچھ غلط فہمیاں بھی سر زد ہوئیں اور گاندھی جی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 10؍جنوری1945ء کو سبط حسن کے نام لکھے خط میں گاندھی جی نے ہندی اور اُردو دونوں زبانوں کی ترقی کی بات کہی۔ لیکن مخالفین نے گاندھی جی کے اس نظریے پر ان کی خوب مذمت کی۔ اور ان پر یہ الزام عائد کیا کہ گاندھی جی اپنے ہندستانی کے نظریہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ لیکن تمام شکوک و شبہات کو انجمن ترقی اُردو( ہند)نئی دہلی، نے خط کا عکس شائع کر کے دورکیا۔ خط کا مضمون اس طرح ہے:

’’سیوا گرام

وردھا، سی۔ پی

10؍فروری1945ء

   بھائی سبط حسن

آپ کا خط ملا۔ مجبور ہوں۔ میں آ تو نہیں سکتا۔ صرف اُردو کی یا یا صرف ہندی کی حمایت مجھ میں نہیں رہی۔ میں دونوں کی ترقی چاہتا ہوں۔ دونوں ملیں اپسے بھی چاہتا ہوں۔ اُمید ہے آپ میری مراد سمجھے ہونگے۔

  آپکا

  مو۔ ک۔ گاندھی‘‘(ایک دل چسپ غلط فہمی، شہاب الدین دسنوی، ہماری زبان، انجمن ترقی اُردو(ہند)نئی دہلی، 22؍مارچ1985ء صفحہ9)

 گاندھی جی علامہ اقبال کی شاعری اور شخصیت دونوں سے بہت مانوس تھے۔ خاص کر1904ء میں اقبال کی لکھی نظم’’ترانۂ ہندی‘‘اور ’’نظم ہمالہ ‘‘کو وہ خوب پسند کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر کسی شخص کو ہندستانی زبان کا تصور اور اس کی صحیح شکل کو دیکھنا ہے تو اسے’’ترانۂ ہندی ‘‘کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ گاندھی جی کو یہ نظم کس قدر پسند تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اکثر اس کو گنگناتے تھے اور اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس کے اشعار کو استعمال کرتے تھے۔ 25؍جنوری1948ء کو قومی زبان کے مسئلے پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے گاندھی جی نے لکھا:

’’میں اس نظم کی زبان کے بارے میں کیاکہہ سکتا ہوں۔ ہندی، ہندستانی یا اُردو؟ممکن ہے میں اپنے وچاروں میں اکیلا ہوں گا، لیکن یہ بات صاف ہے کہ یہ سنسکرت مشرت ہندی ہے، نہ فارسی آمیز اُردو، یہ صرف ہندستانی ہے۔ جس کی آخر کار جیت ہونے والی ہے۔ ‘‘(اقبال اور ممبئی، پروفیسر عبدالستار صدیقی، انجمن اسلام اُردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ممبئی، 2012ء، صفحہ124)

 گاندھی جی کو جب علامہ اقبال کے انتقال کی خبر ملی تو انھوں نے ایک تعزیتی خط محمد حسین کے نام اقبال اور ان کی نظم ترانہ ٔ ہندی کے بارے میں، مورخہ9؍جون1938ء کو تحریر کیا۔ لکھتے ہیں :

’’مورخہ9؍جون1938ء

 بہائی محمد حسین۔

آپ کا خط ملا۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے بارے میں میں کیا لکھون؟لیکن اتنا تو مین کہہ سکتا ہون کہ جب انکی مشہور نظم ’’ہندوستان ہمارا‘‘پڑھی تو میرا دل اُبھر آیا۔ اور یارودہ جیل مین تو سینکڑون بار مینے اس نظم کو گایا ہوگا۔ اس نظم کے الفاظ مجھے بہت ہی میٹھے لگے اور یہ خط لکھتا ہون تب ہی وہ نظم میرے کانو مین گونج رہی ہے۔

  آپکا

  مو۔ ک۔ گاندھی‘‘(انتخاب نثر اُردو۔ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی، اگست2009ء، صفحہ9)

 ملک تقسیم ہونے کے بعدہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے ’’ہندی زبان‘‘کو دیو ناگری رسم الخط کے ساتھ ہندوستان کی سرکاری زبان کے طور پر منظور کیا۔ لیکن مہاتما گاندی اپنے ہندستانی کے نظریہ پر استقلال سے جمے رہے۔ ہندستانی پرچار سبھا کی نگراں مسز پیرن کیپٹن نے ملک میں ہندی کے بڑھتے پرچار سے گبھرا کر گاندھی جی سے خط و کتا بت شروع کیا۔ گاندھی جی نے پیرن کیپٹن کے نام جو خط تحریر کیے ان کے تراجم اس طرح ہیں۔

(1)

47؍7؍25

نئی دہلی

خدا ہی جانتا ہے کہ ہمارے نصیب میں کیا ہے۔ پرانا نظام بدلتا ہے اور نئے کے لیے جگہ بناتا ہے کوئی چیز مستقل نہیں ہے۔ آئین ساز اسمبلی کا فیصلہ کچھ بھی ہو۔ میرے اور آپ کے لیے ہندستانی دو رسم الخطوں کے ساتھ بر قرار رہے گی۔

(2)

47؍7؍25

نئی دہلی

آپ کا خط ملا۔ میں نے کل ہندوستانی کے بارے میں جو کچھ کہا اس سے آپ کو اتفاق ہے۔ مجھے اور آپ کو آخری دم تک اس مقصد کے لیے سخت جدو جہد کرنی ہوگی۔ ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ‘‘

(3)

’’میرے نزدیک راشٹر بھاشا کا مطلب ہندی+اُردو=ہندوستانی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ملا کر اس بڑے اصو ل کی پابندی کی جائے۔ جس کے معنی ہیں ہندی اُردو امتزاج۔ ‘‘(مہاتما گاندھی اور زبان کا مسئلہ۔ سید شہاب الدین دسنوی، ہماری زبان، انجمن ترقی اُردو(ہند)نئی دہلی، شمارہ4، جلد44، 22؍جنوری1985ء، صفحہ اول)

    تقسیم ِ ملک کے ہندستانی زبان کو ملک کی قومی زبان بنانے کے مسئلے پر کانگریس پارٹی میں اند رونی اختلافات تھے۔ کانگریس پارٹی کاایک گروہ چاہتا تھاکہ ہندی کو سرکاری زبان بنایا جائے اور دوسرا گروہ چاہتا تھا کہ ہندستانی کو ہندوستان کی قومی زبان بنایا جائے۔ آخر کار اس نازک مسئلے پر رائے شماری کا فیصلہ کیا گیا۔ دونوں زبانوں کے حق میں برابر برابر ووٹ پڑے۔ لیکن صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرسادنے اپنا کاسٹنگ ووٹ ہندی زبان(دیو ناگری خط کے ساتھ) کے حق میں دیا۔ اور اس طرح ہندستانی محض ایک ووٹ سے ملک کی قومی زبان بننے سے محروم ہو گئی۔ تب سے لے کر آج تک یہ زبان اپنے جائز حق، مقام اور سہولات سے محروم ہوتی چلی گئی۔ جس زبان کا مولد و مسکن ہندوستان ہو، جس کی آب یاری میں بلا تفریق مذہب و ملت لوگوں نے قربانیاں دی ہوں، اس کے سیکولر مزاج پر، سماج کے سر پسند عناصربرابر اُنگلی اُٹھاتے آ رہے ہیں۔ یہی لوگ جب عوام کے درمیان جاتے ہیں تو اُردو کے میٹھے بولوں سے عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ تقریر ہو یا تحرہر، پارلیا منٹ ہو کہ عوامی خطاب، ہر جگہ بغیر اُردو، لیڈران کا کام نہیں چلتا۔ عوام کا بڑا طبقہ اُردو ہی بولتا ہے لیکن لا علمی کے سبب اسے ہندی قرار دیا جاتا ہے۔ روز ِ اول ہی سے اُردو نے لوگوں کو جوڑنے کا کام کیا ہے، توڑنے کا نہیں۔ گاندھی جی نے تا حیات اُردو ہندی کے ملاپ کی بات کی۔ وہ ایک مشترکہ زبان کے حامی تھے۔ انھوں نے 15؍اکتوبر1947ء کو ’’ہری جن‘‘ اخبارمیں مسلمانوں کی وفاداری، اُردو زبان اور اس کے سیکولر تانے بانے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا:

’’اگر ہندوستان کے مسلمان ہندوستان کے وفادار ہیں اور انھوں نے اپنی آزاد مرضی سے اس ملک کو اپنا ملک بنایا ہے تو اُن کا فرض ہے کہ وہ دونوں رسم الخط سیکھیں۔ ۔ ۔ ۔ یونین کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک ایسی مشترک زبان ہو جو تمام صوبوں میں پڑھی اور لکھی جا سکے۔ میں تو ایک قدم اور آگے جاؤں گا اور کہوں گاکہ اگر دونوں ملک( پاکستان اور ہندوستان)ایک دوسرے کے دوست رہیں تو ہندوستانی زبان کو اُن دونوں کے درمیان ’’مشترک زبان‘‘ہونا چاہیے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اُردو اور ہندی ایک جدا گانہ بولی کی حیثیت سے باقی نہ رہیں۔ ان دونوں کو باقی رہنا چاہیے۔ اور ترقی کرنی چاہیے۔ لیکن اگر ہندوستان میں ہندواور مسلمان بل کہ تمام مذاہب کے لوگ آپس میں دوست ہوں تو انھیں ایک ایسی مشترکہ زبان کو قبول کرنا چاہیے جو ہندی اور اُردو کے اشتراک سے پیدا ہوئی ہو۔ انھیں دونوں رسم الخط سیکھنے چاہیئں۔ اور یہی انڈین یونین کے ہندو اور مسلمانوں کا امتحان ہوگا۔ ‘‘(رسالہ جامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جلد نمبر97، شمارہ10۔ 12، اکتوبر تا دسمبر2000ء، مدیر، شمیم حنفی، صفحہ41)

 گاندھی جی بات سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے کہ ملک کی سا  لمیت اور قومی یکجہتی کا تانا بانا صرف اور صرف ہندستانی زبان کے نفاذ میں ہے۔ میں اپنی بات مہاتما گاندھی کے 18؍دسمبر1947ء کے زبان کے مسئلے پر دئے گئے بیان(میرے بعد میرے الفاظ یاد کرو گے!) پرختم کرتا ہوں :

’’لالہ لاج پت رائے میرے دوست تھے اور میں انھیں یہ کہہ کر چھیڑا کرتا تھا کہ آخروہ کب خالص ہندی زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھیں گے۔ لالہ جی کہا کرتے تھے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے (حالاں کہ وہ بہت پُر جوش آریہ سماجی تھے )ا س لیے کہ ان کی مادری زبان اُردو ہے۔ اسی زبان میں وہ جلسوں کے حاضرین کو مسحور کر دیا کرتے تھے۔ میں دو دفعہ ہندی ساہتیہ سمیلن کا صدر رہ چکا ہوں اس وقت تو سمیلن قومی زبان کے متعلق میری کوششوں کا سواگت کرتی تھی مگر اب کیوں وہ اس بات کو نا پسند کرتی ہے۔ کیا اُردو اور ہندی کو ملا کر ایک زبان بنانے کی کوشش کر کے میں کم تر درجے کا ہندو یا ہندوستانی ہو گیا؟کیا وہ ایک اَکھِل بھارتی بھاشا کی سیوا کر سکتے ہیں، اگر اُردو لیپی اور بھاشا کو اس سے نکال دیا جائے، میں ہمہشہ تمہارے پاس رہوں گا نہیں، مگر تم میرے رخصت ہو جانے کے بعد میرے شبدوں کو یاد کروگے۔ عدم رواداری مذہب کی نفی ہے۔ ‘‘(رسالہ جامعہ، جلد نمبر97، شمارہ10۔ 12، اکتوبر تا دسمبر2000ء، صفحہ43)

تبصرے بند ہیں۔