تہذیبوں کے تصادم کی آہٹ

جارج بش سینئر نے 11ستمبر 1990ء کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پہلی خلیجی جنگ کے مقاصد بیان کئے۔ جنگ کا پانچواں مقصد دنیا کے نئے اہتمام (نیو ورلڈ آرڈر ) کو قرار دیا ۔ صدر بش کا خیال تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امن وانصاف کے قیام اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے دنیا کے نئے اہتمام کی ضرورت تھی جس کی بنیاد جمہوریت ،ا قوامِ عالم کے باہمی تعاون اور مشترکہ ذمہ داری کے اصولوں پرہوگی۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر امریکی ماہر سیاسیات فرانسس فوکویاما نے 1992ء میں اپنی کتاب "تاریخ کا اختتام اور آخری آدمی” میں پیشین گوئی کی کہ سرد جنگ کا خاتمہ انسانی تاریخ کااختتام ثابت ہوگا۔ انسان کی نظریاتی ، معاشرتی، اور ثقافتی ارتقا ء مکمل ہو چکی چنانچہ منڈی کی معیشت اور آزاد مغربی جمہوریت انسانی طرزِ حکمرانی کیلئے آفاقی حیثیت اختیار کرجائے گی ۔ تاہم اسی سال فرانسس کے استاد سیموئل فلپس نے اپنے شاگرد کے نظریئے کے برعکس پوزیشن لی۔ اپنے ایک لیکچر کے دوران تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا اور 1996ء میں اسے "تہذیبوں کا تصادم اور دنیا کا نیا اہتمام” کے نام سے کتابی شکل دی۔ سیموئل فلپس نے لکھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے باوجود بنی نوع انسان کے مابین تصادم ہو گا تاہم آئندہ اس کی بنیاد ثقافتی اور مذہبی شناخت ہو گی۔

عرب اور مسلم دنیا کے کچھ ماہرین کو بدگمانی تھی کہ نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد ابھرنے والی واحد سپر پاور امریکہ کی آمرانہ عالمی حکومت کا قیام تھا۔ انہیں یہ بھی شبہ تھا کہ مشترکہ ذمہ داری اور باہمی تعاون کے اصول کا غلط استعمال ہوگا۔ واحد سپر پاور اقوام متحدہ کے کمزور ادارے کو استعمال کرکے کسی بھی ملک پر مشترکہ چڑھائی کاجواز حاصل کرلیا کرے گی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اگست 1990ء سے جنوری 1991ء تک کاآپریشن صحرائی طوفان عراق میں صدام حسین کی حکومت کو اڑا لے گیا ۔ اس کے کوئی دس برس بعد 9/11کے سوگوار دن جارج بش جونیئر نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کو صلیبی جنگ سے تشبیہ د ی ۔7ستمبر 2002ء کو امریکی میگزین کاؤنٹر پنچ میں مضمون نگار الیگزینڈر کاک برن نے اسے وسطی صدیوں کی نوصلیبی جنگوں کے بعد دسویں صلیبی جنگ قرار دیا۔چنانچہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کے نعرے کے ساتھ "صلیبی” جنگوں کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔ اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے عراق، شام، افغانستان ، پاکستان اور کئی دیگر ممالک میں اتحادی افواج نے کارروائیاں کیں۔ دوسری طرف بہارِ عرب کے نام پر مصر، لیبیا، یمن اور تیونس کی مضبوط حکومتوں کو گرا دیا گیا۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ جارج بش کے نیو ورلڈ آرڈر کا نفاذ مسلسل جاری ہے۔

پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کی طرف سے تعلقات میں حالیہ کشیدگی کے پسِ منظر میں شکیل آفریدی ، حقانی نیٹ ورک ، لشکرِ طیبہ کے علاوہ پاکستانی ایٹمی اثاثے، توہینِ رسالت کے قوانین اور مذہبی آزادی کا "خراب ” ریکارڈ وغیرہ شامل ہیں۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی اپنی رپورٹس میں 2002ء سے 2015ء تک پاکستان میں مذہبی آزادی کے لحاظ سے بدترین صورتحال کی منظر کشی کررہاہے۔برما، چین، اریٹیریا، ایران، شمالی کوریا، سعودی عرب، سوڈان ، ازبکستان اور تاجکستان کو پہلے ہی بین الاقوامی ایکٹ برائے مذہبی آزادی 1998ء کے تحت ” ایک خاص تشویشناک مسئلے والا ملک” قرار دے کر بلیک لسٹ کیا جاچکا ہے۔ پاکستان، وسطی افریقی جمہوریہ، مصر، عراق، نائیجیریا، شام اور ویت نام تاحال زیرِ غورہیں ۔ امریکی کمیشن کو گلہ ہے کہ پاکستان میں مسلمان طلبہ کو حفظِ قرآن کے اضافی نمبر ملتے ہیں جس کی بنا پر غیر مسلم طلبہ پروفیشنل کالجوں میں داخلوں سے محروم رہتے ہیں۔مزید یہ کہ پاکستان نے توہینِ رسالت کے قوانین میں ترمیم یا انہیں منسوخ کرنے اور نصابی کتب سے جہاد اور اقلیتوں کے خلاف قابلِ نفرت مواد ہٹانے کیلئے اقدامات نہیں کئے۔ الٹا اکتوبر 2014ء میں خیبر پختونخواہ کی حکومت نے جہاد سے متعلق مواد کو دوبارہ تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کا اعلان کیا ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جس روز کسی مذہبی تنظیم نے ہم جنس پرستوں کے خلاف توہین رسالت کے مجرموں کی طرح ازخود کاروائی شروع کردی اسی روز پاکستان کو مذکورہ بالا قانون کے تحت بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔

اسلامی دنیا کے خلاف اب تک کی بیشتر امریکی کاروائیاں دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کالبادہ اوڑھے ہوئے تھیں ۔ البتہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کو سنجیدگی سے لیا جائے تو آنے والے برسوں میں پروفیسر سیموئل فلپس کے تہذیبوں کے تصادم کی آہٹ سنی جاسکتی ہے۔ دسمبر 2015ء میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ صدر بنے تو مسلمان آئندہ امریکہ میں داخل نہیں ہوسکیں گے اور باراک اوبامہ جن مسلمانوں کو امریکہ لے آئے ہیں وہ سب جان لیں کہ وہ بس جانے کو ہیں یا جا چکے ہیں۔ لندن کے نومنتخب میئر صادق خان نے ٹرمپ کے بیان کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیلنے، امریکہ اور انگلستان دونوں کو غیر محفوظ بنانے اورمسلمانوں کے مرکزی دھارے کو اپنا دشمن بنانے کے مترادف قرار د یا۔ ٹرمپ نے اسامہ بن لادن کی کھوج میں سی آئی اے کے مددگار شکیل آفریدی کوصرف دو منٹ میں پاکستان سے امریکہ لے جانے اور پاکستانی ایٹمی ہتھیار وں کی حفاظت کیلئے کم از کم 10ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ان اعلانات سے حفاظت کی اصطلاح کے نئے معنی اورامریکہ پاکستان دوستی کی نوعیت سمجھ میں آتی ہے ۔ چھبیس سال قبل تباہ کن ہتھیارتلف کرنے کابہانہ بناکرعراق کی آزادی چھین لی گئی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ "سب سے پہلے امریکہ” کا ایجنڈا رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگجویانہ بیان بازی نے امنِ عالم کی خواہشمند مہذب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف موصوف کی پرستارانتہا پسند بھارتی ہندو تنظیموں نے ان کی کامیابی کیلئے مندروں میں خصوصی پوجا پاٹھ شروع کررکھی ہے۔ تاریخ دان ششدر ہیں۔ کیا غیر سنجیدہ مزاج رکھنے والا 69سالہ ارب پتی اور ریئل اسٹیٹ ڈویلپردنیا کی واحد سپر پاور کاحکمران بن کر تہذیبوں کے تصادم کے نظریئے کو واقعی حقیقت میں بدل ڈالے گا؟ اور اگر خدانخواستہ ایسے کسی تصادم میں ایٹمی ہتھیاررکھنے والی ریاستیں برسرِ پیکار ہو گئیں تو کرۂ ارض پر آگ اور خون کے ہولناک کھیل کے بعد حیاتِ انسانی کا مستقبل کیاہوگا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔