پردے کی آہ و زاری

خلوت ملی، شور شرابے سے فرصت ملی، بہت سوچ و فکر سے گذر کر سویا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ
ایک عجیب دنیا ہے !
کوئی نظر نہیں آرہا تھا!
مگر ایک دھیمی سسکی کی آوازبہت دور سے آرہی تھی،
قریب جاکر دیکھا تو ایک عورت آہستہ رورہی ہے۔
پوچھا کہ تو کون ہے؟ کیوں رو رہی ہے؟ تیری داستان کیا ہے؟
تو اُس نے سرد لہجہ میں جواب دیا کہ تمہارا اس سے کیا لینا دینا؟ میری داستان سن کر کیا کرو گے؟
میں سنبھلتے ہوئے پھر سے پوچھا کہ فسردہ حالت میں اگر کسی کو دیکھیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ کیفیت دریافت کریں، اس لیے پوچھ رہا ہوں اگر تمہیں بار لگتا ہے تو مت بتائو۔
تو اُس نے ایک لمبی سانس لے کر کہنے لگی کہ
’ میرے اس حال کی وجوہات میں سے تم بھی ایک ہو،
اور سنو کہ میں پردہ ہوں،
مجھے مختلف لوگوں نے مختلف نام دیا ہے ، جیسے حجاب، چلمن ، پردہ، دُپٹّہ، دامنی، چادہ ، جلباب وغیرہ۔
حیا قبا ہے میری، پاکیزگی روح، شرم زیور ہیں میرے، اورلاج و غیرت زر ہیں ، دنیا مجھے دیکھ کر عزت سے نظر نیچی کر لیتی ہے، یہی میری فوقیت و توقیر ہے۔ اسی غیرت سے میرا سر بلند ہے۔
وہ بڑے ہی دلچسپی سے اپنا حال بیان کرنے لگی، تو میرا اضطراب بڑھنے لگا اور غور سے سُن نے لگا۔وہ اپنی داستان سناتی جارہی تھی ۔
’آدم وحوا نے مجھے اپنایا، حاجرہ ، سارہ سے لے کر مریم و امینہ، خدیجہ و فاطمہ تلک، انسویہ سیتا تلک نے میر ی توقیر کی۔
میں ازل سے اللہ کی ایک عظیم نعمت ساتھ لے کر چلتی ہوں، جس نے اسے پہچانا وہ مجھے اپنایا، وہ ایک ایسی نعمت ہے جو نظر آتی مگر زینتِ انسانیت، قدرِ آدمیت ، چاہتِ یزداں، نغمئہ فطرت ، پوشیدہ رحمت بن کے ہمیشہ میرے ساتھ اور میری عزت کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اللہ کی ذات بھی پردے میں، رسولؐ کی عظمت بھی، رام کی تدریس بھی اور کرشن کی تعلیم بھی۔ خدا پردے میں نہ ہوتا تو دنیا ہی نہ قیام پاتی اور نہ ہی عملِ تسلسل سے وابستہ ہوتی،
اور قیامت آجاتی۔
معراج میں محبوب سے بے پردہ ہونے پر بھی پردہ ہے،
موسیٰ کلیم اللہ طور پر پردے میں ہی ملے ورنہ طور کی جگہ ساری کائنات جل جاتی۔
خیر یہ سمجھ سے ذرااونچی باتیں ہیں چھوڑو جانے دو۔
جو میری عزت کرتے ہیں میں اُن کی عزت کرتی ہوں۔
گر تم مجھے اپنانا نہیں چاہتے، تو کوئی بات نہیں، مت اپنائو۔ کم از کم میری ذات کو پردے میں رکھو!
کیوں میری ذات کو بے پردہ کرکے بازاروں میں لاتے ہو!
میرے نام سے بازار کیوں گرم کرتے ہو؟ میری آڑ میں برائی کیوں کرتے ہو؟
میری آڑ میں برائی کرنے والو سنو!
تمہارے حشر کا اگر تمہیں پتہ چل جائے تو تم پا رہ پارہ ہوجائو گے!
مجھے میرے حال پر چھوڑدو، میرے محب میرے لیے کافی ہیں۔
مجھے نہ اپنانے والوں کے حالات تو دنیا میں روشن ہیں ہی۔ خدا چاہتا ہے اور اپنے کلام میں کہتا ہے کہ میرے بندوں کی نسلوں کو پاک دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر بے پردگی اتنی بڑھی کہ دنیا والوں کے نسلی سلسلے خطرہ میں پڑ گئے، ان کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ لوگ ایسے کام کرنے لگ گئے کہ لوطؑ کی قوم بھی شرم سے چورہوجائے۔
ترقی کے نام پر میرے چیتھڑے تو اُڑا گئے! اور خود کیا رہ گئے؟
نہ عصمت رہی نہ آبرو۔
جنس کی پہچان بھی گئی،
ہم جنسی رشتے بڑھتے چلے جارہے ہیں،
شیطان تمہارے نام کانپ رہا ہے!
تم پر لعنت بھیجنے بھی جی نہیں کرتا ،
کیوں کہ لعنتیوں کا بھی کچھ معیار ہوتا ہے،
تم تو اس سے بھی گئے گزرے ہو۔‘‘
یہ پردے کی آہ و زاری ملامتیں لعنتیں سُن کر ذرا گھبراسا گیا اور کہا کہ
’’بی پردہ، ذرا خود کو تھامو، تمہاری آہ و بکا ، شکوہ گلہ بجا ہے، مگر عصمت و آبرو پر مرمٹنے والی قومیں آج بھی زندہ موجود ہیں، تمہاری عزت آج بھی برقرار ہے، کیوں فکر کرتی ہو!
بی پردہ پھر ایک بار چیخ بھرے لہجہ میں کہنے لگی،’’ عزت؟ میری عزت تو چند غیرت مند غریبوں میں با قی رہ گئی ہے، یہ دنیا کے امیر؟
یہ تو عریانیت کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔
جس ذات پر مجھے فخر تھا وہ ذات تھی عورت، مگر وہ آج فیشن شو میں چند سکوں کے لئے اتنی ننگی ہوگئیں کہ لفظ عریانیت لغت سے شرما کر بھاگ گیا۔ عورت ، دنیا کے آگے ننگی آنا شان سمجھتی ہے، اور مرد! مرد عریانیت کا پجاری ہوگیا، اور عورتوں کو آگے رکھ کر اپنی تجارتیں کر رہا ہے۔
میری عزت اگر بچی ہے تو چند غرباء میں جو دیہاتوں میں ہیں، یا وہ چند جن کے من میں نورِ حق موجود ہے۔‘‘
نیند سے میں بڑ بڑا کر اُٹھا،
جدید نسل کا نمائندہ ٹیلی ویژن آن کیا تو ننگی تصویریں استقبال کرنے لگیں جن کو ’مس ورلڈ ، مِس یونی ورس، مِس ایشیا، مِس انڈیا‘ جیسے ’’ایوارڈس‘‘ مل چکے ہیں۔
سب کچھ مِس، کائنات مِس، دنیا مِس، ایشیا مِس، انڈیا مِس، سب کچھ مِس۔
آخر کار ان منحوس چیزوں کو اعزازات کا نام دے کر کس نے مروِّج کررکھا ہے؟
آخر وہ کونسا بین الاقوامی ذمہ دار ادارہ ہے جس کو یہ سب کرنے کی اجازت ہے اور یہ سب کر رہا ہے؟
آخر ان حرکتوں کو سرِ عام کرنے کی ذمہ داری کس نے سونپی؟
خیر۔۔۔ دل کیوں جلانا ، اخبار کھولا، تو صبح نو کی خوش آمدید لے کر عریاں تصاویر مسکراتی ہوئی نظر آئیں۔
مجھے ایسا لگا یہ اخبار غیر ذمہ دار لوگوں کی لکھی ذمہ دار بکواس ہے،
مگر ہم بھی کچھ کم اعزازات کے نہیں ہیں، یہ بکواس ہی ہماری چائے اور ناشتہ ہے، اس کے بغیر ہماری صبح کا سورج طلوع نہیں ہوتا۔ خیر صبح کی چائے کے لیے گھر کے باہر نکلا۔
ریڈیو میں گیت آرہا تھا ’’ رُخ سے ذرا نقاب اُٹھائو میرے حضور، جلوہ پھر ایک بار دکھادو میرے حضور‘‘
یہ گیت سن کر گلی سے گذرتا ہوا ایک من چلا ہنستا ہوا بول رہا تھا
’ کیا پاگل گیت ہے یار، آج کل کی عورتوں کو پر دہ ہوتو نا اُٹھائیں گی!
ہنسنے لگا اور یہ گانا شروع کیا ’’ تو میرے ساتھ اک رات گذار۔۔۔۔‘
مجھے افسوس بھی ہورہا تھا، زمانے پہ گھن بھی آرہی تھی،
یہ کوئی گیت ہے؟ اس کا شاعر بھی کوئی شاعر ہے؟ شاعر نہیں کچھ اور ہی لگ رہا تھا۔
اس کو سینسر بورڈ نے اجازت ہی کیسے دی؟
لگتا ہے سینسر بورڈ کا سینس بھی عورتوں کے سر کے دوپٹے کی طرح اُڑ گیا ہے۔
کس کس کو دوش دوں؟
میری زبان سے بے ساختہ یہ مصرع نکلا
’’ میں ایک ہاتھ سے کتنے دیے بجھاؤں گا‘‘
پھر بھی دل میں ایک عجیب قوت سی محسوس ہورہی تھی، ارادہ کچھ پختہ سا محسوس ہونے لگا، قطرہ قطرہ سے سمندر بنتا ہے، میں قطرہ ہی سہی، لیکن اُس وسیع سمندر کا حصہ ہوں، سمندر کے بغیر میرا وجود بے کار ہے، اور میرے بغیر سمندر بھی ایک قطرہ چھوٹا ہوجاتا ہے،
میں اپنا قطرہ کا وجود لے کر سمندر کی طرف جانے لگا۔
دوسری رات پھر سے میں نے خواب میں بی پردہ کو دیکھا لیکن آج اُس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھی۔
صبح کو آئنہ میں میرے چہرے پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ رقصاں کرتی نظر آئی، من کا بوجھ بھی تھوڑا ہلکا سا محسوس ہونے لگا۔
باہر ریڈیو پر گیت آرہا تھا، ’’ پردہ تو ہے حسن کی زینت۔۔۔۔‘‘
کل کا وہ نوجوان بھی گلی سے گذر رہا تھا۔
آج اُس کی زبان پر بیہودہ کلمات نہیں تھے،
اور اُس گیت کے لیے کوئی تنقیدی کلمات بھی نہیں۔
آج اُس کے ساتھ اُس کی آٹھ سالہ بیٹی تھی ،
جو سر پہ دوپٹّہ اوڑھے ہوئے تھی،
غالباً باپ اُسے مکتب چھوڑنے جارہا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔