پانی کی قلّت کا مسئلہ – اسلامی نقطۂ نظر

امسال ریاستِ مہاراشٹر میں خصوصیت سے پانی کی قلت ہی نہیں شدید قلت کا شکوہ کیا جا رہا ہے، خبروں کی مانیں تو پانی کے سبب کہیں دفعہ 144 کا نفاذ تو کہیں سویمنگ پول بند کر دیے گئے ہیں، اس کے باوجود کچھ بے حس لوگ انسانوں کے پینے کا پانی اینٹ گارے میں استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ ہندستان میں ایسے افراد کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جنھیں پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں اور اس ملک میں پانی کے زیرِ زمین ذخائر انتہائی تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور دریاؤں کا پانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔بین الاقوامی ادارے ’انٹرنیشنل چیرٹی واٹر ایڈ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 76 ملین ہندستانی یا تو پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں یا پھر ایسا پانی استعمال کر رہے ہیں جو گٹروں کے گندے پانی یا زہریلے کیمیائی مادّوں سے آلودہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں 650 ملین افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے لیکن افریقہ اور چین کے مقابلے میں ہندستان میں اس حوالے سے صورتِ حال سب سے زیادہ خراب ہے۔’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ (WHO) کے مطابق جن ہندستانیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ان میں سے ہر ایک اوسطاً روزانہ تیرہ گیلن پانی خریدنے کے لیے تقریباً پچاس روپے خرچ کر رہا ہے اور یہ رقم اس کی روزانہ آمدنی کا تقریباً بیس فیصد بنتی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ہندستان میں پانی کے وسائل کا خراب انتظام اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ہندستان میں صاف پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، جس کا براہِ راست نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سالانہ بے شمار لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ تین لاکھ پندرہ ہزار بچے اسہال کی وجہ سے انتقال کر جاتے ہیں، ان میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار ہلاکتیں ہندستان میں ہوتی ہیں۔ہندستان کو پہلے ہی آبی وسائل کی شدید قلت اور خشک سالی کا سامنا ہے جب کہ اس ملک کے دریا بھی تیزی سے آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہندستان میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور اس کی وجہ دیہات میں لگائے گئے کسانوں کے بے شمار ٹیوب ویل بتائے گئے ہیں۔ اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور بارشوں میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق اگر صورتِ حال ایسی ہی رہی تو آیندہ پندرہ برسوں میں ہندستان اپنی صنعتی، شہری اور زرعی ضروریات کا صرف نصف حصہ ہی پورا کر سکے گا۔ ہندستان کے کئی شہروں‘ جن میں نئی دہلی بھی شامل ہے اور شمالی ریاست راجستھان میں پانی دکانوں پر بکنا شروع ہو چکا ہے جب کہ ناگپور اور مہاراشٹر کی ریاست میں پانی کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے کئی نجی اسکیمیں بھی متعارف کرائی گئی ہیں۔
مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ہم الحمد للہ مسلمان ہیں اور ہر معاملے میں قرآن وحدیث سے رہ نمائی حاصل کرنا فخر سمجھتے ہیں، جس کے نتیجے میں درجِ ذیل باتیں اپنے قارئین کے سامنے عرض کرنے کو ہمارا جی چاہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:پانچ اعمال پانچ خرابیوں کا ذریعہ بنتے ہیں؛(۱)جب کوئی قوم وعدہ خلافی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن مسلط کردیتے ہیں(۲)جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے ہٹ کر فیصلہ کرتے ہیں ان پر فقر نازل ہوجاتا ہے(۳)جس قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے ان پر ناگہانی موت کی آفت بھیج دی جاتی ہے(۴)جو لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ان کی پیداوار روک لی جاتی اور ان پر قحط سالی بھیج دی جاتی ہے(۵)جو لوگ زکوٰۃ روک لیتے ہیں ان سے بارش روک لی جاتی ہے۔(معجمِ کبیر طبرانی)
اس حدیث کو بغور پڑھیں اور بار بار پڑھیں، پھر سوچیں کہ مذکورہ بالا گناہوں میں سے کون سا گناہ ایسا ہے جو ہمارے معاشرے میں رائج نہیں اور اگر یہ سب باتیں ہمارے معاشرے میں رواج پا چکی ہیں اور یقیناًرواج پا چکی ہیں تو نتیجۃً مخبرِ صادق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن آفتوں کے آنے کی خبر دی ہے، ان کاپیش آنا ناگزیر ہے، اس لیے کہ ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اطہر سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ سچا اور حق ہے!
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو زندگی دی ہے اور اس کے جو لوازمات رکھے ہیں،وہ سارے کے سارے ہر وقت انسان کو یہ یاد دلانے کے لیے ہیں کہ اُسے اپنی بندگی کا اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور خُدائی کا احساس رہے لیکن انسان ہے کہ اس حقیقت سے رو گرداں رہتا ہے اور اپنے آپ کو خدا اور اس کی قدرت کے بالمقابل کھڑا کر لیتا ہے، ظاہر ہے اس کے نتیجے میں اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔وہ انسان جو اپنی بڑائی میں زمین و آسمان کے قُلابے ملاتاہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ اگر چاہے تو سارے جَتن کرنے کے باوجود اپنی چھوٹی سے چھوٹی ایک ضرورت بھی پوری نہیں کر سکتا، جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اس کے شاملِ حال نہ ہو۔یوں تو ہر ہر سانس اور لمحے میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کو ہم استعمال کرتے ہیں لیکن من جملہ ان کے پانی اور ہوا کے بغیر کرۂ ارض پر زندگی کا تصور محال ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ غذا کے بغیر انسان کئی دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے، مگر پانی کی عدم موجودگی میں اس پر جلد ہی عرصۂ حیات تنگ ہو جاتا ہے۔پانی کی ضرورت انسان کو براہِ راست بھی ہے اور بالراست بھی، اس لیے کہ فصلوں وغیرہ کے لیے بھی پانی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے بلکہ پانی انسان و حیوان اور تمام جان داروں کے لیے یکساں ضروری ہے۔پانی؛ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایسی نعمت ہے، جس کے بغیر انسان تو کجاچرند، پرند اور درند نیز درخت واشجار کا بقا بھی ناممکن ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(مفہوم)’ ہر جان دار کی تخلیق میں پانی کا دخل ضروری ہے‘ اور جان دار وذی روح اہلِ تحقیق کے نزدیک صرف انسان اور حیوانات نہیں بلکہ نبابات اور جمادات میں بھی روح اور حیات ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ پانی کو ان سب چیزوں کی تخلیق وایجاد اور ارتقا میں بڑا دخل ہے۔ (معارف القرآن)
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اس نعمتِ بے بہا کی قدر وقیمت کا صحیح اندازہ نہیں اور اسی لیے ’قدرِ نعمت بعد از زوالِ نعمت‘ کے اصول کے مطابق آج ہمیں پانی میں کٹوتی یا بعض علاقوں میں قحط کا سامنا ہے۔ اس موقع پر ایک مسلمان ہونے کے ناطے مضمون نگار، آپ حضرات کی توجہ اس فرمانِ الٰہی پر مبذول کرانا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا؛(مفہوم)آپ کہہ دیجیے!ذرا یہ بتلاؤ کہ اگر کسی صبح تمھارا پانی (جو کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا گیا ہے) نیچے کو اتر کر غائب ہوجائے تو کون ہے جو تمھارے لیے شفاف پانی لائے؟(الملک)
اس ارشادِ ربانی اور موجودہ صورتِ حال کو دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت کے ذریعے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ تم پر لازم ہے کہ اس پانی کی قدر کرو اور پانی کے بے دریغ یا ضرورت سے زائد استعمال سے احتراز کرو۔کسی چیز کا جائز جگہ پر ضرورت سے زائد استعمال ’اسراف‘ اور ناجائز جگہ پر استعمال تبذیر کہلاتا ہے اور یہ دونوں ہی اسلام میں ناپسندیدہ و حرام ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے ارتکاب سے روکا ہے اور جب کسی نعمت کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، اس سے اللہ کی نعمت کے چھن جانے کا اندیشہ بنا رہتا ہے۔یاد رکھیے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کی تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر ہمیں اپنی نعمتوں سے محروم کردے گا، جیسا کہ قرآنِ کریم میں وضاحت موجودہے، یہی سبب ہے کہ اسلام نے عبادات میں بھی اسراف کو ممنوع قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے وضو کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین تین مرتبہ اعضاے وضو کو دھونا سکھلایانیز فرمایا کہ وضو اسی طرح کیا جاتا ہے، جس نے اس پر زیادتی کی اس نے برا کیا اور ظلم کیا۔(مشکوٰۃ)یعنی رحمۃ للعالمین نے وضو میں بھی اسراف اور ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے کو برائی بلکہ ظلم سے تعبیر کیااور ایک ہم ہیں کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں پانی کا بے جا استعمال کرتے ہیں؟یہ جانتے ہوئے بھی کہ قیامت میں ہم سے اللہ تعالیٰ کی ہر ہر نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (التکاثر)
اس تفصیل سے ہمیں ایک تو معاشرے کی کوتاہیوں کی جانب توجہ دلانا مقصود تھا کہ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کریں تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ہم پر اپنی نعمتوں کو کشادہ کر دے، اس کے علاوہ اسلام میں پانی کی قلت سے نمٹنے کے جو طریقے تعلیم کیے گئے ہیں، وہ بتلانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لپٹ کر رحمتِ باراں کا سوال کیا جائے ۔۔پانی کی کمی ہو جانے کو قحط اورپانی کی ضرورت پر بندوں کا اللہ سے بارش طلب کرنے کو استسقاء کہتے ہیں۔۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش طلب کرنے کے لیے دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے۔ (ابوداود،بخاری)بلکہ دعا کے ساتھ ہی ساتھ اس موقع پر’ نمازِ استسقاء‘ کے نام سے ایک نفل نماز بھی مشروع ہے، اس نماز میں اذان و اقامت نہیں ہوتی، جب کہ امام نماز کے بعد خطبہ دیتا اور بارانِ رحمت کے لیے دعا کرتا ہے۔(ابن ماجہ، ترمذی) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے؛ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش طلب کرنے کے لیے عید کی نماز کی طرح دورکعت پڑھائی۔(ابوداود)اسی لیے اکثر فقہائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ نماز مستحب ہے۔نمازِ استقاء کے لیے لوگوں کا مسلسل تین دن آبادی سے باہر نکلنا اور پیدل، پرانے ، دھلے ہوئے یا پیوند لگے کپڑوں میں عاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے سر کو نیچا کر کے نکلنا مستحب ہے نیز یہ بھی مستحب ہے کہ نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ہر دن صدقہ کریں،روزہ رکھیں،تمام گناہوں سے بکثرت معافی طلب کریں،اپنے ساتھ میں ضعیف اور کمزور بوڑھے اور بچوں نیز جانوروں کو بھی لے کر جائیں۔(ترمذی)نماز کے بعد امام دعا کے لیے قبلہ رخ کھڑے ہو کر اپنے ہاتھوں کو اٹھائے اور مقتدی قبلہ رخ بیٹھے ہوئے اس کی دعا پر آمین کہیں۔(بخاری)اس موقع پر صرف امام کھڑا ہوگا اور مقتدی کھڑے نہیں ہوں گے،ا س لیے کہ احادیث میں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہونے کا ذکر ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نہیں۔پھر امام یوں دعا کرے؛(ترجمہ)اے اللہ! ہمارے لیے نفع بخش،نقصان نہ دینے والی بارش نازل فرما، جلدی نہ کہ دیرسے، اے اللہ!تیرے بندوں اور جانوروں کو سیراب فرمااوراپنی رحمت کو عام فرما اور تیرے مُردہ شہر کو زندہ فرما،اے اللہ! توہی معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں،تو غنی ہے اور ہم محتاج ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور جو بارش تو ہم پر نازل کرے اسے ہماری طاقت کا ذریعہ بنا، جب تک ہم زندہ رہیں۔(ابوداؤد)
امید کہ مضمونِ ہٰذا سے واضح ہوگیا ہوگا کہ اسلامی نقطۂ نظر سے پانی کی قلت کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ اول تو ہم اپنی کوتاہیوں سے توبہ کریں اور دیگر نعمتوں کی طرح پانی میں اسراف کرنے سے بچیں، دوسرے اللہ تعالیٰ سے بارانِ رحمت کی دعائیں کریں اور اس مقصد کے لیے نمازِ استسقاء کا بھی اہتمام کریں۔یہ وہ چند نبوی طریقے ہیں، جن کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کر سکتے اور پانی کی قلت کے مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت والی بارش سے سرسبز و شاداب فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔