تیرے دل کو ملال کیسا ہے

 پریم ناتھ بسملؔ

تیرے دل کو ملال کیسا ہے

کچھ تو بولو کہ حال کیسا ہے

بات کیا ہے، اداس بیٹھے ہو

دل میں آیا خیال کیسا ہے

کیوں سمجھتا نہیں اسے انساں

 موت کا یہ سوال کیسا ہے

قدر باقی رہی نہ رشتوں کی

آدمی کا زوال کیسا ہے

قحط سالی کہیں، کہیں پانی

کیا کہوں اعتدال کیسا ہے

یوں نہ آتے تھے زلزلے ہردم

آج آیا یہ سال کیسا ہے

واہ کیا خوب ہے مسیحائی !

پوچھ مت، دیکھ حال کیسا ہے

بانٹتا موت ہے مریضوں کو

شہر کا ہسپتال کیسا ہے

رنگ چہرے کا اڑ گیا کیسے

تجھ کو آیا جلال کیسا ہے

میں کہاں اور تو کہاں ہمدم

 بات کرنا محال کیسا ہے

ایک پل بھی نہیں سکوں بسملؔ

دردِ دل لازوال کیسا ہے

تبصرے بند ہیں۔