جب سورج بے نور ہو جائے گا

وقاص چودھری

سورج جو زمین سے 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے بغیر کسی کی مداخلت کے ہمیں ضرورت کے مطابق توانائی فراہم کرتا ہے۔ اس جرم فلکی (Celestial body) میں بے پناہ توانائی ہے۔ہائیڈروجن کے ایٹم مسلسل ہیلیم میںتبدیل ہو رہے ہیں۔ہر ایک سیکنڈ میں 70 کروڑ ٹن ہائیڈروجن 69 کروڑ 50 لاکھ ٹن ہیلیم میں تبدیل ہو رہی ہے، جبکہ باقی 50 لاکھ ٹن ہائیڈروجن انرجی (پاور) میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

سورج کے اندر وہ حصہ یا وہ بھٹی کہ جس میں ہائیڈروجن، ہیلیم میں تبدیل ہو رہی ہے، Core کہلاتا ہے جو سورج کا مرکز ہے۔  یہا ں کا درجہ حرارت اور سورج کی باہر والی سطح کے د رجہ حرارت میں نمایاں فرق پایا جاتاہے۔ مرکزی درجہ حرارت ایک کروڑ 50 لاکھ سینٹی گریڈ ہے جبکہ بیرونی سطح جس کو  فوٹوسفئیر کہتے ہیں، کا درجہ حرارت 5800 سینٹی گریڈ ہے۔ اس کا پھیلاو تقریبا ً500 کلومیٹر تک ہے اور اس سے ایسی روشنی خارج ہوتی ہے جو نظر اتی ہے۔ اس کے اوپر  کروموسفئیر ہے جو ہزاروں کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس جگہ درجہ حرارت 6000 سینٹی گریڈ سے 50,000 سینٹی گریڈ تک بڑھتا رہتا ہے۔ اس حصے سے سرخی نمار وشنی خارج ہوتی رہتی ہے جسے صرف سورج گرہن کے وقت ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے اوپر Corona یعنی سورج کی فضا ہے جو لاکھوں کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا درجہ حرارت 10 سے 22 لاکھ سینٹی گریڈ تک ہوتاہے۔

سورج گرم گیسوں کا ایک فٹ بال ہے جس میں بلحاظ کمیت 71% ہائیڈروجن ‘28% ہیلیم، 1.5% کاربن، نائیٹروجن اور آکسیجن ہے جبکہ 0.5% دوسرے عناصر پائے جاتے ہیں۔

سورج کی عمر کا اندازہ ساڑھے چار ارب سال لگایا گیا ہے۔ یعنی اتنے سالوں سے سورج مسلسل اس بڑی مقدار میں توانائی خارج کر رہا ہے۔ اور اس میں موجود ہائیڈروجن کی مقدار سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ مزید ساڑھے پانچ ارب سال تک اسی مقدارمیں توانائی خارج کرتا رہے گا اور پھر اس کے بعد ہائیڈروجن کی مقدار ختم ہو جائے گی جس سے توانائی کے پیدا ہونے کا عمل رک جائے گا اور پھر سورج آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوتا جائے گا جس سے اس سے خارج ہونے والی روشنی بھی بتدریج کم ہوتی جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ سورج بے نور ہو جائے گا۔ (1)

زمین پر زندگی کی موجودگی کو سورج کی توانائی نے ممکن بنایا ہے جو زمین پر توازن کو مستقل بناتی ہے اور 99% توانائی جو زندگی کے لیے ضروری ہوتی ہے سورج مہیا کر تا ہے۔ اس توانائی میں سے نصف روشنی کی شکل میں ہوتی ہے جو ہمیں نظر آتی ہے بقیہ توانائی بالائے بنفشی شعاعوں کی شکل میں ہوتی ہے جو نظر نہیں آتیں اور حرارت کی شکل میں ہوتی ہیں۔

سورج کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ یہ وقتاً فوقتاً گھنٹی کی مانند پھیلتا رہتا ہے۔ یہ عمل ہر پانچ منٹ بعد دہرایا جاتا ہے اور سورج کی سطح زمین سے 3 کلو میٹر قریب آجاتی ہے اور پھر 1080 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتا ر سے دور چلی جاتی ہے۔ (2)

سورج سے جو روشنی ہمیں حاصل ہوتی ہے و ہ اس کی سطح پر ہونے والے نیو کلیائی دھماکوں کا نتیجہ ہے جو گزشتہ ساڑھے چارارب سال سے جاری ہے۔ مستقبل میں ایک وقت آئے گاکہ سورج پر یہ  نیو کلیائی دھماکے ہونا بند ہو جائیں گے اور وہ مکمل طور پر بے نور ہو جائے گا جس سے اس کی کشش ثقل ختم ہو جائے گی اور پورا نظام شمسی جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے اس کی گرفت سے آزاد ہو کر فضا میں بھٹک کر تباہ ہو جائے گا ۔

دراصل کسی ستارے کے بے نور ہونے کی وجہ اس میں موجود ہائیڈروجن کا خودکار ایٹمی دھماکوں سے جل جل کر ہیلیم میں تبدیل ہوتے رہناہے ۔پھر ایک وقت آتاہے کہ ہیلیم بھی شدت حرارت کی وجہ سے جلنا شروع کردیتی ہے اورکاربن پیداکرنے لگتی ہے اور کاربن کی یہ تہہ ستارے کے مرکز میں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔

چناچہ ہائیڈروجن اور ہیلیم کے جلنے کے اس دہرے عمل کے نتیجے میں ستارے کی حرارت میں بے انتہاشدت آجاتی ہے اور اس کی سطح زوردار دھماکوں سے پھول جاتی ہے ۔اس پھولے ہوئے ستارے کو سرخ ضخام (Red Giant) کہا جاتا ہے ۔ سرخ ضخام بننے کے بعد ستارہ کا حجم تو بڑھ جاتاہے مگر اس کی حرارت اور چمک میں تیزی سے کمی واقع ہو جاتی ہے ۔ چناچہ اس مرتے ہوئے ستارے کی سرخ ضخام کے بعد بننے والی حالت کو سفید بونا (White Dwarf) کا نام دے دیا جاتا ہے ۔اس دوران اس کی جسامت اصل ستارے کی نسبت 80 فیصد رہ جاتی ہے یہ مرتے ہوئے ستارے کی آخری حالتوں میں سے ایک ہے جس میں ستارہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا اور مدہم ہوتا چلا جاتا ہے ۔ (3)

قرآن مجید میں سورج کی روشنی کے ختم ہونے کا اشارہ درج ذیل آیت کریمہ میں دیا گیا ہے:

(وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّھَا ط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ)

” اور سورج ‘وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھاہواحساب ہے ”
(یٰس۔  36:38)

مولانا مودوی  اس آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”ٹھکانے سے مراد وہ جگہ بھی ہوسکتی ہے جہاں جا کر سورج کو آخر کار ٹھہر جاناہے اور وہ وقت بھی ہو سکتا ہے جب وہ ٹھہر جائے گا۔ (4)

تفسیر ابن کثیرمیں ایک قول کے مطابق مستقر سے مراد اس کی چال کا خاتمہ ہے۔ قیامت کے دن اس کی حرکت باطل ہو جائے گی ‘یہ بے نور ہوجائے گا ‘اور یہ عالم کل ختم ہوجائے گا۔ (5)

مولانا عبدالرحمان کیلانی  اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ:

” ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو ذر سے پوچھا :” جانتے ہو کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہا ں جاتا ہے ؟” سیدنا ابو ذر  کہنے لگے :” اللہ اور اس کا رسول   ہی بہتر جانتے ہیں ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ”: سورج غروب ہونے پر اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے اور دوسرے دن طلوع ہونے کا اذن مانگتا ہے تو اسے اذن دے دیا جاتا ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ اس سے کہا جائے گا کہ جدھرسے آیا ہے ادھر ہی لوٹ جا۔پھر وہ مغرب سے طلوع ہو گا۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی ”۔(6)

مولانا عبدالرحمان کیلانی لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔

ایک یہ کہ سورج اور اسی طرح دوسرے سیاروں کی گردش محض کشش ثقل اور مرکز گریز قوت کا نتیجہ نہیں بلکہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ حکیم و خبیر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم و تزاحم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی مقررہ گردش میں کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ سب اجرام اللہ کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں دوسرے یہ کہ قیامت سے پہلے ایک وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔

آج کا مغرب زدہ طالب علم سورج کے طلوع و غروب ہونے اور عرش کے نیچے جا کر دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگنے کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب ہوتا نظر آتاہے تو یہ محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے حالانکہ اللہ کا عرش اتنا بڑا ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش کے تلے ہے اورجن و انس کے سوا ہر چیز اس کے ہا ں سجدہ ریز یا اللہ کی طرف سے سپرد کردہ خدمت سر انجام دینے میں لگی ہوئی ہے۔ (7)

ڈاکٹر سید سعیدعابدی اسی حدیث کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”عصر جدید کے بعض مفسرین نے عرش الہی کے نیچے سورج کے سجدہ کرنے اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لینے کی اس خبر نبوی کا انکار کیا ہے ،ان کا دعویٰ ہے کہ علم فلک کے مطابق سورج کی رفتارمیں کوئی وقفہ نہیں ہوتا جبکہ سجدہ کرنا توقف کا تقاضا کرتا ہے ۔

یہ حدیث حضرت ابو ذر  سے متعدد سندوں سے مروی ہے  اور ہر سند میں امام بخاری اورامام مسلم  اور حضرت ابوذر  کے درمیان جتنے راوی آئے ہیں وہ سب ثقات کی اعلی صفات سے موصوف ہیں توکیا صرف اس وجہ سے اس حدیث کا انکا رقرین عقل ہے کہ عرش الہی کے نیچے سورج کے سجدہ کرنے کی بات ہماری عقل کی رسائی سے باہر ہے اور کیا سورج کا سجدہ کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ ہماری طرح باقاعدہ وضو کرتاہے ،پھر کھڑا ہوتا ہے اور پھر ”اللہ اکبر ”کہہ کر سجدہ میں جاتا ہے یا اس کے جس فعل کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ لمحوں میں وقوع پذیر ہو جاتا ہے ،کیا قرآن پاک کی متعدد آیتوں میں کائنات کی ہر شی ٔ کے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کی خبر نہیں دی گئی ؟(الرعد:15،النحل :40، الحج : 18)

تو کیا ہماری عقل اس سجدے کی حقیقت کا ادراک رکھتی ہے جبکہ قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں ادنیٰ سا شک بھی دائرہ ایمان سے خارج کردیتاہے اس لۓ کہ اس کی سند: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم عن جبرئیل علیہ السلام،عن اللہ عزوجل کی صحت پر پوری کائنات گواہ ہے ۔ (8)

سورج کی روشنی کے ختم کردیئے جانے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة التکویر میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے:

(اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ)

” جب سورج لپیٹ دیاجائے گا”
کو بمعنی کسی چیز کو عمامہ یا پگڑی کی طرح لپیٹنا اور اوپر تلے گھمانا۔ اور اس میں گولائی اور تجمع کے دونوں تصور موجود ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کو گولائی میں لپیٹنا اور جماتے جانا۔مطلب یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں اس کی روشنی اور اس کی حرارت سب کچھ سمیٹ لیا جائے گا اور وہ بس ایک بے نور جسم رہ جائے گا۔ (9)

مولانا مودودی  اس آیت کریمہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔۔۔
” سورج کے بے نور کر دیے جانے کے لیے یہ ایک بے نظیر استعارہ ہے۔ عربی زبان میں تکویر کے معنی لپیٹنے کے ہیں۔ سرپر عمامہ باندھنے کے لیے #_تکویر_العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر اسے سر کے گرد لپیٹا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی ہے عمامہ سے تشبیہہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا۔ (10)

مولانا عبدالرحمان کیلانی لکھتے ہیں:

” سورج کی اس رجعت قہقریٰ کے بعدستاروں کے درمیان باہمی کشش اور گردش کا سارا نظام مختل ہو جائے گا ۔زمین میں شدید زلزلے اورجھٹکے شروع ہوجائیں گے ۔ ستارے بے نور ہو کر اکیلے گرنے لگ جائیں گئے جیسے جھڑ پڑے ہیں ۔سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہو کر فضا میں منتشر ہو جائیں گے ۔ سمندروں کا پانی شدّت حرارت سے کھولنے لگے گا۔ تمام مخلوقات مر جائے گی اورکائنات فنا ہو جائے گی اور یہ سب کچھ کب ہو گا اس کا جاننا انسان کے بس کا روگ نہیں ۔ سائنس دان خواہ کتنے ہی اندازے لگائیں وہ سب کچھ ظنون اور ڈھکوسلے ہی ہوں گے ۔ا س کا حقیقی علم اسی خالقِ کائنات کو ہے جس نے اسے پیدا کیا تھا۔

بلکہ وحی ہمیں اس سے بہت بعد کی بھی خبردیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر سے ایک نئی کائنات پیدافرمائے گا جس کی زمین، جس کے سورج ،جس کے چاند ستارے اور جس کے قوانین نظم و ضبط سب کچھ اس دنیا سے الگ ہوں گے اور جس کے متعلق اندازے لگانا بھی کسی انسان کے بس کا روگ نہیں البتہ اس کی بہت سی تفصیلات قرآن و حدیث میں موجود ہیں”۔ (11)

قارئین کرام جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس مسئلہ میں جدید سائنس اور قرآن پاک میں دی گئی معلومات میں زبردست یگانگت پائی جاتی ہے جس سے ایک معمولی غور و فکر رکھنے والا آدمی بھی اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے بغیر ان معلومات کو چھْی صدی عیسوی میں کسی کتاب میں ذکر کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی اوریقینا یہ کام کسی مافوق الفطرت ہستی کا ہی ہے جسے ہم اللہ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اسی نے ہی ان معلومات و پیشنگوئیوں کو دوسری انسانی ہدایات کے ساتھ قرآن مجید کی شکل میں اپنے پیارے و آخری نبی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق و صداقت کو سمجھنے، اس پر ایمان رکھنے اورعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں۔