قرآن حکیم کی طبی تعلیمات

حکیم شمیم ارشاد اعظمی

 یہ حقیقت ہے کہ قرآن حکیم کتاب رشد و ہدایت ہے۔ یہ کوئی سائنس اور میڈیسن کی کتاب نہیں، لیکن چونکہ اس کا تعلق براہ راست انسان  سے ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں انسان کی رشد و ہدایت اور اس کی تعلیم و تربیت سے متعلق ان تمام احکام وقوانین اورعلوم و معارف کو اکٹھا کر دیا ہے جسکی بدولت انسان دین و دنیا دونوں جہان میں کامیاب ہو سکے۔ قرآن حکیم علوم و معارف کا بحر بیکراں ہے اور حکمت و دانش کا بحر ذخار ہے۔ اس میں کہیں احکام و قوانین کا درس دیا گیا ہے تو کہیں اخلا قیات اور تہذیب و تمدن کاسبق پڑھایا گیا ہے۔ کہیں یہ تخلیق کائنات کا راز کھولتا ہے تو کہیں تخلیق انسان کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتاہے۔ کہیں اس میں تاریخ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے تو کہیں طب و سائنس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے توکائنات اور اس میں پھیلے ہوئے اشجار و انہار، بحر و بر، نباتات و جمادات، صحرا و لا لہ زار کے رازہائے سر بستہ کو کھولتا ہے۔ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے آفاق و انفس میں پنہاں نشان حق کے بارے میں دعوت فکر دیا ہے۔ (سنریھم آیاتنا فی الآفاق و فی انفسھم حتیٰ یتبینّن لھم انہ الحق) جس کا مقصد اثبات توحید اور اقرار ربوبیت و الوہیت ہے۔

  قرآن حکیم میں تخلیق انسان، حفظان صحت، غذا(ماکولات و مشروبات)، ماں کادودھ، نیندوغیرہ کا تذکرہ کئی مقا مات پر آیا ہے۔ مفسرین قرآن نے ان آیات کی تفسیر و تشریح میں عصری علوم کا بھی سہارا لیا ہے۔ تخلیق انسان اور علم الجنین کے بارے میں تو کئی اہم کتابیں اور مضامین بھی شائع ہو چکی ہیں۔ مورس بکائی لے نے اپنی کتاب THE QURAN, BIBLE & SCIENCE    میں فلکیات، ارضیات، حیاتیات اور انسانی تخلیق کو خاص طور سے موضوع بحث بنایا ہے۔ ایک اور مغربی اناٹمسٹ  ڈاکٹر کیتھ  (KEITH L.MOORE) علم الجنین پر ایک کتاب بعنون ’’ THE DEVELOPING HUMA  ‘‘ لکھی  جو بہت مشہور ہوئی۔ محمد علی البار کی   THE CREATION OF MAN BETWEEN MEDICINE AND THE QURAN‘‘ ، ڈاکٹر عبد الحمید دیاب اور ڈاکٹر احمد قرقوز کی ’’ مع الطب فی القرآن الکریم‘‘، ڈاکٹر عبد المجید زندانی کا ’’رسالہ قرآن اور سائنس‘‘ جو علم الجنین پرہے،۔ محمد شہا ب الدین ندوی کی کتاب ’’تخلیق آدم اور نظریہ ارتقا ‘‘،  ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی کتاب ’’تخلیق انسانی کے مراحل  اور قرآن کا سائنسی اعجاز ‘‘ بھی اس سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس کے علاوہ علم الجنین سے متعلق انگریزی، عربی اور اردو میں بے شمار مضامین لکھے گئے۔ انگریزی مضامین کے لئے اسلام سیٹ کی ویب سائٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک سے زائد مقامات پر مادہ تخلیق اور انسان کے تکوینی مراحل کا تذکرہ کیا ہے۔ انسانی تخلیق کی ابتدا مادہ منویہ سے ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں متعددآیات موجود ہیں ہے۔ ’’ و ھوالذی خلق من الماء بشرا:وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا‘‘( سورۃ الفرقان:۵۴)’’ الم نخلقکم من مائِِ مھین:کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں نہیں پیدا کیا ‘‘ (سو رۃ المرسلات :۲۰)،  ’’ ثم جعلنسلہ من سُلٰلۃمن مائِِ مھین:پھر اس کی نسلایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے ‘‘ (سورۃ السجدۃ:۸) ’’ فلینظر الانسان ممّا خُلق۔ خلق من ماء دافق۔ یخرج من بین الصلب و الترائب‘‘ (سورہ طارق۵۔ ۷)۔ اس کے بعد قرآن نے اس پانی کے بارے میں بتا یاکہ یہ در اصل نطفہ ہے جو رحم مادر میں ٹپکایا جاتا ہے اور جس سے انسان جنم لیتا ہے۔ قرآن حکیم میں آتا ہے: ’’ھو الذی خلقکم من تراب ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم یخرجکم طفلا:وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے پھر وہ تمھیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے‘‘ (سورۃ المومن ۶۷) ’’ خلق الانسان من نطفۃ:اس نے انسان کو ا یک ذرا سی بوند  سے پیدا کیا‘‘ (سورۃ النحل :۴)، ’’ الم یک نطفۃ من نی یمنیٰ:کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہیں تھا جو رحم مادر میں ٹپکایا جاتا ہے‘‘ ( سورۃ القیامۃ:۳۷)، ’’ ولقد خلقنا الانسان من سُلٰلۃ من طین۔ ثم جعلنٰہ نطفۃََ فی قرارِِمکین:ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایاپھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا‘‘ سورۃ المومنون:۱۲۔ ۱۳)  پھر قرآن حکیم نے اس نطفہ کے بارے میں مزید وضاحت فر مادی کہ انسان کی تخلیق نطفہ واحد سے نہیں ہوتی بلکہ زوجین کے نطفہ سے ہی یہ کام مکمل ہو تا ہے۔ ’’ ان خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج:ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ‘‘( سورہ دہر :۲). ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کے ابتدائی حالات کو بیان کیا ہے۔ ان کے علاوہ سورہ المومنون اور سورہ حج میں انسان کی تخلیق اور جنینی ارتقا کو بڑے ہی تفصیل کے ساتھ نہایت سائنٹفک انداز میں  بیان فر مایا ہے۔ قرآ ن حکیم میں ہے:

’’ ولقد خلقنا الانسان من سُلٰلۃ من طین۔ ثم جعلنٰہ نطفۃََ فی قرار مکین۔ ثم خلقنا النطفۃعلقۃََفخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظٰماََ فکسونا العظٰمَ لحماََ‘‘ (سورۃ المومنون:۱۲۔ ۱۴)

ترجمہ:ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا پھر اسے ایک مضبوط جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی۔ پھر لوتھڑے کو مضغہ بنایا پھر مضغہ کو ۃڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ ‘‘

ایک اور مقام پر تفصیل ہے۔

’’  یا ایھا الانسان ان کنتم فی ریب من البعث  فانا خلقناکم من تراب ثم من نطفۃثم من علقۃ ثم من مضغۃ مخلقۃ و غیر مخلقۃ‘‘( سورۃ الحج :۵)

ترجمہ:لوگو! اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کوئی شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفہ سے پھر علقہ سے پھر مضغہ سے جو مکمل بھی ہوتا ہے اور نامکمل بھی۔ ‘‘

جنینی ارتقاء اور تخلیق انسان سے متعلق اتنی واضح تعلیمات صرف وہی دے سکتا ہے جو سب کا رب ہے۔ ذرا  غور کیجیئے کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سا ل قبل اتنی مدلل اور سائنٹفک انداز میں علم الجنین کے بارے میں بتانا جب کہ نہ تو خوردبین کی ایجاد ہوئی تھی اور نہ ہی الٹراساؤنڈ مشین  وجود میں آیا تھا  یہ وہی کر سکتا ہے جاسب کا خالق ہے بلکہ احسن الخالقین ہے۔ یہ بھی در اصل قرآن کا ایک اعجاز ہے۔ آج طبی و سائنسی اسکالر نہ صرف یہ کہ ان تعلیمات سے متاثر ہورہے ہیں بلکہ مزید ان آیات کی روشنی میں اپنی تحقیقات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ان آیات سے جہاں ایک طرف علم الجنین کے مختلف مراحل اوراس کے اسرار و رموز اجاگر ہو رہے ہیں اور طبی و سائنسی معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں یہ آیات در اصل اللہ تعالیٰ کی خلاقیت اور ندرت عمل کا ایک نمونہ بھی پیش کر رہی ہیں، جن میں قدرت خداوندی اور اس کی ربوبیت کے بے شمار اسباق و بصائر پوشیدہ ہیں۔ انہیں صرف طبی تعلیمات یا علم الجنین تک محدود کر دینا نہایت ہی نا انصافی ہے۔

قرآن حکیم کی ایک اہم تعلیم طہارت و پاگیزگی اور صحت کی حفاظت ہے۔ کیونکہ صحت کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب طہارت اور پاگیزگی کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے وہیں صحت جیسی انمول دولت سے بھی اسے سر فراز فر مایا ہے، کیونکہ صحت وہ گوہر نا یاب ہے جس پر انسان کی تمام ذہنی، فکری اور روحانی ترقی کا دارو مدار ہے۔ اگر انسان کا دامن صحت جیسی متاع عزیز سے خالی ہے تو یہ زندگی اس کے لئے دشوار ہی نہیں بلکہ بیکار ہے۔ عبادات سے لیکر تلاش معاش تک صحت ایک ناگزیر ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو عبادات کو اچھی طرح ادا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی زندگی کورواں دواں رکھاجاسکتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے ’’ المومن القوی خیر من من المومن الضعیف۔ ‘‘۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کر نے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں طہارت و پاکیزی پر جتنا زور دیا گیا کسی اور مذہب و تہذیب میں نہیں ملتاہے۔ جسم کی صفائی، روح کی پاکیزگی، گھر آنگن کی صفائی، ندی و نالوں کی صفائی یہاں تک کہ شاہراہوں کی صفائی کے بارے میں اسلام کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ ان میں جسم سب  سے اشرف و اعلیٰ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی دیکھ بھال اور اس کہ نگہد اشت کے لئے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر اشارہ فر مایاہے۔ حضور ﷺ نے بھی طہارت و پاکیزگی اور حفظان صحت کے متعلق اہم تعلیمات  بتائی ہیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر طہارت کے بارے میں فر مایا  ہے کہ ’’الطہور شطر الایمان ‘‘ (مشکوٰۃ)۔ اس سلسلہ میں یہ بھی باور رہنا چاہئے کہ شخصی و ذاتی طہارت کے ساتھ ساتھ اجتماعی پاکی و پاکیزگی بھی لازم ہے۔ کیو نکہ اس کے بغیر ایک خوشحال معاشرہ کا وجود نا ممکن ہے۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا کہ:

’’ ان اللہ طبیب  یحب الطیب، نظیف یحب النظافۃ، کریم یحب الکرامۃ، جواد یحب الجواد، فنظفوا  اراہ قال :افنئتکم ولا تشبھو بالیھود ۔

بے شک اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے پاکیزگی کو پسند کرتا ہے، صاف و ستھرا صفائی و ستھرائی کو پسند کرتا ہے، داتا ہے سخاوت کو پسند کرتا ہے لہذا صاف ستھرا رکھو(راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انھوں  نے فرمایااپنے صحنوں کو صاف ستھرا رکھو اور یہودیوں جیسے نہ بنو۔‘‘ (ترمذی باب ماجاء  فی النظافۃ)

وضو کے سلسلہ میں قرآن حکیم میں آتا ہے ’’ یا ایھا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلو ا وجوھکم و ایدیکم  الی المرافق  و امسحو برؤسکم وارجلکم الی الکعبین‘‘( سورہ المائدۃ :۶)

ذاتی وشخصی حفظان صحت  اور نظافت و پاکیزگی کے متعلق یہ پہلا سبق ہے کہ جب نماز کے لئے جاؤ تو اپنے ہاتھ، چہرہ اور پاؤ کو دھولو اور سر کا مسح کرو۔ کیونکہ یہ وہ اعضاء ہیں جن پر ہما وقت گردو غبار کا سایہ رہتا ہے۔ یہ گرد وغبار دراصل آلودگی و غلاظت کا ایک حصہ ہیں جن پر ہزاروں جراثیم  و وائرس موجود ہوتے ہیں اور اس طرح و آسانی سے ہمارے ہاتھ، ناک اور منھ کے ذریعہ جسموں میں داخل ہو کر طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ اسلامی لٹریچر میں کھانا تناول فر مانے سے پہلے بھی ہاتھوں کی صفائی پر کافی اہم تعلیمات موجود ہیں۔ کیونکہ ہمارے ان ہاتھوں پر بے شمار جراثیم موجود ہوتے ہیں جنھیں ہم بہت آسانی کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ منھ میں داخل کر لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹائیفائیڈ، ہیضہ، ذحیر امیبائی(Amoebiasis)، ہپاٹائیٹس A اور پولیو جیسی خطر ناک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح منھ کی صفائی بھی نہایت اہم ہے۔ جسے سائنس کی زبان میں ( Oral hygein) کہتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم منھ کی صفائی نہیں کرتے ہیں تو منھ سے نہایت خراب بدبو (Halitosis) پیدا ہوتی ہے۔ دانتوں میں کیڑے  Dental Caries))پیدا ہوجاتے ہیں۔ مسوڑھوں میں تعفن پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان میں ورم اور پھر پیپ جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

اسی طرح ایک مقام پر غسل کر نے کے لئے کہا گیا ہے ’’ وان کنتم جنباً فاطھروا‘‘ ( سورہ المائدۃ:۹)۔ طہارت و پاکیزگی سے متعلق ارشاد باری  ہے کہ’’ وثیابک فطھر والرجز فاھجر‘‘(سورۃ المدثر:۴۔ ۵) ایک مقام پر ہے ’’ ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۲۲۲)۔ ایک اورمقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ واللہ یحب المطھرین‘‘ (سورۃ التوبۃ:۱۰۸)۔ ان آیات میں ہمارے لئے طہارت و پاکیزگی کی نہایت اہم تعلیمات ہیں جو ہماری صحت کی ضامن ہیں۔

غسل کے طبی فوائد کو دیکھا جائے تواس طویل فہرست ہے۔ چند اہم فوائد جو غسل سے حاصل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔ غسل سے انسان پاک و صاف رہتا ہے۔ ، جلد ملائم رہتی ہے۔ طبیعت میں شگفتگی اور مست پیدا ہوتی ہے۔ دوران خون میں تحریک پیدا ہوتی ہے۔ بھوک میں اضافہ ہو تا ہے اور حرارت غریزیہ بڑھ جاتی ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حفظ صحت سے متعلق ایک نہایت ہی اہم اصول بتا یا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہے یاسفر پر ہو تو دوسرے ایام میں روزے پورے کرلو۔ قرآن میں حکیم آتا ہے کہ:

’’ فمن کان منکم مریضا او علی سفرِِفعدۃ من ایام اخر‘‘  (سورۃ البقر:۱۸۴)

 ترجمہ:’’  کوئی تم میں سے بیمار ہو یا سفرمیں ہوتو دوسرے ایام میں ان کو پورا کر لے‘‘

ابن قیم جوزیہ اس آیت کا مفہوم بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مریض کی بیماری کا عذر سامنے رکھا، روزے کے دنوں میں کھانے پینے کی اجازت دی اور مسافر کے لئے بھی عذر سفرکی وجہ سے افطار کو مباح فر مایا تاکہ دونوں اپنی صحت کی حفاظت فر ماسکیں اور اپنی قوت کو بحال رکھ سکیں کہ کہیں بیماری میں روزے کی وجہ سے جسم کی قوت میں کمزوری نہ آجائے اور مرض پر قابو پانے کی صلاحیت کا فقدان نہ ہوجائے، یا سفر میں روزے کی وجہ سے صحت اور قوت میں اضمحلال نہ ہوجائے، اس لئے کہ شدت حرکت سفرسے جسم اور قوت میں مزید کاہش ہوگی اور روزہ  اس کی اس حالت میں تحلیل قویٰ کا سبب بنے گااس لئے کہ روزے کی صورت میں انسان غذا سے محروم رہتا ہے جو انسان کی گھٹتی ہوئی توانائی کے لئے بدل مایتحلل کا کام کرتا ہے، اس طرح  قوت کم ہوتی جائے گی اور ضعف جسمی بڑھتا جائے گا۔ اس طرح  مسافر بھی مریض کے حکم میں رہااس کو کھانے پینے کی اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنی صحت اور قوت کو کی جس کی حالت سفر میں خاصی ضرورت ہے محفوظ ومصئون رہ سکے۔ ‘‘

ایک مقام پرایام حج میں بھی صحت مریض کے لئے رعایت رکھی گئی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے۔

’’ فمن کان منکم مریضااو بہ اذََی من راسہ ففدیۃ من صیاماو صدقۃاو نسک‘‘ (سورۃالبقرۃ :۱۹۶)

ترجمہ:’’ جو تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی اذیت ہو تو وہ روزے کا فدیہ ادا کرے، یامال کا صدقہ کرے یا کوئی قربانی کے جانور کا ذبح کرے۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ مرض  ومریض کا غایت درجہ لحاظ رکھتے ہوئے وضو کی بجائے تیمم کر نے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاکہ مریض کا جسم پانی کی اذیت یا اس سے پیدا ہو نے والی پریشانی سے بچ سکے۔ سور ہ نسا میں ہے۔

’’ وان کنتم مرضیٰ او علی سفرِِاو جاء احد منکم من الغائط و  لٰمستم النساء  فلم تجدو مائََ  فیتممواصعیدا طیبا۔ ‘‘ (سورۃ النساء:۴۳)

ترجمہ: اور اگر تم میں سے کوئی بیمارہو یا مسافر ہویا پاخانہ کر کے واپس ہوا ہویا اپنی بیویوں سے مباشرت کر کے فارغ ہوا ہواور تم کو پانی نہ ملے توپاک اور ستھری مٹی سے تیمم کرو۔ ‘‘

 سورۃ النباء میں  ہے:

’’ وجعلنا نومکم سباتا۔ وجعلنا الیل لباسا۔ و جعلنا النھار معاشا‘‘ (سورۃ النباء: ۹۔ ۱۱)

ترجمہ: ’’ ہم نے نیند کو تمہارے لئے رحمت بنایا۔ رات کو ہم نے لباس اور دن کو تلاش معاش کے لئے بنایا۔ ‘‘

ان آیات میں حرکت و سکون نفسانی و بدنی جو کہ طب کا ایک اہم اصول ہے، کو بتا یا گیاہے۔ یہ یاد رہناچاہئے کہ نیند کی طب اور ہماری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ بے خوابی خود بہت سی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔ آج کے معاشرہ میں ذھنی تناؤ، اضطراب جیسی کیفیت بے خوابی کی ہی دین ہے۔

قرآن حکیم کا طبی تعلیم سے متعلق ایک اہم باب اغذیہ کاہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار مقامات پر اپنی نعمتوں (غذاؤں ) کا تذکرہ فر مایا ہے جن سے انسان کسی نہ کسی طرح سے ضرور مستفید  و محظوظ ہوتا ہے۔ یہ اشجار اور ان سے پیدا ہونے والے پھل، یہ نہریں و آبشار اور ان سے نکلنے والے صاف و شفاف اور شیریں پانی کس کے لئے ہیں اور یہ سمندر اور ان میں موجود سامان ماکول ومشروب  و اشیاء زیب و زینت۔ یہ در اصل خداوند قدوس کی طرف سے حضرت انسان کیلئے انعام ہیں۔ یہی وہ نعمتیں ہیں جو جسمانی نشو نما کو پروان چڑھاتی ہیں اور صحت کو بر قرار رکھتی ہیں۔ انہی نعمتوں میں سے بعض کا تعلق غذاء  ودوا سے ہے جو صحت کو تحفظ فر ماتی ہیں اور ہمارے جسموں کو امراض و آلام سے بے نیا زرکھتی ہیں۔ قر آن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر انواع واقسام کی نعمتوں (غذاؤں ) کا ذکرفر مایا ہے اور کہیں کہیں ایسی چیزوں کا تذکرہ بھی آیا ہے جنھیں آج دواؤں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں مختلف قسم کے اناج، اثمار، سبزیاں، مچھلی، حیوانات وغیرہ کا تذکرہ غذا کے طور پر آیا ہے۔ ان میں سے ادرک، انار، انجیر، انگور، رائی، پیاز، دودھ، ریحان، زقوم، زیتون، شہد، ضریع، کافور، کھجور، کھیرا، لہسن، لوکی، مسور، من وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ معدنیات میں سے ملح، یاقوت، مرجان، لؤلؤ، حدیدو نحاس  وغیرہ کا تذکرہ آیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن میں ان چیزوں کا تذکرہ طبی نقطہ نظر سے نہیں ہے بلکہ انہیں استدلالی اور اعجازی نقطہ نظر سے بیان کیا گیاہے۔ تاہم کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں شفا موجود ہے اور جو ہمارے جسم کیلئے سامان تغذیہ فراہم کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چیزیں غذا اور دوا کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔

اس موضوع پر کافی لو گوں نے قلم آزمائی کی ہے۔ بعض لوگوں نے تو غیر معمولی طور سے محنت کی ہے اورجملہ نباتات، جمادات و حیوانات کے بارے میں تما م جدید و قدیم طبی معلومات کو کافی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بعض نے ان  کے لفظی اعجاز کو بھی منظر عام پر لا نے کے لئے خوب خوب جتن کئے ہیں۔ محمد اقتدار حسین فاروقی کی کتاب ’’ PLANTS OF THE QURAN‘‘ اور’’ قرآن میں ذکر ثمرات‘‘، محمد صدیق کی ــ’’ PLANTS IN HOLY QURAN‘‘  قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اردو  زبان میں  طارق چغتائی کی ’’نباتات قرآنی اور جدید سائنس‘‘ اس موضوع کی اہم کڑیا ہیں۔ ان کے علاوہ شہد پر بے شمار لٹریچر موجود ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان نباتات، جمادات و حیوانات کا ذکر کیوں کیا ہے؟ان آیات کا منشا کیا ہے ؟ان کتابوں میں دعوتی نقطہ نظر سے نہیں صرف طبی  و سائنسی نقطہ نظر سے بحث کی جاتی ہے۔ تحقیق و تصنیف کا یہ پہلو غابل غور ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں ملتا ہے کہ اصل موضوع  پر بحث کر نے کے بجائے تمام ترتوجہ اور صلاحیتوں کو ان کے طبی خواص کو ڈھونڈھنے میں صرف کر دیاگیا ہے جن کا تذکرہ قرآن حکیم میں طبی نقطہ نظر سے آیا ہی نہیں ہے۔ جیسے زقوم، ریحان، زنجبیل، سرسوں، ضریع، کافور وغیرہ۔ جب کہ ان کاتذکرہ یہاں دور دور تک طبی تعلیمات سے نہیں ہے۔

رائی (سرسوں ) کا ذکرسورۃالانبیاء(۴۷) اور سورۃ لقمان (۱۶) میں آیا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ ’’یٰبُنّیٰ انھا ان تک مثقال حبۃ من خردل فتکن فی صخرۃاو فی السمٰوٰت او فی الارض یات ِ بھا اللہ انّ اللہ لطیف خبیر‘‘ سورۃ لقمان:۱۶)۔ اس آیت میں رائی (سرسوں ) کا ذکر آیاہے۔ یہاں سرسوں کا ذکراستدلالی ہے نہ کہ طبی اعتبار سے ہے۔ ۔ یہاں پریہ مفہوم ہے کہ اگر کسی کے پاس سرسوں کے برابر بھی نیکی ہے تو اسے اس کا بدلہ ملے گا۔ اسی طرح زقوم وضریع کو ہی لے لیجئے۔ یہ دونوں جہنمی غذائیں ہیں جن سے جہنمیوں کی ضیافت کی جائے گی۔ قرآن حکیم میں ان کاتذکرہ بڑے ہی ہولناک انداز میں آیا ہے۔ ’’انّ شجرت الزقوم۔ طعام الاثیم۔ کالمھل یغلی فی البطون۔ کغلی الحمیم ‘‘( سورۃ الدخان:۴۳۔ ۴۶)۔ اسی طرح اور بھی دوائیں اور غذائیں ہیں جن کا تذکرہ قرآن حکیم میں آیا ہے۔ تاہم ان میں سے چند نعمتوں (غذاؤں ) کا  تذکرہ دوا کے طور پر بھی آیا ہے جسے طب کی زبان میں غذا دوائی کہتے ہیں، انھیں طبی نقطہ نظر سے پیش کیا گیا ہے جیساکہ شہد کے بارے میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’   فیہ شفاء للناس‘‘ (سورۃ  النحل :۶۹)اسی طرح دودھ اور کھجورکے باے میں بھی ان کی طبی افادیت کی طرف ایک بلیغ اشارہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں ( اغذیہ ) کا بڑے ہی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔

’’ و انزلنا من السماء مائََ بقدر فاسکنّٰہ فی الارض و انا علی ذھاب بہ لقٰدرون۔ فانشأنا لکم بہ جنّٰتِِ من نخیل و اعناب لکم فیھا فواکہ کثیرۃ و منھا تاکلون۔ و شجرۃ تخرج من طور سینآئَ تنبت بالدھن و صبغ للاٰکلین۔ وان لکم فی الانعام لعبر ۃ نسقیکم مما فی بطونھا و لکم فیھا منافع کثیرۃ و منھا تاکلون‘‘ (سورۃ المومنون :۱۸۔ ۲۱)

ترجمہ:  ’’ ہم نے آسمان سے پانی ایک خاص مقدار میں اتارا پھر اسے زمین میں ٹہرایا۔ ہم اس کے غائب کر نے پر بھی قادر ہیں، ہم نے اسی پانی سے تمہارے لئے کھجور اور انگور کے باغات پیدا کئے تمہارے لئے ان باغوں میں بہت سے پھل ہیں ان میں سے تم کھاتے ہو اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے تیل بھی لئے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن بھی اور تمہارے مویشوں کے لئے  عبرت  اور نصیحت ہے ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ہم نے تمہارے لئے پینے کی چیز’’دودھ‘‘ نکالتے ہیں۔ تمہارے لئے ان میں  بہت سے فائدے ہیں  ان میں سے بعض کو کھاتے ہو۔ ‘‘

 ایک اور مقام پر نعمتوں کا تذ کرہ یوں آیا ہے۔

’’ وھو الذی انزل من السماء ماء فاخرجنابہ نبات کل شئیِِ فاخرجنا منہ خضرا نخرج منہحبا متراکباََ و من النخل من طلعھا قنوان دانیۃ و جنٰتِ من اعناب الزیتون و الرمان مشتبھا و غیر متشابہِِ انظرو الیٰ ثمرہ اذا اثمر وینعہِ ان فی ذلک لاٰیٰتِِ لقوم یومنون‘‘ سورۃ الانعام :۹۹)

’’ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی نباتات اگائی پھراس سے سرسبز کھیتی پیدا کی، پھر ان سے ہم نے تہ بہ تہ جڑے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کےگچھے پیدا کئے جو بوجھ کے مارے جھک پڑتی ہیں اور انگور اور زیتون اور انار کے باغ پیدا کئے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان کے پھل لانے اور پکنے کی کیفیت ذرا دیکھو، یقینا ان میں نشا نیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔ ‘‘

ایک اور مقام پر ہے۔

فلینظر الانسان الیٰ طعامہ۔ ان صببنا الماء صبا۔ ثم شققنا الارض شقا۔  فانبتنا فیھا حبا۔ وعنبا و قضبا۔ وزیتونا ونخلا۔ وحدائق غلبا۔ وفاکھۃ و ابّا۔ متاعا لکم ولانعامکم‘( ‘ سورۃ عبس:۲۴۔ ۳۲)

ترجمہ ’’ پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے ہم نے خوب پانی لندھایا پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا پھر اس کے اندراگائے گلے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے باغ اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمہارے لئے اور تمھارے مویشیوں کے لئے سامان زیست کے طور پر۔ ‘‘

اسی طرح سمندری انعامات کا تذکرہ یون فرمایا ہے۔

’’ و ھو الذی سخّرالبحرلتاکلوا منہ لحما ً طریاًو تستخرجوامنہ حلیۃ تلبسونھاو تری الفلک مواخر فیہ و لتبتغوامن فضلہ ولعلکم تشکرون‘‘  (سورۃ النحلـ۱۴)

ترجمہ:’’  اور وہی ہے جس نے دریا کو مسخر بنایا تا کہ اس میں سے تازہ تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے زیورات نکالو جسے تم پہنتے ہو  اور تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ پانی کو چیرتی ہو ئی چلی جارہی ہیں اور تاکہ تم روزی تلاش کرو اور تاکہ شکر ادا کرو۔ ‘‘

مذکورہ بالا آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اناج، مختلف قسم کے باغات اور  نوع بہ نوع اثمار، سبزیاں و ترکاریاں   کھجور، انگور، زیتون، انار، دودھ جیسی نعمتوں اور ان کے استعمال کے بارے میں بتا یا کہ تم انہیں کھاتے ہو۔ اگر ہم کھجور، زیتون، انار، انگور اور دودھ کا غذائی تجزیہ کریں تو ان کے اندر غیر معمولی طور پر صحت بخش اجزاء موجود ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر امراض سے نمٹنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اسی طرح ایک مقام پر شہد کی دوائیت کے بارے میں بتا یا کہ اس کے اندر شفا ہے۔ شہد کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا قول ہے کہ ’’ الشفاء  فی ثلاث  شربۃ عسل  و شرطۃ محجم و کیۃ نار و انا  انھی امتی عن الکی۔ ‘‘ (الصحیح البخاری:باب الطب) اشہد ہر قوم اور تہذیب میں غذا کے طور پر مستعمل ہے۔ اس کے اندر دوائی اجزا بھی بے پناہ ہیں۔ آج اسے مانع تعفن وجراثیم کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ شہد کی انہی دوائی افادیت کے پیش نظر آج پوری دنیا میں تحقیق چل رہی ہے اور روز بروز نت نئی تحقیقات و انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح دودھ جہاں ایک مکمل غذا ہے وہیں اس کے اندر صحت بخش اجزء بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح سورہ لقمان میں رضاعت کا تذ کرہ ہے۔ قرآن حکیم میں ’’فصٰلہ فی عامین‘‘ سے رضاعت جیسی ایک اہم چیز کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماں کا دودھ بچوں کے لئے بھر پور تغذیہ کا کام کرتاہے وہیں رضاعت کی طبی افادیت اس قدر ہیں کہ انھیں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ شیر مادر کے ابتدائی تین دنوں کے دودھ کو کولسڑم (Colostrum)  کہتے ہیں اس میں غذائیت کے ساتھ ساتھ امراض سے مقابلہ کر نے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ اس میں لحمیات کی وافر مقدار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جراثیم کش بھی ہوتا ہے۔ یہ بچوں کے اندر قوت مناعت پیدا کرتا ہے۔ ہاضمہ درست رکھتا ہے۔ جسمانی ساخت کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مختلف قسم  کے انزائم، حیاتین اور مانع تعدیہ عوامل پائے جاتے ہیں۔ کولسٹرم کی طرح  عام دنوں میں بھی ماں کے دودھ میں کافی مفید، صحت بخش، غذائیت سے بھر پور  چیزیں پائی جاتی ہیں۔ جیسے Immunoglobulin Antibodies : پائے جاتے ہیں جو بچے کو Porta-E coli  اور  Polivirous سے محفوظ رکھتے ہیں Lactoferrin  اور  Lypase Amylase یہ بچے کے نظام ہضم میں معاون ہو تے ہیں۔ Poly unsaturated fat (LCPs) : یہ بچے کو امراض قلب سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ دماغ کے نشو نما میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ Milk lactose: دیگر دودھ کی بہ نسبت ماں کے دودھ میں اس کی مقدا ر  ابتدائی چھ ماہ میں نسبتا زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بچے کو امراض معدہ اور فنگل انفکشن سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں ٹائمس آف انڈیا میں ایک رپوٹ شائع ہوئی تھی کہ جو بچے ماں کا دودھ استعمال کرت ہیں وہ مختلف قسم کے کینسر سے محفوظ رہتے ہیں۔

اس طرح سورۃ المومنون میں کھجور کا بیان غذا کے طور پر آیا ہے لیکن خود قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر اس کی طبی افادیت کی طرف ایک بلیغ اشارہ ملتا ہے۔ سورۃ مریم میں ہے۔

’’  فاجاء ھا المخاض الیٰ جذع النخلۃ  قالت یٰلیتنی متُّ قبل ھذا وکنتُ نسیا منسیا۔ فنادٰھا من تحتھا الا تحزنی قد جعل ربُّکِ تحتکِ سریا۔ و ھُزّی الیک بجذع النخلۃ تسٰقط علیک رُطبا جنیا۔ فکلی واشربی و قری عیناالخ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ترجمہ: ’’ پھر درد زہ انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی اس وقت ان کے نیچے کے جانب سے فرشتہ نے آواز دی کہ غمناک نہ ہو تمہارے پر وردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ پیدا کر دیا ہے اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تو تم پر تر واتازہکھجوریں جھڑیں گی انہیں کھاؤ اور پیو۔ ‘‘ (سورۃ مریم :۲۳۔ ۲۵)

ان آیات کی تفسیر  و تشریح اکثر مفسرین نے  اخلاقی نقطہ نظر سے کی ہے۔ جبکہ اس میں کھجور کے طبی پہلو کو شامل کیا جانا چاہئے تھا۔ کیونکہ جب حضرت مریمؐ کودرد زہ( Labour Pain)ہوا تو انھوں نے اس کی شدت درد والم اور پریشانی کیوجہ سے کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر کر بھولی بسری ہوگئی ہوتی نہ کہ طعنہ و تشنیع کے خوف سے۔ یہ بھی ممکن ہو سکتا تھا کیونکہ ایک غیر شادی شدہ عورت اور اس کو بچہ پیدا ہونا ایک انہونی سی بات ہے مگر یہ تو معجزہ تھا جس کے بارے میں فرشتہ نے پہلے ہی بتا دیا تھاکہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔ حضرت مریمؐ نے فر مایا کہ وہ کیسے جب کہ کوئی انسان مجھے چھوا تک نہیں ہے تو فرشتہ نے کہا کہ ’’ قال کذالک قال ربلک ھو علی ھین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (سورۃ مرم :۲۱)۔ چناچہ حضرت مریم ؐ کو یقین ہو گیا یہ معا ملہ خداوندی ہے۔ چناچہ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مریمؐ کو  طعنہ و تشنیع کی زیادہ فکر نہیں تھی جتنا کہ انہیں درد زہ سے تھی، اسی لئے تو فرشتہ نے کہا کہ غم ناک  نہ ہو تیرے پر وردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ پیدا کر دیا ہے اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تو تم پر تر واتازہ کھجوریں جھڑیں گی انہیں کھاؤ اور پیو۔ ان آیات کی تفسیر میں مشہور مفسر قرآن مولانا مفتی شفیع صاحبؒ  ’’ معارف القرآن‘‘ میں لکھا ہے۔

’’ حسب مسئلہ طبیہ گرم چیزوں کا استعمال قبل وضع یا بعد وضع سہل ولادت اور مقوی طبیعت بھی ہے اور پانی میں اگرسخونت (گرمی) بھی ہو جیسا بعض چشموں میں مشاہدہ ہے تو اور زیادہ مزاج کے موافق ہو گا۔ نیز کھجور کثیر الغذا، مولد خون، مسمن، و مقوی گردہ، کمر و مفاصل ہقو نے کی وجہ  سے زچہ  کے لئے سب غذاؤں اور دواؤں سے

بہتر ہے اور حرارت کی وجہ سے جو اس کی مضرت کا احتمال ہے سو اول تو رطب کھجور میں حرارت کم ہے دوسرے پانی سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ ‘‘

مندرجہ بالا نعمتوں (غذاؤں ) کاتذکرہ بڑے ہی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی غذائیں ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ غذا کے بغیر صحت کا تصور ہی بے معنیٰ ہے۔ لیکن یہ سوال پیدا ہو تا کہ غذا کیسی ہو، کمیت کتنی ہو۔ اس طرح کے بہت سارے سوالات ذہنوں میں ابھرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف بھی رہنمائی فر مائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انہی اشیاء کا کھانا پینا حلال قرار دیا ہے جو پاکیزہ ہیں اور جو ہماری جسمانی، ذہنی اور روحانی صحت کی ضامن بھی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے۔

’’ یا ایھاالناس کلو ممافی الارض حلالا طیبا‘‘   (سورۃ البقرۃ : ۶۸)

ترجمہً:لوگو!زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انھیں کھاؤ۔ ‘‘

ایک دوسرے مقام پر ہے:

’’ ولقد کرمنا بنی  آدم وحملنٰھم فی البر والبحرو رزقنھم من الطیبات‘‘( سورۃ بنی اسرائیل : ۷۰)

ترجمہ:یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اورانھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور انھیں پاکیزہ چیزو ں سے رزق دیا۔ ‘‘

اسی طرح وہ چیزں جن کا استعمال صحت انسانی کے لئے نقصان دہ ہے اللہ تعالیٰ نے انھیں حرام ٹھرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

’’ ویحرم علیھم الخبائث‘‘۔ ترجمہ:اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے۔ ( سورۃ الاعراف : ۱۵۷)

ان آیات سے یہ بالکل واضح ہو گیا کہ انسان وہی کھائے جو ’’ حلالا طیبا ‘‘ ہے یہی در اصل انسان کا غذائی منو ہے۔ ہاں اس چیز کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ خواہش کے مطابق ضرور کھایا جائے لیکن اس میں اسراف و فضول خر چی نہ کی جائے۔ قرآن میں ہے ’’  کلوا واشربوا ولا تسرفوا‘‘ (سورۃ الاعراف :۳۱)ترجمہ: ’’کھاؤپیو مگر فضول خرچی نہ کرو‘‘۔

اسی طرح ’’ خبائث ‘‘ کا لفظ لا کر یہ واضح کر دیا کہ یہ اسلامی غذائی منو سے خارج ہیں۔ وہ تمام نعمتیں جن کا تذکرہ اوپرکی آیات میں آیا ہے یہ در اصل ’’طیبات ‘‘  ہیں۔ علامہ قرطبی ؒ احکام القرآن میں فر ماتے ہیں۔

’’ طیبات سے مراد لذیذ ماکولات اور مشروبات ہیں۔ مقاتل نے کہا ہے کہ گھی، شہد، مکھن، کھجور، حلوہ جیسی چیزیں اس میں آتی ہیں۔ ‘‘

خبائث کے بارے میں قرآن میں آتا ہے :

’’ انما حرم علیکم المیتۃ والدم و لحم الخنزیر و ما اھل بہ لغیر اللہ فمن اضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم  علیہ ان للہ غفور رحیم۔ ‘‘(سورۃ البقرۃ : ۱۷۳)

ترجمہ:’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مر دار، خون اور خنزیر کا گوشت اور اس جانور کے گوشت حرام قرار دیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو جو شخص مجبوری کی حالت مین ہو وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے تو اس پر چھ گناہ نہیں  اللہ بخشنے اور رحم کر نےوالا ہے۔ ‘‘

اسی طرح المائدۃ :۳، النحل: ۱۱۵، اور الانعام :۱۴۵ میں مذکورہ چیزوں کی حرمت کا تذکرہ آیا ہے۔ ان آیات میں خنزیر، شراب اور خون کا ذکر خالص سائنسی  وطبی نقطہ نظر سے ہے۔ (تفصیل کے طالب راقم کا مضمون ’’ قرآن حکیم کا نظریہ حفظ صحت اور میڈیکل سائنس ‘‘ مطبوعہ در کتاب’ قرآن اور سائنس‘  پبلیکیشنز ڈویزن علیگڈھ ۲۰۰۳ء ملاحظہ فر مائیں )

اب یہ بات واضح  ہو جاتی ہے کہ خبائث محرمات میں شامل ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا کھا نا پینا ہمارے لئے جائز نہیں کیونکہ یہ چیزیں جسمانی لحاظ سے ہمارے لئے سراسر مضر ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے استعمال سے ہمیں روکا ہے۔ وہ لوگ جو اس صریح اور واضح تعلیم آجانے کے بعد بھی محرمات کا استعمال کرتے ہیں وہ طرح طرح کی بیماریوں اور پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ محرمات کی ایک طویل فہرست ہے یہاں تو  مثال کے طور پر چند کا تذکرہ کر دیا گیا ہے۔

اسلام کے نزدیک وہ چیزیں جن کا استعمال صحت اور اس کی بقا کے لئے مفید و معاون ہے وہ حلال ہیں۔ اسی طرح شریعت میں مردار، لحم خنزیر، خون اور شراب اور اس جیسی چیزیں جن کا کھانا صحت کے لئے نقصان دہ ہے  وہ حرام ہیں۔ آج کی میڈیکل سائنس ان کے مضر اثرات اور ان کے خطرناک پہلؤں کو دنیا کے سامنے کھول کر پیش کر دیا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ چیزیں صحت کے لئے کس قدر نقصان دہ ہیں۔

اس طرح کی کئی آیات ہیں جن میں طبی نکات بیان کئے گئے ہیں۔ طوالت کے خوف سے صرف چند تعلیمات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ چونکہ تفصیل کا یہاں مو قع نہیں ہے اسی لئے طبی وسائنسی مباحث کو بیان نہیں کیا گیا ہے۔ جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں مختصرا ًلکھ دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم کا نظریہ علم الجنین اس قدر واضح ہے کہ اس کے سائنسی مباحث کو پیش کر نے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ البتہ طہارت و پاکیزگی اور غسل کے طبی نقطہ نظر کو بہت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قرآن کا نظریہ غذا یک طویل بحث ہے یہاں صرف چند نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

۱۔ قرآن حکیم

۲۔ ابو عبد اللہ محمد بن احمد القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، المصر ۱۹۸۷ء، ۱۰؍۱۹۱

۳۔ ابن قیم جوزیہ (مترجم :حکیم عزیز الرحمن اعظمی)، طب نبوی، مکتبہ محمدیہ، اردو بازار لاہور، ۲۰۰۸

۴۔ مفتی محمدشفیع، معارف القرآن، جلد ششم، مکتبہ مصطفائی دیوبند

۵۔ محمدشہاب الدین ندوی، قرآن حکیم اور علم نباتات، فرقانیہ اکیڈمی، بنگلور۱۹۹۰ء

۶۔ سید جلال الدین عمری، صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات، ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علیگڈھ، ۱۹۹۴ء

۷۔ الطاف احمد اعظمی، قرآن حکیم اور علم جنین، قرآن اور سائنس‘  پبلیکیشنز ڈویزن علیگڈھ ۲۰۰۳ء

۸۔ محمد رضی الاسلام ندوی، تخلیق انسان کے مراحل اور قرآن کا سائنسی اعجاز، اسلامک بک فاؤنڈیشن، نئی دہلی۱۹۹۴ء

۹۔ محمد جہانگیر حیدر قاسمی، اسلام اور ماحولیات، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، ۲۰۰۸ء

 ۱۰۔ طارق محمود چغتائی، نباتات قرآنی اور جدید سائنس، دار الاشاعت، اردو بازارکراچی، ۲۰۰۰ء

۱۱۔ شمیم ارشاد اعظمی،  قرآن حکیم کا نظریہ حفظ صحت اور میڈیکل سائنس، قرآن اور سائنس‘  پبلیکیشنز ڈویزن علیگڈھ ۲۰۰۳ء

۱۲۔ شمیم ارشاد اعظمی، شیر مادر کی غذائی و طبی افادیت، رہنمائے صحت، جلد: ۵۴، شمارہ :۱۰، جون ۲۰۱۱، پاکستان

 SIDRA PUBLICATION.LUCK.1992. M.I.H.FAROOQI, PLANTS OF THE QURAN 13.

14.M.SIDDIQI, PLANT IN THE HOLY QURAN,GREEN FOUNDATION, HYDRABAD.2009

  1. M.SIDDIQI. HONY IN THE HOLY QURAN,GREEN FOUNDATION, HYDRABAD.2010

16.PARK, S. 2005.PREVENTIVE and SOCIAL MEDICINE,Ed.18th,Banarsidas Bhanot Publisher,Jaipur.2005

تبصرے بند ہیں۔