جب سے چھوڑ گئے تم مجھ کو تن دشمن ہے من دشمن

جمشید انصاری

 جب سے چھوڑ گئے تم مجھ کو تن دشمن ہے من دشمن

پتے دشمن، خوشبو دشمن، گل دشمن، گلشن دشمن

بارش کے موسم میں دل گھبراتا ہے، جل جاتا ہے

بھولی بسری یادیں لے کر آتا ہے ساون دشمن

تو جو نہیں تو گھر کی ہر اک چیز ڈراتی ہے مجھ کو

بستر، تکیہ، صوفہ دشمن، بام و در آنگن دشمن

کوئی نہیں ایسا دنیا میں جس کا نہ ہو دشمن کوئی

شیشے کا پتھر دشمن ہے ، عاشق کا چلمن دشمن

اک دوجے کے دشمن ہیں تو جینا مشکل ہے سب کا

رب ہی جانے کیا ہو جس دن مل جائیں دشمن دشمن

رات گئے گھر میں چھن چھن کی آوازیں تڑپاتی ہیں

جیسے ہوں نیندوں کا مری چوڑی ، پایل ، کنگن دشمن

کیسا دور یہ آیا ہے سب رشتے جھوٹے لگتے ہیں

بھائی کا بھائی دشمن ہے اور بہن کا بہن دشمن

قسمت نے آنسو بخشا ہے ، جیون نے تنہائی دی

قسمت بھی جمشید ہے دشمن ، تنہائی ، جیون دشمن

تبصرے بند ہیں۔