ہم کو بازار میں لے آیا ہے

سحر محمود

ہم کو بازار میں لے آیا ہے

عشق اخبار میں لے آیا ہے

آج وہ دل میں چھپی نفرت کو

اپنی گفتار میں لے آیا ہے

جو بھی تھا اس کے تعلق سے گماں

عکس کردار میں لے آیا ہے

دل، جگر،جان سبھی آخر کار

وہ ترے پیار میں لے آیا ہے

مجھ کو آخر دلِ بے تاب مرا

محفلِ یار میں لے آیا ہے

اس کا احساسِ تکبر اس کو

صفِ نادار میں لے آیا ہے

اب نکلنا تو نہیں ممکن ہے

عشق منجدھار میں لے آیا ہے

پھر وہی قصۂ پارینہ سحر

دل کے دربار میں لے آیا ہے

تبصرے بند ہیں۔