ہم کو بازار میں لے آیا ہے
سحر محمود
ہم کو بازار میں لے آیا ہے
عشق اخبار میں لے آیا ہے
…
آج وہ دل میں چھپی نفرت کو
اپنی گفتار میں لے آیا ہے
…
جو بھی تھا اس کے تعلق سے گماں
عکس کردار میں لے آیا ہے
…
دل، جگر،جان سبھی آخر کار
وہ ترے پیار میں لے آیا ہے
…
مجھ کو آخر دلِ بے تاب مرا
محفلِ یار میں لے آیا ہے
…
اس کا احساسِ تکبر اس کو
صفِ نادار میں لے آیا ہے
…
اب نکلنا تو نہیں ممکن ہے
عشق منجدھار میں لے آیا ہے
…
پھر وہی قصۂ پارینہ سحر
دل کے دربار میں لے آیا ہے
تبصرے بند ہیں۔