جب شرم و حیا ختم ہوجائے، پھر چاہے جو کرے!

محمد شاہنواز ندوی

انسانی زندگی میں عزت و آبرو کی بڑی قدروقیمت ہے۔ اسی سے انسان کے مقام و مرتبہ کی شناخت و پہچان ہوتی ہے۔ جس کی زندگی  عزت و آبرو کے زیور سے خالی ہو جائے  قدر و منزلت کے  بازار میں  اس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ انسان جب تک اپنی نگاہ میں قیمتی ہے تو وہ دوسروں کی نگاہ میں بھی صاحب عزت ہے اور جب خود کی نگاہ میں ذلیل و حقیر ہوجائے سماج و معاشرہ میں کوئی دام لگانے والا نہيں ہوتا۔ جو یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے درمیان عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ حیا ء و پاکبازی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دے۔ حیا و پاکدامنی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”جب انسانی زندگی سے شرم و حیا ختم ہوجائے تو پھر جو چاہے وہ کرے ” اس کے اور حیوان کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا ہے۔

اس وقت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بے شرمی و بے حیائی کا دامن وسیع ہوتا جارہا ہے۔ عزت و ناموس کی چادریں تار تار ہوتی جارہی ہیں۔ غیرت  و مر‎ؤوت  دم توڑ رہی ہیں اور موت و زیست کے بیچ سسکیاں لے رہی ہیں۔ چاروں جانب  عصمت و عفت کے لٹیرےدندناتے پھر رہے ہیں۔ جنسی زیادتی اور عصمت دری کے واقعات سے اخبار و رسائل کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ شرم کی بات یہ ہے کہ ہوس کے مینا بازاروں میں  ملک کی معصوم و نوخیز بچیوں کی عزت و عصمت نیلام ہورہی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ بیٹی بچانے کا نعرہ لگانے والے معصوموں کی عزت کی سواداگری میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ  خاکی وردی پہن کر قانون کے رکھوالے ہی اپنے گناہوں کے ثبوت مٹانے میں لگے ہیں۔

انسانوں کی بستی میں حیوانیت کا ننگا ناچ جس تناسب اور نوعیت کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے  اس سے  پتہ چلتا ہے کہ درندگی اپنے آخری حد کو پہنچ چکی ہے۔ اگر ہم اس جانب غور و فکر کریں تو پتہ چلے گا کہ جنسی جرائم میں ملوث پائے جانے اور   شواہد ملنے کےباوجود مجرموں کو بروقت سزا کا نہ ملنا ہی جرائم کی تعداد میں کثرت اور اضافہ کا سبب ہے۔اسی لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں نربھیا اجتماعی عصمت دری کے دلدوز و  دلخراش واقعہ انجام دئے جانے کے بعد  اس سے بھی زیادہ وحشت ناک اور درد ناک واقعہ انجام دیا گیا۔ جس کی ہولناکی سے صرف بھارت کا چپہ چپہ ہی  دہل نہیں اٹھا بلکہ سات سمندر پار بسنے والے تمام لوگ اس واقعہ پر ماتم کناں ہیں۔ اس کی وحشتناکی کے سامنے انگشت بدنداں ہیں۔ اپنے احتجاج و مظاہرے سے مجرموں کو کیف کردار تک لانے کے لئے بضد و مصر ہیں۔ جس کی تازہ مثال اناو، کٹھوعہ اور صورت میں ہوئے عصمت دری کے واقعات ہیں۔

حیرت اس بات پر ہے کہ عصمت دری کے اس دلدوز واقعہ کو مذہب اور سیاست کے عینک سے دیکھا جارہا ہے، جس واقعہ سے انسانیت کا جنازہ نکل گیا ہے، ملک کی معصوم بچیاں اپنے گھروں سے باہر نکلنے میں ڈر و خوف محسوس کر رہی ہیں۔ والدین بچیوں کی حفاظت کو لیکر شدید فکر مند ہیں۔ ایسی وحشتانکی کے عالم میں جب ملک کے غیور لوگوں نے مجرموں کو کیف کردار تک پہونچانے اور ملک کی سالمیت  کے پیش نظر سڑکوں پہ اتر کر احتجاج و مظاہرہ کرنا شروع کیا تو وہیں کچھ لوگ بے شرمی و بے حیائی کی  حد وں کو پھاندتے ہوئے معصوموں کی ‏عزت لوٹنے والوں کی حمایت میں قومی پرچم لیکر نظر آئے۔ ایسے لوگوں کی غیرت اس طرح مر جائے گی  ایسا وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قومی پرچم جو بھارت کی شان ہے،جو ظلم و استبداد کے خلاف ملنے والی آزادی کی روشن تاریخ کو تازہ کرنے کے لئے لہرایا جاتا ہے آج وہی پرچم عزت و عصمت کے سوداگروں کے لئے لہرایا جانے لگا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مجرموں کے سلسلہ میں اس طرح کی آزادی کب تک چلے گی؟ آخر معصوم بہن بیٹیاں کب تک ظلم و ستم کی چکی میں پستی رہیں گی؟ ان کی بقا و تحفظ کے لئے مستحکم و مضبوط قانون نافذ العمل کیوں نہیں  ہے ؟ حکومت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے لیڈران کو بھلے ہی ان کی دکھ درد کا احساس نہیں ہو لیکن جن کے ساتھ یہ رویہ روا رکھا جاتا ہے ذرا ان سے پوچھئے کہ  وہ کس قدر غموں سے نڈھال ہیں، کس قدر بے بسی کے عالم میں مبتلا ہیں۔ شب و روز کا سکھ و چین ہمیشہ کے لئے  ملنے والے عذاب میں بدل چکا ہے۔ انصاف کی بھیک مانگتے ہوئے حلق سوکھ چکا ہے۔ آنکھوں سے آنسو  بہتے بہتے چہرے پر گہرے نشان پڑ گئے ہیں۔ بچی کی عصمت لوٹی گئی، عزت تار تار کی گئی یہ سب حزن ملال کے اسباب تو ہیں ہی لیکن بچی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یہ ہمیشہ کے لئے ملنے والا غم ہی نہیں بلکہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے صاف و شفاف چہرے بدنما طمانچہ ہے جس کا داغ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ مظلوموں کو انصاف نہیں مل جاتا ہے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں معصوم بچیوں کے اوپر ظلم و بربریت کا پہاڑ جس طرح توڑا جارہا ہے اس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اور ظالموں کو مناسب سزا دلانے کے لئے کوشاں ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ہمیں اس طرح کے دن دیکھنے کو نہیں ملتے۔ زندگی کے لوازمات کو پورا کرنا اپنے آپ میں ایک بڑا امتحان ہے۔حالات معمول کے مطابق ہوتے ہوئے بھی زندگی کسی جنگ سے کم نہیں ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی کے ساتھ ناگہانی  واقعہ پیش آجائے، عصمت و عفت پہ داغ لگ جائے، کسی کی جان چلی جائے، دشمنوں کی سازش کے نرغے میں گھر جائے یہ مزید ستم بالائے ستم ہے۔ جہاں پہنچ کر انسان شس و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور کسی بھی غلط راستہ کی طرف قدم آگے بڑھا سکتا ہے۔ ہمیں اس جانب غور و فکر سے کام لینا ہے  اور اس بات کا حل نکالنا ہے کہ آخر وہ اسباب کیا ہیں جن کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی اپنا پاوں پسار رہی ہے۔ عفت و عصمت  کی دھجیا ں اڑائی جارہی ہیں۔ اور جنسی بھوکے بھیڑیے چاروں طرف معصوموں کی عصمت لوٹنے میں مگن ہیں۔ ان کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں ہو رہی ہے۔ ان جنسی درندوں کے بھینٹ چڑھنے میں ہماری آپکی کسی کی بھی بہن بیٹی ہوسکتی ہے۔

عصمت دری کے بڑھتے واقعات کے اسباب میں سے بنیادی سبب یہ ہے  عصمت دری کے واقعات میں ملوث ہونے والے مجرموں کے لئے کوئی ٹھوس اور مضبوط قانون سزا نہیں ہے جس کے ڈر  سے یہ عمل سرزد نہ ہوسکے۔ بلکہ ہمارے ملک کا قانون اس بات کی اجازت فراہم کرتا ہے کہ بالغ لڑکا بالغہ لڑکی  دونوں اپنی رضا مندی کے ساتھ بنا کسی شادی  کے زندگی گزارسکتے ہیں، جو کہ اسلامی نقطہ نظر سے حرام ہے، یہ کھلم کھلا زنا ہے۔اس کی سزا زنا کی سزا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح کے  رہن سہن سے سماج و معاشرہ میں بے حیائی بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتی جارہی ہے۔ کوئی کسی کو روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔ اس نظام عمل سے جہاں ملکی طور پر بے حیائی کا فروغ ہورہا ہے وہیں گھروں کا سکھ و چین تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ شادی بیاہ کا مسئلہ سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرز زندگی سے    خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔چاروں طرف بد امنی اور فحاشیت سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ وقتی طور پر زندگی گزارنے اور عیش و موج کے لئے یہ طریقہ سبز باغ کی مانند ہے لیکن اس کا انجام سوائے موت کے اور کچھ نہیں ہے۔ بلکہ موت کے بعد  جہنم کی دہکتی ہوئی اور تپتی ہوئی آگ ایسے لوگوں کے انتظار میں ہے۔

ایک سبب یہ بھی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اسلامی طرز زندگی کا خاص خیال نہیں رکھتے ہیں۔ روشن خیالی کے نام پر خود بھی جدید تہذیب کے دلدادہ ہیں اور اولاد کو بھی اسی تہذیب میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ مخلوط تعلیم کے قائل ہیں جہاں مرد و عورت کا اختلاط لازمی ہے۔ اسکول کے پروگرام وغیرہ میں بے پردگی سے پیش آنا حیا سوز اور ایمان سوزڈرامہ اور مکالمہ وغیرہ میں شریک ہونا یہ سب بھی  لاشعوری طور پر بچوں کو بے پردگی کی طرف لے جاتے ہیں۔

ملک میں بے حیائی کو فروغ دینے میں سب سے بڑا مجرم اگر کسی کو ٹھہرایا جائے تو وہ فلمی دنیا ہے۔ جہاں شرم و حیاء کی کو‏ئی قدر نہیں ہے، جہاں بے شرمی کی سب سے زیادہ قدر کی جاتی ہے۔ ان کے پاس بے شرمی کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ فلم بنانے والے جس قدر بے حیا ء ہوتے ہیں اتنی ہی ان کی عزت میں چار چاند لگتے ہیں۔خواتین حضرات انہیں اپنا آئڈیل مانتی ہیں، ان ہی کی طرح اپنے آپ کو سنوارتی ہیں، ان کے لباس کو اپنا لباس سمجھتی ہیں۔سیر و تفریح سے لیکر گھر بار کے تمام حالات میں انہی کے نقش قدم پر زندگی گزارنے کو اپنا فخر سمجھتی ہیں۔ انہیں اس بات کا بالکل بھی پتہ نہیں ہوتا کہ پیسہ کمانے کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں، جن کی بے غیرتی ہے غیرت ہے۔جن کی بے عزتی ہی بے عزت ہے۔ جن کی بے شرمی ہی شرم و حیا ء ہے۔جنکا نیم عریاں جسم ہی حجاب و پردہ کی تعبیر ہے۔ یہاں ایک قدم رک کر سوچیئے کہ کیا بے حیائی کا یہ طریقہ ہمیں ذلت و رسوائی کے کس کھائی میں ڈھکیل رہا ہے۔ جہاں ہم اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔جہاں پہونچنے کے بعد چاہتے ہوئے بھی ہم اپنی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔

 فلم جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جس کا پورا کردار افسانوی ہوتا ہے۔ جس  الفت و محبت کی کہانی کو کوئی ماں اپنی اولاد کے لئے پسند نہیں کرسکتی ہے آج وہ پردہ سیمی کے ذریعہ ہر گھر میں سنائی اور دکھائی جاتی ہے۔ ایک خاوند جوڑا جائز رشتہ میں بندھے ہونے کے باجود کوئی ایسی نازیبا حرکت نہیں کرتے ہیں جس کا برا اثر بچوں کی نشو نماں کو متاثر کرسکتا ہے۔ مگر افسوس کہ وہ سب کچھ فم بینی کے ذریعہ سے ہر گھر میں پہنچ رہا ہے ۔ انٹر نیٹ کی سہولیات نے  بے حیائی کو عام کرنےمیں جو مدد پہونچائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ فلمی دنیا سے صرف بے حیائی کے باب میں کشادگی نہیں پھیلی ہے  بلکہ لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری کے وہ نت نئے انداز جن کے ذریعہ ایک ہیرو ایک ولن کو مار گراتا ہے  انہی طور طریقہ کو آج کی نئی نسل حقیقت کی دنیا میں استعمال کرکے اپنی عاقبت برباد کرتی ہے۔ اور جیل کی سلاکھوں میں پڑے رہنے کا سامان مہیا کرتی ہے۔

بر سبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ اس ضمن میں مغربی کلچر وثقافت کا  گہرا اثر ہے۔ اہل مغرب جن کی زندگی کا محور  و مرکز ہی بے حیائی ہے، ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمارے ملک کے نوجوان مشرقی کلچر و تمدن سے تہی دامن ہوتے جارہے ہیں۔ ‍ اسلامی آداب و اخلاق کو دقیا نوسی سمجھ رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کو معیوب سمجھ رہے ہیں۔ ملبوسات،رہن و سہن اور کھانے پینے کے طور طریقہ میں مغربی کلچر کو ترجیح دے رہے ہیں، شادی و نکاح کے موقع   پر اسلامی ثقافت کو زیادہ ہی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیا جیسی محترم چیز نئی نسل کے دل و دماغ سے نکلتی جارہی ہے۔ رشتہ ناطہ کا فرق مٹتا جارہا ہے۔ باہمی اخوت و محبت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اخلاقی زوال چہار سو پھیل رہا ہے۔بڑے بزرگ کا احترام دلوں سے نکلتا جارہا ہے۔ایک دوسرے کے حقوق فراموش کئے جارہے ہیں۔ محبت کی جگہ نفرت، عاجزی و انکساری کی جگہ کبر و غرور دلوں میں جگہ بناتے جارہے ہیں۔

بے حیائی کو فروغ دینے میں نیم عریاں  خواتین کی تصاویر پر مبنی اشتہارات بھی شامل ہیں۔ بیشتر مقامات پر تجارتی منافع کے پیش نظر صنف نازک کا استعمال ہوتا ہے۔ جہاز میں مسافروں کی خدمت گزاری کے لئے، دکان اور ہوٹل کے کاونٹروں میں کلام نرم نازک سے لوگوں کو مائل کرنے کے لئے ان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ تجارت کو چمکانے، خریداروں کو اپنی دکان اور سامان کی  طرف مائل کرنے کے لئے اس طرح کے حیا سوز اشتہارات کا سہارا لیا جارہا ہے۔ جہاں اشہتاری خواتین بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنے کردار کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جس کا مشاہدہ کرنے سے خواہش نفسانی کو مزید طاقت اور تقویت ملتی ہے۔ تجارت تو بہر حال چمک جاتی ہے  لیکن اس نازیبا عمل سے اخلاق کی دولت فنا ہوجاتی ہے جس کا اثر کسی مخصوص طبقہ پر ہی نہیں پڑتا ہے بلکہ خاندان اور سماج و معاشرہ یکساں طور پر اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں خوف خدا ہی ہماری حفاظت کا ضامن ہے۔ بندہ چاہے جس جگہ رہے اگر اس کے دل میں اللہ تعالی کا ڈر موجود ہے تو اپنے آپ کو ہر طرح کی برائی سے بچا لیگا۔ چونکہ مذہب اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس نے برائی کے سد باب کے لئے اہم اصول و ضابطہ کی طرف رہنمائی کی ہے۔ صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے بہترین رہبری کی ہے۔ عصمت دری کے عمل میں مبتلا ہونا تو دور کی بات ہے اس کے تمام اسباب و علل سے دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ ز‌نا کی فحاشیت کے بتاتے ہوئے کہا کہ ” خبر دار تم زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے”۔(سورہ بنی اسرائیل 32)اسی طرح تمام طرح کی برائیوں سے روکتے ہوئے کہا کہ ” تم بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاو خواہ وہ علانیہ ہوں خواہ پوشیدہ۔ سورہ الانعام آیت 151) ان آیتوں سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ اسلام میں معمولی قسم کی بے حیائی بھی پسند نہیں کی گئی ہے۔ متفق علیہ روایت کے مطابق  ایمان کا ستر سے بھی زائد شعبے ہیں ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ کا ورد کرنا ہے اور سب سے ادنی حصہ راستہ سے کانٹا کا دور کرنا ہے اور حیا ایمان کا شعبہ ہےحیاوپاکدامنی کی تعلیم دینے کے بعد اکر کوئی نہ مانے اور روگردانی کرتے ہوئے زنا کا ارتکاب کر بھی لے تو اس کے لئے بھی سنگ ساری کی دردناک سزا ہے۔ تاکہ ایسے ناپاک لوگوں کو معاشرہ سے ختم کرکے سماج کو پاک صاف رکھنے کی کوشش کی جائے۔ آپ یہیں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلام نے کس کس زاویہ سے اپنے ماننے والوں کی تربیت کی ہے۔

مگر حیرت اس بات کی ہے ان دنوں ایک مخصوص طبقہ ہر چیز کو مذہب کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان میں مذہبی حمیت زروں پر ہے۔  اپنے کو مذہبی بنا کر پیش کرنے کے لئے مذہبی علامات اور نشانات کا لبادہ اختیار کررہا ہے۔ ہر چیز کو مذہبی رنگ سے رنگنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جسم کے کپڑے، عبادات خانے، سیاسی محلات یہاں تک ٹرین کے ڈبے بھی مذہبی رنگ سے رنگےجارہے ہیں سوال یہ ہے کہ ان کے یہاں صرف رنگ و روپ ہی کا نام مذہب ہے یا پھر صالح سماج و معاشرہ کے لئے مذہبی تعلیمات بھی ہیں۔ اگر ہیں تو پھر مذہبی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی ہے؟کیا مذہبی لباس زيب تن کرنے کے بعد ہر ناجائز کا م جائز ہو جاتے ہیں ؟   ایسے نام نہاد مذہب پرست لوگوں کو خود بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور لوگوں کو بھی ایسے دھوکہ بازوں سے دور رہنا چاہئے۔ جو مذہب کی تعلیمات سے کوسوں دور رہتے ہوئے مذہب کے نام پر من مانی کررہے ہوں۔

 بہر حا ل ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر فتن دور میں اپنی حفاظت خود کریں، بچوں اور بچیوں کو اخلاق کریمانہ کا سبق دیں۔ فحاشیت سے حتی الامکان روکنے کی کوشش کریں، اسلامی طور طریقہ پر کاربند رہنے کی تلقین کریں۔ خوف خدا، مرنے کے بعد دوربارہ زندگی اور قیامت کے دن حساب وکتاب کے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔ اس لئے کہ تعلیمات اسلامی ہی ہمارے لئے قیمتی سرمایہ ہیں۔ جو فطرت کے اصولوں کے عین مطابق ہیں۔ ان سے روگردانی گویا فطرت سے بغاوت ہے جس کا انجام دنیا میں بھی سنگین ہے اور مرنے کے بعد سنگین تر تو ہے ہی۔

تبصرے بند ہیں۔