شب برأت اور ہمارے معاشرے کا حال

محمد قاسم ٹانڈوی

(رامپورروڈ ٹانڈہ بادلی ضلع رامپور یوپی)

دین اسلام ایک کامل و مکمل اور اعتدال پسند دین ہے جو ہر موقع و مقام پر اپنے ماننے والوں کی کامل طریقہ پر راہنمائ کا فریضہ انجام دے کر ان کے دین و دنیا کی کامیابی چاہتا ہے. یہ ہماری خوش نصیبی اور سعادت مندی ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اسی دین اسلام کا پیرو اور متبع بنایا ہے جو ادنی سے ادنی موقع پر بھی اپنے ماتحتوں کو تنہا نہیں چھوڑتا اور بھرپور طورپر صحیح سمت میں منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہنے کا حکم و اشارہ کرتا ہے، اس دین مبین کی و وجوہات میں سے ایک خاص وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہےکہ ہمارا یہ دین کبھی بھی کوئی بات یا کسی طرح کا کوئی حکم بیان کرنے میں گول مول یا مبہم انداز اختیار نہیں کرتا اور نہ ہی حکم شریعت بیان کرنے کے بعد درمیان راستہ میں تنہا و یکہ چھوڑتا.

یہ مسئلہ اب ہماری عقل کی رسائی اور علم کی کمی زیادتی پر منحصر کرتا ہےکہ ہم کب کونسا راستہ اپنائیں اور کس راہ پر خود کو گامزن کرکے خود کو کامران و کامیاب بنائیں اور اسی فانی دنیا کی کشمکش میں رہتے ہوئے اپنی آخرت کو سنوارنے میں سرگرداں رہیں.  ساتھ ہی اس بات کا جائزہ اور احتساب کریں کہ کیا ہم اپنی ذات میں چھپے قدیم دشمن نفس کو خوش کرنے والا خودساختہ طریقے اپنائے ہوئے ہیں، جو ہمیں بےراہ روی کا شکار بنا کر ہلاک و برباد کرنا چاہتا ہے یا پہر ہم نے خود کو اس راستہ کا پابند عہد بنا رکھا ہے جس کو اختیار کرنے کا ہماری شریعت مطہرہ نے ہمیں مکلف بنایا ہے اور امور دین و دنیا میں وہ ہمیں اجازت دیتی ہے؟

اتنا تو طے ہےکہ زمانہ جیسے جیسے نبئ اخرالزماں کے دور نبوت کی روحانی و رحمانی فضاؤں سے بعید اور  فنائے دنیا (قیامت) سے قریب ہوتا جارہا ہے ویسے ویسے اس آخری دین و شریعت میں نئ نئ باتیں ایجاد کی جارہی ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہےکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان بےسود اور لغو باتوں میں اپنی عقل و فہم کا استعمال کئے بغیر آنکھیں موند کر ان باتوں پر عمل پیرا ہوتی دکھائی دے رہی ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہےکہ اپنی عقل اور دین بلیغ کے دشمنوں نے ان بےہودہ اور بے فائدہ باتوں کو اس خوشنما انداز میں امت کے سادہ لوح مزاج لوگوں کے مابین پیش کیا کہ یہ سادگی مزاج لوگ ان بدعات و خرافات کو عقیدہ اور عبادت سے مربوط کر بیٹھے جس کا واضح نقصان اور نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ لوگ اصل مقاصد سے دور ہو گئے اور وقفہ وقفہ سے باری تعالی کی طرف سے ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں امت کے افراد ناکام و نامراد ہو گئے اور یوں ہی پوری پوری رات شب گزاری کا وہمہ اور دن میں فاقہ کشی کو وطیرہ بنا بیٹھے. حالانکہ یہ بات مسلمات میں سے ہےکہ عبادات و ریاضیات خواہ نفلی ہی کیوں نہ ہوں ان میں وہی طریقہ افضل اور محمود و مقبول سمجھا گیا ہے جس کو رسول، اصحاب رسول، تابعین اور تبع تابعین کے اختیار کردہ اور طے کردہ اصول و ضوابط پر رہ کر انجام دیا جائے گا بصورت دیگر وہ مزعومہ عبادت، جس کو اس نے خواہشات نفسانی کی تکمیل اور اہل زمانہ کی دیکھا دیکھی انجام دی ہوگی وہ اس کے منھ پر مار دی جائے گی اور پہر دین و دنیا میں جاری ہونے والے بگاڑ اور فساد کی باز پرس بھی اسی سے ہوگی.

آج کی اس تحریر کا مقصد یہ ہےکہ آج کے اس دن اور آج کی اس رات جس کو ہم اہل ایمان "شب برآت” کے نام سے جانتے ہیں، نہ تو اس کو ایک مستقل تہوار کی شکل دی جا سکتی ہے کہ اس کو خوشی میں مست ہوکر گزاریں جیسا کہ ہمارا نوجوان طبقہ اس مبارک و مسعود رات کو مستی اور لہو و لعب میں گزار دیتا ہے اور نہ ہی بالکلیہ اس کی فضیلت و برکت کا منکر ہو کر خود کو محروم کیا جا سکتا ہے، اور نہ خوشی کے مواقع کی طرح اس میں کسی طرح کی شدت و لزومیت برت کر اس کے متعلق جو فضائل و احکامات احادیث و آثار سے ثابت شدہ ہیں ان سے روگردانی جا سکتی ہے. مگر فی زمانہ بکثرت دیکھنے میں یہی آ رہا ہےکہ بعض احباب اور ایک خاص فکر رکھنے والے طبقے نے ہمارے معاشرے پر ایسا قہر ڈھایا اور وہ ظلم رواں رکھا کہ اس طبقے اور فکر سے مطابقت رکھنے والوں نے اس اہم موقع پر بھی بس گھروں میں چراغاں، لیپا پوتی کرنے اور مساجد و معابد کو رنگ برنگے قمقموں میں سے سجانے کو اور پوری پوری رات سڑکوں روڈوں پر مٹرگشتی کرنے کو ہی اصل سمجھ رکھا ہے اور اس رات میں جو اہم کام کرنے تھے اور اس رات کے قیمتی لمحات سے جو فوائد حاصل کرنے تھے وہ سب سرے سے فراموش کر دئے گئے.

در اصل اس دن ہوتا کیا ہے؛ نماز عصر سے کچھ قبل نیا جوڑا زیب تن کیا اور پہر عصر مغرب کی نمازیں ادا کیں اس کے بعد خود ساختہ رسم و رواج کی ادائیگی کے واسطے کچھ کھایا پیا اور نکل پڑے ٹکڑی ٹکڑی بنا کر راستوں پیڑوں کی طرف، اب کہیں تو ٹھیلوں پر کھڑے کھڑے وقت ضائع کیا جا رہا ہے اور کہیں جلسے جلوس میں شمولیت کرکے دین کے نام وقت اور پیسے دونوں برباد کئے جا رہے ہیں. حالانکہ اتباع سنت اور عبادت و ریاضت میں وہی طریقہ افضل ہے جو اصحاب رسول اور ائمہ دین کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہوگا اس لئے اس رات جس کو شب برات سے موسوم کیا گیا ہے اس کے مقاصد و مفاہیم سے کما حقہ فائدہ اٹھانے اور اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرنے کےلئے بھی وہی اصول و ضوابط اختیار کرنے کی ضرورت ہے، یہی ہمارے دین اسلام کی خوبی ہے اور اسی میں اہل ایمان کی سرخروئ ہے.

باقی جو بھی طریقہ اور راستہ دور نبوت اور خیر القرون سے جدا ہوگا باطل ہوگا ناقابل منظور ہوگا اس لئے کہ ہمارے لئے اسوہ نبی اور اسوہ صحابہ معیار و پیمانہ قرار دئے گئے ہیں چناچہ اسی طے شدہ امر کے تحت کہا جاتا ہےکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم تک پہنچانے والی ہے.

اس مبارک و مسعود رات میں خلاف شریعت اور اسوہ نبی اور اسوہ صحابہ سے ہٹ کر جو لوگ بھی دین کے نام پر بدعات و خرافات کو انجام دینے اور مختلف رسم و رواج کو نبھانے میں خود کو مشغول کرتے ہیں یا نوجوانوں کا وہ طبقہ جو پوری پوری رات بائک اسٹنگ کرنے اور روڈوں پر مٹرگشتی کرنے میں یوں ہی گزار دیتا ہے، انہیں تھوڑا غور و فکر کرنا چاہیے اور خود کو ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ساتھ ساتھ دین و مذہب کا سچا پیرو اور عاشق رسول ہونے کا بھی ثبوت دینا چاہئے. بصورت دیگر اس رات کی تمام کی تمام کس و کاوش اور جدوجہد منھ پر مار دی جائیں گی اور پہر بوقت حساب و کتاب کف افسوس ملنے کے ہمارے پاس کچھ نہ ہوگا.

(اللہ پاک ہم سب کی ہر طرح کی بدعات و خرافات سے حفاظت و صیانت فرمائے اور اس مبارک رات کے لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھانے والا بنائے؛ آمین)

تبصرے بند ہیں۔