جب گزرے لمحوں کے پنچھی یادوں میں در آتے ہیں

مقصود اعظم فاضلی

جب گزرے لمحوں کے پنچھی یادوں میں در آتے ہیں
کچھ کلیاں ہنس پڑتی ہیں اور کچھ گل مرجھا جاتے ہیں

ہم کیا جانیں کیا ہوتا ہے شعر و ادب کی محفل میں
ہم تو ٹوٹی پھوٹی زباں میں دل کا حال سناتے ہیں

کہدے کوئی جاکر اتنا آگ لگانے والوں سے
آگ لگانے والے اکثر آگ میں خود جل جاتے ہیں

تجھ سے ملنے کے ہر رستے ہو جاتے ہیں جب معدوم
” ہم کاغذ کی ناؤ بنا کر پانی میں تیراتے ہیں "

کن لوگوں کے بیچ میں اعظم وقت ہمیں لے آیا ہے
بھیڑ میں بھی رہ کے ہم اکثر خود کو تنہا پاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔