امیرِ شہر کا پیشہ بہت پرانا ہے

مجاہد ہادؔی ایلولوی

 امیرِ شہر کا پیشہ بہت پرانا ہے
ابھی جو دیتے ہیں نعرہ بہت پرانا ہے

ہمارے کانوں کو کچھ اور سننا ہے تم سے
کہ اچھے دن کا یہ وعدہ بہت پرانا ہے

کیا ایک دوجے پہ مرنے کا, جان دینے کی
کہ پیار کا یہ طریقہ بہت پرانا ہے

کہوں تو کیسے کہوں بے وفا سے میں یہ بات
کہ دل سے دل کا یہ رشتہ بہت پرانا ہے

وہ راہِ عشق میں یوں کہکے تنہا چھوڑ گئے
تمہارے جسم پہ کُرتہ بہت پرانا ہے

ہمیشہ ساتھ میں ہوتے ہیں اس سے ظاہر ہے
"قلم کا حرف سے رشتہ بہت پرانا ہے”

تلاش میں ہیں یہ آنکھیں نئے مناظر کی
ہے آنکھ میں جو نظارہ بہت پرانا ہے

میں کیا سناؤں تمہیں داستاں وہ جنت کی
مرے وجود کا قصہ بہت پرانا ہے

بنالو تم بھی کہیں اک نیا مکاں ہادؔی
یہ شہرِ یار کا کوچہ بہت پرانا ہے

تبصرے بند ہیں۔