امیرِ شہر کا پیشہ بہت پرانا ہے
مجاہد ہادؔی ایلولوی
امیرِ شہر کا پیشہ بہت پرانا ہے
ابھی جو دیتے ہیں نعرہ بہت پرانا ہے
…
ہمارے کانوں کو کچھ اور سننا ہے تم سے
کہ اچھے دن کا یہ وعدہ بہت پرانا ہے
…
کیا ایک دوجے پہ مرنے کا, جان دینے کی
کہ پیار کا یہ طریقہ بہت پرانا ہے
…
کہوں تو کیسے کہوں بے وفا سے میں یہ بات
کہ دل سے دل کا یہ رشتہ بہت پرانا ہے
…
وہ راہِ عشق میں یوں کہکے تنہا چھوڑ گئے
تمہارے جسم پہ کُرتہ بہت پرانا ہے
…
ہمیشہ ساتھ میں ہوتے ہیں اس سے ظاہر ہے
"قلم کا حرف سے رشتہ بہت پرانا ہے”
…
تلاش میں ہیں یہ آنکھیں نئے مناظر کی
ہے آنکھ میں جو نظارہ بہت پرانا ہے
…
میں کیا سناؤں تمہیں داستاں وہ جنت کی
مرے وجود کا قصہ بہت پرانا ہے
…
بنالو تم بھی کہیں اک نیا مکاں ہادؔی
یہ شہرِ یار کا کوچہ بہت پرانا ہے
تبصرے بند ہیں۔