جموں کشمیر کے ساتھ دوغلاپن

محمدصابر حسین ندوی

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں ، تیری رہبری کاسوال ہے

خود غرض وخود پسندسیاست اور مناصب اعلی کی للک نےانسانی زندگی کی حیثیت و حقیقت دو کوڑی کی کردی ہے، دعووں اور وعدوں کے نام پر معصوم عوام کے ساتھ دوغلاپن کا بازار گرم ہے، جھوٹے اور بے بنیاد اور بے سر وپا کی پالیسیوں نے عام لوگوں کی حالت بد سے بد تر کردی ہے، پوری انسانیت کو شیر مارکیٹ اور سبزی منڈی میں تبدیل کردیا گیا ہے، جہاں ہر کوئی انسانی اقدار کو؛ بلکہ حق حیات ہی سلب کرلینے اور اسے سر عام سبزی فروش کی طرح’’اونے پونے دام‘‘پر بیچ ڈالنے میں مصروف ہے، دہشت گردی، حقوق انسانی اور یکسانیت کے نام پر قتل و غارت گری کی جارہی ہے، اپنی دکان سجانے اور برتری وبلندی کی’’جوع البقر‘‘ خواہش پوری کرنے میں مسابقت آرائی کی جاری ہے، ملکوں ، خطوں اور علاقوں کو بانٹا جارہا ہے، مذہب اور ذات پات کے نام پر فتنےبھڑکائے جارہے ہیں ، تشددو تعصب پیدا کرکے انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، تو کہیں حب الوطنی کا سہارا لے کر یا پھر اپنی بےتکی پالیسیوں کے سامنے کسی مد مقابل کو کھڑا کر کے دشمنی کا بیج بویا جارہا ہے، جو بہت جلد از بعید قیاس تناور درخت میں بدل کر کڑوے کسیلے پھل دیتا ہے، بچے، عورتیں اور بزرگوں کی جان شہادت اور قربانی کی آڑ میں لے لی جاتی ہے، نوجوانوں کی رگوں کو پھڑکا کر آتشکدہ میں جھونک یا جاتا ہے، اور اگر اعتراض کیا جائے تو اسے مادر وطن کا مخالف بتلاکر سر عام قتل کرنے اور اس کی سانسیں روک دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

یہی کھیل اور یہی سوداگری پورے ہندوستانی منظر نامہ پر دیکھا جاسکتا ہے؛لیکن خاص طور پر سالوں سال سے یہ انسانیت سوزاور جاں سوز کھیل جموں کشمیر کی ودایوں میں کھیلا جارہا ہے، آئے دن خون کی ندیاں بہانے اور صنف نازک کی عزت تار تار کردینے یا کسی معصوم کو دہشت گردی کے پس پردہ جاں بحق کردینے، یا پاکستانی ہونے یا پاکستان کی محبت کا راگ چھیڑ کر اور بسا اوقات بعض شر پسند عناصر کی گولی باری یا سنگ باری یا پاکستانی پرچم کشائی کے پیچھے پورے ماحول میں زہر گھول دینے اور فضاء زہر آلود کردینے کی سازش زوروں پر ہے، آزادی ہند کے بعد سے ہی ہر حکومت اس مسئلہ کو سلجھانے کا دعوی کرتی رہی ہے، اور وادی کشمیر کو جنت نما بنانے اور اسے ہند کی ناک ٹھہرانے کا دم بھرتی رہی ہے؛لیکن حقیقت اس سے پرے ہے، آپ ملکی تمام منصوبوں پر غور کیجئے ! جنہیں امن و امان کی خاطر بروئے کار لایا گیا اور ان کے ذریعہ سکون وشانتی کی ہوا چلانے کی کوشش کی گئی، شاید وباید ہی کوئی ایسا منصوبہ ہو جس کے اندر نیک نیتی اور صالح ماحول کی تشکیل اس کی خشت اول میں پائی جائے، اور اگر وقتی طورپر ابر آلود ہوا بھی ہو تو وہ محض حسن ظن پر منحصر رہا ہے، اور جب اس کی تہ الٹی گئی تو بلا مبالغہ وہ سراب نظر آیا ہے، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا؛کہ ان تمام منشور میں بد نیتی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کی بو دور ہی سے آجاتی ہے، بلکہ اس کی سڑاند کا عالم یہ ہوتا ہے کہ کسی شریف نفس اور صاحب ظرافت کیلئے غیر متحمل ہو۔

اس کی تازہ مثال بی جے پی اور پی ڈی پی کا متحدہ محاذ ہے، جن کے بارے میں ہمیشہ سینہ پیٹ پیٹ کر اور ببانگ دہل اعلان کیا گیا ؛کہ یہ قدم کشمیر کو بہشت کا ٹکڑا بنا دے گا، پاکستان کوسرخ آنکھوں کے ذریعہ اور چین کو چھپن انچ کے سینہ کے خوف تلےکچل کر رکھ دے گا، سرحدی علاقوں میں ناجائز فائرنگ اور گولاباری سے معصوموں کی جان بچ جائے گی، عورتوں کی عزتیں اور عصمتیں محفوط ہوجائیں گی، بچے اب یتیم نہ ہوں گے اور کوئی نہ تورانڈہوگا، نہ کوئی بیوا ہوگی اور ناہی کوئی ماں کا لال اپنی ماں کی محبت کی گرماہٹ سے محروم ہوگا، کہا تو یہ بھی جاتا تھا کہ اسے خاص صوبہ کا درجہ حاصل ہوجائے گا، اور دفعہ ۳۷۰ کا نفاذ بھی ہوگا، بعضوں نے چیخ چیخ کر درویشوں اور پنڈتون کو دوبارہ بسانے اور مذہبی سفر کو بلاخوف پورا کرنے نیز کسی بھی حال میں سرنہ جھکنے اور کسی مصالحت پر رضامند نہ ہونے کا بھی دعوی تھا، پھر سے کشمیریوں کو ہندوستانی ہونے کا احساس دلاکر ان میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھر دینے اور زعفرانیت کا پھریرا لہرانے کے ساتھ ساتھ تعلیم وتعلم اور جدید ٹیکنالوجی، کالجز اور یونیورسٹیز قائم کرکے ایک نئی صبح اور نئی شام پیدا کرنے کی باتیں ہوتی تھیں۔

بہت ناز تھا مجھے اپنے چاہنے والوں پر

میں عزیز تھا سب کو مگر ضرورتوں کیلئے

اس الائنس اور اتحاد سے قبل کے دعووں کا صندوق کھولا جائے تو فہرست اتنی طویل ہوگی ؛کہ اب اس پر کان رکھنا گو یا اپنے کان میں گرم سلاخیں ڈالنا ہے، حتی جنانہ دورحکومت سے نیک فال لئے گئے، ان کی خاندانی سیاسی نظریہ اور کشمیر کیلئے سابقہ کاوشوں پر امیدوں کا بسیرا لگایا گیا، اور کہا گیا تھا کہ اب وادی میں حقیقی حکومت اور جمہوریت کا ورود ہے، آزادی کے بعد اب اسے اپنا سر بلند کرنے اور حقیقی خوبصورتی پانے اور عہد ماضی کا حسین امتزاج پیدا کرنے کاموقع ہے، اب یہاں کے نوجوانوں کو نوکریوں اور ملازمتوں کیلئے در، در نہیں بھٹکنا پڑے گا، الزامات کے شکنجہ اب ان پر نہیں کسے جائیں گے، صیاد خود اب شکار ہوجائے گا، بچیاں بے خوف وخطر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ پائیں گی، ان کے ساتھ ظلم وجور اور عفت ریزی کی واردات پر لگام لگائی جائے گی، اور وہ بھی اپنےحسن کے ساتھ کشمیر کا حسن بڑھانے میں حصہ دار ہونگی، انہیں کسی اور دہر یا کسی اور خطہ کی خاک نہیں اڑانی پڑے گی، آزادی ان کا مقدر ہوجائے گا، دن ہو یا رات، خلوت ہویاجلوت کسی بھی صورت میں ہراساں ہونے کی ضرورت نہ ہوگی، گویا وہ فانی کی زبانی کہہ رہے تھے:۔

موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانی

گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

یاد پڑتا ہے کہ اس اتحاد کے وقت نام نہاد شہرت یافتہ افراد نے ٹویت اور دیگر ذرائع کے ذریعہ مبارکبادیوں اور نیک تمناؤں کا اظہار ایسے کیا تھا ؛کہ گویا ۱۹۴۷ءکے بعد پھر سے کسی ظالم وجابر اور بیرونی حکمران کی حکومت سے نجات ملی، اور کوئی منہ مانگی مراد مل گئی ہو، اور یہ عقیدہ پال لیا ہو:

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

ایسا معلوم ہوتا تھا؛ کہ ہر طرف چراغاں ہے، نئے ہندوستان اور نئی سرفرازیوں کا دور بس شروع ہونے ہی کو ہے، اور اب وہ دن دور نہیں جہاں کشمیر کے ساتھ بھی عام صوبوں کا سا سلوک ہوگا، وہاں بھی لوگ چین وقرار پائیں گے، اور کسی مدت مدید کے مسافر کو منزل مل ہی جائے گی، اس خواب کو پورا کرنے کیلئے ہر ممکن ریاکاری اور مکاری سے بھی کام لیا گیا، سیز فائر بند کرنے اور ان سب سے بڑھ کر سر جیکل اسٹرائک کے تماشہ کا پلندہ بھی سجایا گیا، اور یہ باور کرایا گیا کہ آزاد ہند کا یہ سب سے پہلا سرجیکل اسٹرائک ہے؛جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی؛کہ نوٹ بندی سے بھی کشمیر میں گولا باری کم ہوگئی ہے، غیر ممنوع داخلہ بند ہوچکے ہیں ، سرحدی حدود کی پامالی اب ختم ہوچکی ہے؛بلکہ گلہ پھاڑ کر کہا گیا کہ اب کشمیر بدل چکا ہے اور حکومت اپنے منصوبے، حکمت اور منشور میں کامیاب ہے۔ ذرا غور کیجئے! کامیابی اتنی زیادہ ہوگئی کہ وقت سے پہلے ہی اتحاد انجام تک پہنچ گیا، اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر ناکامیابی کا ٹھیکرا پھوڑنا شروع کردیا ہے، اب اچانک وادی لہولہان نظر آنے لگی، یک بیک دہشتگردوں کی آمد اور کشمیریوں کی تحریکات وغیرہ کا دوچند ہونا معلوم ہونے لگا، سنگ باروں کی کثرت کا رونا رونے لگے، وطن مخالف نعروں پر بے بسی کا اظہاربھی ہونے لگا۔

جھوٹے وعدوں پر تھی اپنی زندگی

اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا

دراصل یہ سب سیاسی جماعتوں کی اٹکھیلیاں اور لا ابالی پن کے ساتھ ہندوستان کی تہذیب و تاریخ کا مزاق ہے، کب کسےسر کا تاج اور کسے پیروں کی گرد بنانا ہے وہ محض مفاد پر منحصر ہے، خود غرضی، خود پسندی بلکہ خود فریبی کے شکار یہ سیاست داں پورے ملک کو اپنی تماشا گاہ اور ہٹلر و مسولی کی آماجگاہ بنانا چاہتے ہیں ، وادیوں کی شادابی وہریالی کو بنجر و صحرا میں بدل کر یا مذہبی رنگ چڑھا کر؛ اس ملک کی جمہوریت و سیکولرزم کو اسی دشت میں دفن کرنے پر بضد ہیں ، کشمیری نوجوانوں کو آلہ کار کے طور پر استعمال کر تے ہوئے اور بالعموم تمام صنفوں کو اس آگ کی بھٹی میں جھونک کر جھلس دینے اور (بقول بعض :دنیا میں اگر جنت کا ورود ہوتا؛ تو وہ کشمیر کی گھاٹی ہوتی) اسے جہنم کدہ بنا کر فرعونیت کا شہرہ چاہتے ہیں ، ایماندار، امانت دار اور غیر جانبدار سیاست دانوں اور اخبار نویسوں کو موت کے گھاٹ اتار کر انسانیت کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں ، کسی ایک فردکے دہشت گرد ی کا سہارا لے کر کم از کم بیسوں افراد کو ان کی ملکیت، زمین، جائدا وغیرہ کو تہ وتیغ کردینابھی اسی سبق کا جز ہے۔

کسی زمانے میں جموں اور کشمیر کا نام بڑے فخر وافتخار کے ساتھ لیا جاتا تھا؛وہاں سیر وسیاحت اور بیرونی سیاحوں کا مجمع لگارہتا تھا، ہرکوئی اسے جنت کا ایک ٹکڑا سمجھ کر دنیا کی بھیڑ سے الگ ہوکر اور اس کی تگ ودو سے دور ہوکر ایک دوسری دنیا کا لطف اٹھانے اور اپنی طبیعت میں غیر معمولی اسپرٹ حاصل کرنے کیلئےزاد راہ باندھتا تھا، اسی لئے شاعریہ کہنے پر مجبور ہوگیا:

اگر فردوس بروئے زمین است

ہمیں است ہمیں است ہمیں است

آج عالم یہ ہے کہ اگر آپ نے اس سمت کی تمنا بھی کی اور کسی عزیز کو اس سلسلے میں خبر مل گئی؛ تو آپ اس کی نظر میں مشکوک یوجائیں گے، اور اگرآپ باریش ہیں ، کرتا اور شلوار زیب تن کرتے ہیں ؛ تو اپ کے ساتھ وہ سلوک ہوگا جس کا تصور کرنا بھی دشوار ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کی یہ غاصب جماعت کشمیر کی وادیوں کو کشمیریوں پر تنگ کردینا چاہتی ہے، ان کی طرف بڑھنے والےپرقدم پر کانٹے بچھاکر؛ انہیں پل صراط پر چلنے کیلئے مجبور کرنا چاہتی ہے، اقوام متحدہ کی قرارداد اور تنبیہات سے انکار کرنا، ترکی حکومت کی صلاح سے صرف نظر کرنا اس بات کا کھکا ہوا ثبوت ہے۔

آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو

اک تیرا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا

ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کے ہمدر و ہمنوا خواہ وہ کسی جماعت یا کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں ؛اپنے قدم آگے بڑھائیں ، گفت و شنید کی میز لگائی جائے، مناسب لائحہ عمل طے کیا جائے، آپسی تنازعات و انتشار رفع کرتے ہوئے محبت ومودت کےباد نسیم کی فکر ہو، ہر ایک کی جان، مال اور عزت کو حرام جانا جائے، دہشت گردی خواہ وہ کسی بھی بنیاد پر ہو اس پر لگام لگائی جائے، اگر ضرورت پڑے تو مسلم ممالک اور انسانوں کے غم خوار ممالک بھی حصہ لیں ، اور یک مشت ہوکر فتنہ پرور افراد کی بیخ کنی کریں ، سرحدی حدود کی حفاظت اور ناجائز اسلحہ کی خرید وفروخت یا ناجائز فائرنگ پر سختی کے ساتھ روک لگائی جائے، مخالفت پر سخت سزائیں دی جائیں ، ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں خام خیالی ہوں ، اور اس کی کوئی امید بھی نہ ہو؛ لیکن ’’ لا تقنطوا من رحمة الله‘‘ سے انکار بھی ناممکن ہے، اس عزیز اور قادر سے کچھ بعید نہیں ، اس کے حکم وارادہ اور درک سے کوئی مفر نہیں ، چنانچہ یہ ہوگا اور ضرور ہوگا، ہر پہر کی شام اور ہر شام کی سحر ہے ؛تو یہ بھی ہو کر ہی رہےگا۔

کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل

جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں

وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا

چاند کو گل کریں تو ہم جانیں ​ 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔