جو سچ ہے بس وہی بتلا رہا ہوں 

نہال جالب

جو سچ ہے بس وہی بتلا رہا ہوں

محبت کرکے میں پچھتا رہا ہوں

۔

وہ جن سے خون کا رشتہ تھا میرا

انہیں لوگوں سے دھوکا کھا رہا ہوں

۔

کسی کے ہجر میں یہ کون جانے!

کہ میں چھپ چھپ کے بھی روتا رہا ہوں

۔

جسے سمجھا محبت وہ دغا تھی

کہ میں دھوکے سے دھوکہ کھارہا ہوں

۔

بسا اوقات تجھ سے دور رہ کر

میں زندہ ہوکے بھی مردہ رہاہوں

۔

پہن کر میں یہ مکّاری کا چولہ

کبھی جھوٹوں میں بھی سچا رہا ہوں

۔

پڑا ہے واسطہ جالب یہ کس سے

خدا والوں سے میں کترا رہا ہوں

تبصرے بند ہیں۔