جو گلہ کریں تو بجا نہیں یہ نظام پروردگار ہے

اشہد بلال چمن ابن چمن

یہ جو دوستوں کی قطار ہے یہ مری صفت کا وقار ہے
وہ جو دشمنوں کا ہے تبصرہ وہ دلیل فصل بہار ہے

کوئی توڑ دے کوئی جوڑ دے کوئی بیچ راہ میں چھوڑ دے
یہی رابطوں کا ہے فلسفہ کہیں بے رخی کہیں پیار ہے

کئی لوگ ہیں مری چاہ میں میں بسا ہوں اس کی نگاہ میں
نہ مجھے کسی کل سکون ہے نہ اسے کسی پل قرار ہے

کبھی بن بنا کے بگڑ گیا کبھی جم جما کے اکھڑ گیا
کبھی بس بسا کے اجڑ گیا یہ عجیب دل کا دیار ہے

کوئی مل گیا کوئی کھو گیا جو لکھا ہوا تھا وہ ہو گیا
جو گلہ کریں تو بجا نہیں یہ نظام پروردگار ہے

ترا حسن ہے بڑا پرکشش اسے چاہیئے ہے بھلی روش
جو برا کرے تو برا بھرے تجھے اپنے پر اختیار ہے

کہیں موت ہوگئی پیاس سے کہیں زندگی ذرا آس سے
سبھی چارہ گر ہیں اداس سے کہ قحط گناہ کی مار ہے

وہی خیال ابن چمنؔ کا ہے جو تمام اہل سخن کا ہے
جو ادب کی شاخیں ہری رہیں تو یہ شاعری خوش گوار ہے

تبصرے بند ہیں۔