غزل- پیار کِیا تو سوچا تھا کیا ؟
خان حسنین عاقب
پیار کِیا تو سوچا تھا کیا ؟
یعنی کسی سے پوچھا تھا کیا؟
اِک آری تھی ، چلی جو دِل پر
آپ کا لہجہ ، لہجہ تھا کیا ؟
تیری یادیں ساتھ تھیں میرے
کل شب میں بھی تنہا تھا کیا ؟
تم ہی کہو دیوانو ، کل تک
اس بستی میں صحرا تھا کیا؟
ہم تو بیاباں میں تھے لیکن
شہر کا موسم اچھا تھا کیا ؟
یہاں کے پتھر لہو لہو ہیں
یہاں بھی مجنوں ٹہرا تھا کیا؟
تم کو بچھڑ نے کی جلدی تھی
عشق کا دھاگا کچا تھا کیا ؟
چاند سمھ کر عید منائی
آپ کا جانم چہرا تھا کیا ؟
جدھر سے مجھ پر تیر چلے ہیں
اُدھر کوئی پھر اپنا تھا کیا ؟
شعر جو عاقبؔ اب کہتا ہے
ایسے پہلے کہتا تھا کیا ؟
تبصرے بند ہیں۔