جہد مسلسل اور تعین منہج: اہمیت و ضرورت  

جمشید عالم عبدالسلام سلفی

جہد و تگ و دو اور عمل و کاوش شرف ومنزلت کے علمبردار اور ذلت و پستی کے قاتل ہیں۔ جہدِ مسلسل اور پیہم کوشش آگے بڑھنے، کچھ اور کرنے، جہالت کی تاریکیوں سے نکلنے اور جمود وتعطل کو دور کرنے کے مؤثر ذرائع ہیں۔ آدمی ہاتھ پاؤں باندھ کر بیٹھ جائے تو مختلف قسم کی مصیبتوں میں گہر جاتا ہے، اس کاجسم نوع بنوع برائیوں کی آماجگاہ اور ذہن مختلف واہموں کا شکار ہو جاتا ہے، وہ چھوٹے بڑے ہر طرح کے کاموں سے جی چرانے لگتا ہے اور پھر اس کے فکر و احساس میں ضلالت و گمراہی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ تنگ نظری و کج فہمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ پیہم کوشش آدمی کو بامِ عروج عطا کرتی ہے۔

ترقی اور فوز و فلاح کے لیے عملی تگ و دو ضروری ہے، بغیر محنت ومشقت کے کچھ حاصل کر لینا ناممکن ہے۔ ایک شیر خوار بچہ بھی بغیر محنت کے ماں سے دودھ نہیں حاصل کر سکتا ہے۔ عزلت نشینی اختیار کر کے کسی بھی طرح کی کامیابی حاصل کرلینا محال ہے۔ ہر طرح کی محنت سے کنارہ کش ہو کر کرامات کا انتظار و ترصد عبث و لغو ہے، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہنا توکل کےخلاف ہے۔ اپنی بساط بھر ہر ممکن کوشش اور مالکِ حقیقی کی جانب سے عائد کردہ امور کی انجام دہی کے بعد حصولِ مقصود اور ثمره و نتیجہ کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے۔ کسی بھی جائز چیز کے حصول کے لئے کوشش کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہو کر اللہ تعالیٰ پر اعتماد کر کے بیٹھ رہنا اور کوششوں کو ترک کرکے صرف مددِ الٰہی کا انتظار کرنا توکل کے خلاف ہے۔ کسی بھی چیز کے حصول کے لیے محنت و جستجو ضروری ہے، اسی لئے قرآن حکیم میں کہا گیا ہے:

 {وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ} [النجم:39]

 ترجمہ : اور یہ کہ ہرانسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔

 انسان جس قدر محنت کرتا ہے ویسا ہی ثمره و نتیجہ اس کے سامنے آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات کسی کی انتہائی محنت و کوشش کے باوجود اسے ناکامی نصیب ہوتی ہے۔ مگر اس طرح کی ناکامیوں سے دل برداشتہ اور غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی تمام تر کوشش جاری رکہنی چاہیے کیوں کہ آج نہیں تو کل ضرور کامیابی حاصل ہوگی۔ آدمی کو بلا محنت جب کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اسے وہ مسرت و شادمانی نہیں ملتی جو محنت کی کامیابی کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے جھوٹی تسلی اور سستی کامیابی سے دل و دماغ کو سکون و سیرابی نہیں حاصل ہوتی ہے بلکہ ایک طرح کی تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔ انسانی فطرت و طبیعت شدید محنت و مشقت کی متقاضی ہے اور کوشش و تگ و دو کو ترک کر کے اپنے آپ کو آرام و آسائش کا عادی بنا لینا فطری تقاضے کے خلاف ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :

{لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ} [البلد:4]

ترجمہ : یقیناً ہم نے انسان کو [بڑی] مشقت میں پیدا کیا ہے۔

 محنت و مشقت انسانی زندگی کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اس کو ترک كر دینا خود کو خسران و گھاٹے سے دوچار کرنا ہوگا۔ جس کی حقیقت پانی کا حقیر قطرہ اور محنت و مشقت سے پُر زندگی ہے، جب اسی انسان کو رب العالمين اپنے فضل وکرم سے نوازتا ہے تو وہ تمام تر اخلاقی و فطری حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ کر آسائشِ زندگی کےحصول میں منہمک اور حقیقی وصحیح شاہراہ سے کٹ کر سراب کی تلاش و جستجو میں لگ جاتا ہے۔ تہوڑی بہت جاہ و حشمت اور مال و دولت جو اسے حاصل رہتی ہے اسی کو معراج کمال سمجھتا ہے، فخر و غرور اور عز و ناز میں مبتلا ہو کر ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے، حقیقی زندگی کو بهلا بیٹھتا ہے، زمین پر اس کے پاؤں نہیں پڑتے، کمزور و ناتواں لوگوں کو حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ گویا وہ سیدھی راہ سے کٹ کر کج روی کاشکار ہو جاتا ہے اور متاعِ دنیا کی جستجو میں اپنی ساری توانائی صرف کر دیتا ہے جو اسے خسران اور حقیقی ناکامی کی طرف لے جاتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے وہ اپنی دنیوی زندگی میں پریشانی جہیلنے کے باوجود اخروی زندگی میں ناکامی و بدبختی کا شکار ہوگا۔

 دراصل محنت و مشقت دقت و پریشانی اور زحمت و کلفت کی مختلف شکلیں اور متعدد شاہراہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی راہ کو اپنانا اور اسی سلسلے میں مشقت و پریشانی کو برداشت کرنا دانائی کا کام ہے، اور یہی قانونِ فطرت ہے اور قانونِ الٰہی سے روگردانی کرنا اپنے آپ کو تباہی میں جہونکنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 {يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ} [الانشقاق:6]

 ترجمہ : اے انسان! تو اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اورتمام کام اور محنتیں کر کے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔

اور فرمایا :

{إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّىٰ} [الليل:4]

 ترجمہ : یقیناً تمہاری کوشش مختلف قسم کی ہے۔

محنت و مشقت کی ضرورت رضائے الٰہی کی حصول کے لئے اور جاہ و منصب کے لئے بھی ہوتی ہے، مالِ یتیم کو ہڑپنے اور اپنا حق لینے کے لئے بھی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے، غرض کہ ہر چھوٹی بڑی چیز کے حصول کے لئے محنت و کوشش کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تمام طرح کی کوششوں کی راہیں جداگانہ اور نتائج مختلف ہیں۔ دنیا کے لئے کوشش ہوگی تو اس کا نتیجہ اسی کے مطابق سامنے آئے گا، آخرت کے لئے کوشش ہوگی تو اسی کے مطابق نتیجہ سامنے آئے گا۔ یعنی مکافاتِ عمل کےطور پر دنیا و آخرت ہر دو جگہ اپنے کیے کے مطابق جزا ملے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے:

 {وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ۞ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ} [النجم : 40-41]

 ترجمہ : اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکہی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

 آدمی کے سامنے جب کوئی منزل ہوتی ہے، اس کا کوئی ہدف و مقصد ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے اپنا منہج متعین کرتا ہے تو وہ تمام طرح کی دقت و پریشانی اور راستے کی رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور پھر کامیابی قدم بوس ہوتی ہے۔

 کسی بھی کام کے لیے محنت و کوشش کرنے سے پہلے ہمارے سامنے اس کے مقصد اور منہج و طریقہ کار کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر ایک قدم بھی آگے بڑھانا حماقت و بیوقوفی ہوگی۔ آدمی بھوک و پیاس کی شدت سے بلک رہا ہو اور صرف روٹی و پانی کی رٹ لگانے میں اپنی ساری توانائی صرف کرے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا اس کی بهوک و پیاس دور ہو جائے گی؟ نہیں! بلکہ اس کی تھکاوٹ اور بهوک و پیاس کی شدت میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ اس لیے ہمیں اپنی کوشش اور محنت و لگن کو صحیح راہ پر درست منہج کے مطابق لگانے کی ضرورت ہے۔

 آج ہم مسلمانوں نے محنت و مشقت سے منہ پھیر کر سستی و کاہلی اور سہل و آرام پسندی کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے، کرامات کا انتظار کر رہے ہیں اور عملیات و توہماتِ شیطانی کے دامِ فریب میں پہنس کر خود کچھ کرنے کے بجائے مددِ الٰہی کے خواہاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم حقوق و واجباتِ الٰہی کو پورا ہی نہیں کر رہے ہیں تو پھر اللہ کیوں کر ہماری مدد کرے گا؟ صرف مدد کی رٹ لگانے سے کام نہیں چل سکتا، وسائل کو بھی بروئے کار لانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور فوز و فلاح کے لیے محنت کو ضروری قرار دیا ہے۔ اور ہم ہیں کہ محنت و مشقت کو اپنی زندگی کی ڈکشنری سے خارج کر کے عیش و عشرت میں الجهے پڑے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ رب العالمين کی طرف سے جب ہمیں کوئی معمولی نعمت حاصل ہو جاتی ہے تو ہم شکرِ الٰہی بجا لانے کے بجائے فخر و غرور کے نشہ میں اتراتے پہرتے ہیں۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ نعمتِ الٰہی پر ہم اللہ کا شکر بجالائیں، اللہ تعالیٰ کی تحمید و ثنا بیان کریں اور اس کی وحدانیت و قدرت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی عظمت و کارسازی کو سراہیں۔ لیکن یہ سب کرنے کے بجائے ہم تمرد و سرکشی پر اتر آئے، ہمارے اندر الحاد و بد دینی سرایت کر گئی اور خود کو ہی سب کچھ سمجھ لیا۔ یہ نہیں دیکھا کہ گذشتہ امتیوں نے بھی سرکشی کی تهی، اپنی خود ساختہ مزعومات و توہمات کو علم کی انتہا سمجھ لیا تھا اور عناد و سرکشی پر اتر آئے تو عذابِ الٰہی نے انہیں آدبوچا اور ان کی علم و ترقی نے انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچایا۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

{فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ} [ المومن:83 ]

ترجمہ : پس جب کبھی ان کے پاس ان کے رسول کهلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر اترانے لگے بالآخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وہی ان پر الٹ پڑی۔

 جیسی کوشش ویسا نتیجہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں محنت و کوشش کرنی چاہیے۔ ہماری تگ و دو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی و خوشنودی کے لیے ہونی چاہیے۔ دشمنانِ اسلام دینِ حق کے خلاف جو ریشہ دوانیاں کر رہے ہیں ان کا منہ توڑ جواب دینا اپنا واجبی فریضہ سمجھتے ہوئے دینِ اسلام کی خاطر ہر طرح کی تکلیف و مشقت کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہم نے اس جانب خصوصی توجہ نہیں دی تو کوئی بعید نہیں کہ ہم پر قہرِ الٰہی نازل ہوجائے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

{وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [ البقرة: 195]

 ترجمہ : اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔

 آیتِ کریمہ سے بعض لوگوں نے ترکِ انفاق اور بعض نے ترکِ جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کیے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری صورتیں ہلاکت کی ہیں۔ جہاد چهوڑ دو گے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کروگے تو یقیناً دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور، نتیجہ تباہی ہے۔ (تفسیر احسن البيان ص:120)

 جب دعوت حق ہو اور اس کے ساتھ سچی لگن شامل ہوجائے تو ناکامی ناممکن ہے۔ اسلامی دعوت کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، صرف سچی لگن اور حقیقی محنت کی ضرورت ہے۔ دشمنانِ اسلام کا منہ توڑ جواب دینے سے پہلے اپنی اصلاح کی ضرورت ہے، خود سے جہاد کرنا ضروری ہے کیوں کہ اپنی اصلاح کے بغیر دوسرے کی اصلاح محال ہے۔ اپنی دعوت کو مؤثر و نتیجہ خیز بنانے کے لئے قول و فعل میں یگانگت لازمی شرط ہے۔

 جو بهی کام کیا جائے اور جس طرح کی بهی کوشش کی جائے پوری دلجمعی لگن اور دلچسپی کے ساتھ رضائے الٰہی کی خاطر کی جائے، اسی میں کامیابی ہے۔ بیجا طور پر اِدھر اُدھر کی مصائب و آلام میں الجهنا نہیں چاہیے اور اپنے آپ کو غلط روی سے محفوظ رکھنا چاہیے، محنت و مشقت سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کر جایے ہر جگہ اور ہر میدان میں آپ، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو ثابت قدم پائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محنت و مشقت سے منہ نہیں پهیرا بلکہ صبر سے کام لیتے ہوئے اسلام کی دعوت و تبلیغ میں لگے رہے۔ غزوہ خندق کی مثال لے لیجیے کہ کس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بهوک و پیاس کی شدت کے عالم میں کلفت و مشقت برداشت کرتے ہوئے صبر و استقامت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ اس سے ہمیں عبرت و نصیحت پکڑتے ہوئے خود کو محنت و مشقت کا خوگر بنانا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی کامیابی کے لیے جہاں محنت شرط ہے وہیں صحیح راہ کا تعین بهی ضروری ہے اس کے بغیر کوئی بھی کوشش و محنت بار آور نہیں ہوسکتی ہے۔

کوشش کے پروں سے پرواز ترقی ہے

اڑتے ہیں فضاؤں میں ہر آن لگن والے

تبصرے بند ہیں۔