جہیز ایک سماجی لعنت ہے!

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

   شادی کے موقعہ پر لڑکی والوں کی طرف سےلڑکےکویااس کے گھروالوں کو نقداورسامان کی شکل میں جوکچھ دیاجاتاہے، اس کو جہیز کہاجاتاہے۔ یہ دراصل ہندوانہ رسم ہے، جو مسلم معاشرہ میں تحفہ کے نام سےدرآئی ہے، کیوں کہ اپنی اولاد کو اوردیگررشتہ داروں کو خوشی کے موقعہ پر ہدایا وتحائف دینازمانہ قدیم سے چلاآرہاہے۔ مگرزمانہ کی رفتارکےساتھ اس میں وہ اسباب وعوامل شامل ہوتے گئے، جس سے ایک پسندیدہ عمل  شرعی نقطہ نظرسے ناپسندیدہ بن کررہ گیا۔ یقیناتحفہ کالین دین، آپس میں  پیارومحبت، ہمدردی وغمگساری کے جذبہ کے تحت ہوتاہے، مگریہی تحفہ جب شرعی حدود کوپھلانگ کرآگےبڑھ جاتاہے، تومحبت کے بجائےنفرت کے بیج بونے لگتاہے، اتحاد کے بجائےاختلاف، باہمی تعاون کے بجائےلڑائی وجھگڑےاورفتنہ وفسادکاسبب بن جاتاہے، بلکہ بعض دفعہ نکاح جو ایک  اہم عبادت ہے، جس کو نبی کریم ﷺنے اپنی تہذیب  میں شامل فرمایاہے، وہ ٹوٹتاہوا نظرآتاہے۔ طلاق جو اللہ کے نزدیک حلال چیزوں سے میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے، اس کی نوبت تک آجاتی ہے۔ جہیز تحفہ کے نام سےہمارے سماج کاایک لازمی حصہ بن گیاہے، جو دھیرےدھیرےایک ناسوربن چکاہے، اورطاعون کی طرح پورے معاشرہ کولپیٹ میں لے لیاہے، یہی نہیں ، بلکہ اس کی وجہ سےاَن گنت کنواری لڑکیاں بِن بہائی بیٹھ کراپنی زندگی کے ایام گن رہی ہیں ، کتنی ایسی  دوشیزائیں ہیں جن کے ہاتھ رنگین ہونے سے محروم رہ گئےہیں ، جی ہاں !یہ جہیزجیسی  رسم کی بدولت ہے۔

اسی جہیز کانتیجہ ہے کہ جب بیٹی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اسی وقت سے ماں باپ کاچین وسکون چھِن جاتاہے، نیندیں اڑجاتی ہیں ، ہروقت اورہرلمحہ انھیں اپنی بیٹی کی شادی کرانے کی فکردامن گیررہتی ہے، وہ یہی سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں میری بیٹی کاکوئی رشتہ آئے گایانہیں ؟اگررشتہ آتاہے تو پتہ نہیں جہیز کی کتنی ڈمانڈ ہوگی؟ اورکیاہم ان کی ڈمانڈ کوپوراکرسکیں گے، اگرنہیں تو رشتہ کینسل بھی ہوسکتاہے، اوراگررشتہ ہوبھی گیاتوداماداوران کے گھروالوں کے لعن وطعن، اورسب وشتم سے میری بیٹی نہیں بچ سکتی ہے، ممکن ہےکہ محض اس بناء پر میری نورنظرکو طلاق دیدی جائے، اوراس کے ساتھ وہ رویہ اپنایاجائے کہ وہ از خودخلع لینے پر مجبورہوجائے، یااپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے، یہ ایسی فکر ہے جو ماں باپ کو چین سے سونے نہیں دیتی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہیز نہ ملنے یاکم ملنے کی وجہ  سے ہزاروں دلہنیں موت کے آغوش میں جاچکی ہیں اورکتنی ہی ایسی عورتیں ہیں  جوسسرال کے ظلم وستم کے مقابلہ میں خودکشی کرنے کوترجیح دینے پر مجبورہیں ۔ جہیزکی ڈمانڈپورانہ ہونے کی وجہ سےعورتوں کے ساتھ لعن طعن کرنے، گالم گلوچ اورماردھاڑکرنےنیز عورتوں کو قتل کرنے اورجلاڈالنے کے واقعات روزانہ ہمارے  اخبار کی زینت بنتے ہیں ۔ ایسی عورتوں کاخلع لینے پرمجبورہونا توروزانہ کامشاہدہ ہے۔

دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ٢٠١٢ء سے ٢٠١٥ء تک انڈیامیں ٢٤۷۷١/اموات محض جہیز نہ ملنےیاکم ملنے کی وجہ سے ہوئی ہیں ، نیشنل کرائم بیروکے مطابق ساڑھے تین لاکھ مقدمات کورٹوں میں درج ہوئے ہیں ، جن میں عورتوں نے جہیز کی وجہ سے ہراسانی اورظلم وستم کئے جانے کی شکایتیں کی ہیں ۔ مسزمنیکاگاندھی وزیربرائے فلاح وبہود خواتین واطفال نے لوک سبھامیں اس کو حقیقت کو قبول کیاتھاکہ پچیس ہزارخواتین جہیز کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتاری جاچکی ہیں ۔ افسوس کامقام یہ ہے کہ یہ تعدادگھٹنے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ  جہیز کی اس قبیح رسم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے پیٹ میں موجود معصوم کلی کوضائع کرنااوردنیامیں آنے سے قبل ہی اس کو نیند کے آغوش میں سلادئے جانے کاسنگین جرم کرناشروع کردیاہے۔ نتیجۃ لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی  شرح پیدائش کم ہوگئی ہے۔

حالاں کہ خدائی اورملکی قانون دونوں کے اعتبار سے جہیز کامطالبہ کرناخواہ اشارہ سےہویاکنائی الفاظ سے ہواِللیگل  ناجائز اورحرام ہے۔ جہیز کے خوفناک اثرات سے بچنےکے لیے سب سے پہلے١٩٥٠ء میں صوبہ بہارمیں جہیز کے خلاف قانون بنایاگیا، پھرآٹھ سال کے بعد١٩٥۸میں آندھراپریش نے قانون بنایا، پھر  دیگرصوبوں نے پیش قدمی کی اورجہیز کے مطالبہ کے خلاف سخت سے سخت قوانین وضع کئےگئے، پارلیمنٹ میں ١٩۶١ء میں جہیزمخالف قانون بنایاگیا، اس قانون کی روسےجہیز غیرقانونی اورلائق سزاجرم قراردیاگیا، اس قانون میں ترمیم ہوتی رہی، آخری ترمیم کے مطابق شادی کے موقعہ پردولہایااس کے گھروالے کسی بھی طرح سے اشارۃ کنایۃ یاصراحتہ لڑکی یااس کے گھروالوں سے جہیز کی ڈمانڈ نہیں کرسکتے ہیں ، اگر کسی نے کیاہے تو اسےسات سال یاعمرقید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ تحفہ اورجہیز میں یہ فرق ہے کہ تحفہ کامطالبہ نہیں کیاجاتاہےاورنہ اس کی امید رہتی ہے، نیز کسی بھی تحفہ کاتعلق رسم ورواج سے نہیں ہوتاہے اورنہ ہی تحفہ سماجی دباؤمیں آکردیاجاتاہے، اس کے برخلاف جہیز کامطالبہ ہوتاہے، یااس کی امید ہوتی ہے، یارسم ورواج کے مطابق سماجی دباؤکے تحت دیاجاتاہے۔

حالاں کہ شریعت اسلامی نے بھی آج سے چودہ سوسال پہلے جہیز کے مطالبہ کوناجائز اورحرام قرارددیاہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:جو شخص عزت کے لیے شادی کرتاہے اسے ذلت کے سواکچھ نہیں ملتی، اورجوشخص مال کے لالچ میں شادی کرتاہے تو اسے غربت کے سواکچھ نہیں ملتا، (المعجم الاوسط للطبرانی:٢٣٤٢) ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایاکہ کسی دوسرے کامال اس کی رضامندی کے بغیرکھانایااستعمال کرناجائز نہیں ، حرام ہے۔ (سنن الکبریٰ للبيھقي:١۶۷۵۶)

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاجو ہندوستانی علماء کرام کی متفقہ علمی اکیڈمی ہے اورجو نئے مسائل پر کافی غوروخوض اوربحث ومباحثہ کے بعد مسائل طے کرتی ہے، اس اکیڈمی نے اپنے تیرہویں  سمینارمنعقدہ ١٣-١۶/اپریل ٢٠٠١ء بمقام کٹولی، ملیح آباد میں جہیز کےخلاف  درج ذیل تجویز پاس کی جس کامتن حسب ذیل ہے:

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکایہ اجلاس  اس صورت حال پر اپنی سخت تشویش کااظہارکرتاہے کہ آج ہماری زندگی میں لڑکوں کی خرید وفروخت کامزاج بن گیاہے، اورانھیں مال تجارت بنالیاگیاہے، کبھی لڑکوں کی طرف سے اورکبھی ان کے والدین اوراقرباء کی طرف سے اورکبھی خود لڑکی والوں کی طرف سے نہ صرف یہ کہ قیمت لگائی جاتی ہے، بلکہ بھاؤتاؤ کیاجاتاہے، اورکون زیادہ سے زیادہ دے گااس کی تلاش کی جاتی ہے، شرعانکاح میں لڑکی والوں سے کچھ لیناوہ چاہے تلک کے نام پر ہویاگھوڑے یاجوڑے کے نام پر ہو، یامروجہ قیمتی جہیز کے نام پر ہو، جائز نہیں ، شریعت کے حکم ربانیوَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم (سورۃ النساء:٢٤)کے ذریعہ مردوں پر نکاح میں مال خرچ کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے، آج ہم نے اس حقیقت کو بدل ڈالاہے، اورعورتوں کو نکاح کے لئےمال خرچ کرناپڑتاہے، کبھی صریح مطالبہ ہوتاہے، اورکبھی عادت وعرف ورواج کے تحت یہ ہوتاہے، یہ ساری صورت حال چاہے اس طرح کامال کالیناہویاپیشکش کرناہو، شرعاجائز اوردرست نہیں ہے۔

اکیڈمی کایہ اجلاس تمام مسلمانان ہند کو اس طرف متوجہ کرتاہے کہ وہ مسلم معاشرہ کو ان خطوط پر متوجہ کریں ، جو محمد رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے تجویز کی ہیں ، اورشادیوں کوہرطرح سے سادہ رکھیں ، ارشادنبوی ﷺہے: «أَعْظَمُ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهَا مَئُونَةً» (سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو)(ابوداؤد طیالسی:١٥٣٠) کے مطابق بغیرجبرودباؤاورفرمائش  ومطالبہ کے نیز اسراف وتبذیر کے، سنت کے مطابق شادی انجام دیں ۔ فقط

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔