حالات میں دب جاتے ہیں جوہر نہیں کھلتے
مقصود اعظم فاضلی
حالات میں دب جاتے ہیں جوہر نہیں کھلتے
ہم جیسے غریبوں کے مقدر نہیں کھلتے
…
رہتے ہیں سدا سایہ فگن سر پہ ہمارے
بادل یہ غموں کے ہیں برس کر نہیں کھلتے
…
کچھ لوگ ہوا کرتے ہیں اس درجہ پُر اسرار
برسوں کی رفاقت پہ بھی اکثر نہیں کھلتے
…
لفظوں کی عمارت تو کھڑی ہوتی ہے لیکن
الفاظ و معانی کے نئے در نہیں کھلتے
…
ملنا بھی یہ ان کا کوئی ملنا ہے کہ اعظم
کھل کر نہیں ملتے کبھی مل کر نہیں کھلتے
لفظوں کی عمارت تو کھڑی ہوتی ہے لیکن
ادراک و معانی کے نئے در نہیں کھلتے