موت آئی، جہاں سے نکالے گئے

مقصود اعظم فاضلی

موت آئی، جہاں سے نکالے گئے
ہاتھ خالی گئے، ساتھ کیا لے گئے

..

جن گلوں سے تھی قائم بہارِ چمن
کر کے رسوا چمن سے نکالے گئے

..

نظمِ میخانہ ہرگز نہ سونپیں انھیں
جام و مینا نہ جن سے سنبھالے گئے

..

ہوگیا چور آئینہء دل مرا
طنز کے جب بھی پتھر اچھالے گئے

..

تم گئے کیا ، قرارِ دل و جاں گیا
ساتھ سورج کے دن کے اجالے گئے

..

کون اعظم کرے قدر ایثار کی
پیار کے نام پر مرنے والے گئے

تبصرے بند ہیں۔