حال اُن کو سنا کے آئے ہیں

کاشف لاشاری

حال اُن کو سنا کے آئے ہیں
اپنی ہستی گنوا کے آئے ہیں
دیکھ کر ہم کو، منہ بناتے تھے جو
اُن سے آنکھیں چرا کے آئے ہیں
جان لیوا ہے ہجر کا آسیب
ہم بھی کب جاں بچا کے آئے ہیں؟
مان رکھا ہے یوں منافق کا
شرم سے سر جھکا کے آئے ہیں
کچھ نہ پوچھو ملال کی باتیں
ہاتھ اُن سے چھڑا کے آئے ہیں
سرد لہجہ تپش سے پُر تھا تِرا
اپنا دامن بچا کے آئے ہیں!
جان مانگی تھی یار نے، کاشف!
اپنی سانسیں لُٹا کے آئے ہیں

تبصرے بند ہیں۔