حج: جذبۂ اطاعت ومحبت سے لبریز عظیم عبادت

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

  دنیا میں انسان کے آنے کا مقصد اس کے خالق و پروردگار کی عبادت و بندگی ہے، اس کی اطاعت و فرماں برداری ہے، اس کے حکموں کی تعمیل اور اس کی مرضی کی تکمیل کرنا ہے، اپنی خواہشات کو قربان کر کے صرف اسی کے منشا کو پورا کرنا ہے۔ اسلام میں جتنی عبادات ہیں ان تما م میں اس پہلوکو خوب اجاگرکیا گیا، کوئی عبادت ایسی نہیں جس میں اطاعت الہی کے جذبات کو پروان نہ چڑھایا گیا ہو،ہر ایک میں انسانوں کو اس کا خوگر بنایاکہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت و فرماں برداری مین سرگرداں رہے اور ہر عمل میں اس کی رضا کو تلاش کرتا رہے۔ اسلام کی عمارت جن پانچ ستونوں پر قائم ہے ان میں ایک حج بھی ہے جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ جس طرح ہر عبادت کی اپنی ایک انفرادی شان اور جداگانہ حیثیت ہے اسی طرح حج کا بھی ایک نمایاں مقام اسلامی عبادات میں ہے۔

نماز روزہ میں انسان کو بدنی صلاحیت کو لگانا پڑتا ہے اور جسم وجان کو حاضرکر نا ہوتا ہے تو زکوۃ و صدقات میں مال ودولت کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے اور حج کایہ امتیاز ہے اس میں مال و دولت کا استعمال بھی ہے اور جسم کی صلاحیتوں کا دخل بھی ہے۔ اور قدم قدم پر ایسی بے مثال فدارکاری و فنائیت کا مظاہر ہ کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اپنے خالق کو منانے اور رب کی محبت کے حصول میں ایک حاجی کس قدر سرگرداں و بیتاب دوڑا دوڑا پھر رہا ہوتا ہے۔اپنے گھر سے بیت اللہ تک پہنچنے میں، لباس و پوشاک میں، ذکر و دعا میں، تسبیح و تہلیل میں اور نقل و حرکت میں دیوانہ وار اطاعت کا ثبوت دیتا ہے۔ حج کی دیگر بے شمار خوبیوں اور ان گنت خصوصیتوں میں ایک اطاعت و فنائیت کا مظاہر ہ ہے جو ہر بیت اللہ کو جانے والا اپنے عمل سے پیش کرتا ہے۔

 حج کے تمام ارکان واعمال میں جن اداؤں کی نقالی کروائی جاتی ہے وہ در اصل اللہ تعالی کے محبوب بندوں کی ادائیں ہیں جنہوں نے خدا کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا تھا اور اس کی اطاعت وفرماں برداری میں پوری زندگی کو قربان کیا تھا وہ سیدنا ابراہیم ؑ کا بابرکت خاندان ہے۔حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ آپ کی وفا شعار بیوی حضرت ہاجرہ ؑاور فرماں بردار بیٹے حضرت اسماعیل ؑ نے ہر قدم پر اطاعت الہی کا ایسا نمونہ پیش کیا اور اللہ تعالی کی مرضی کے آگے اس طرح تیار رہے کہ اللہ تعالی نے ان وفا شعاروں کی اطاعت و فنائیت والی اداؤں کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھنے کا فیصلہ فرمایا اور حج جیسی عظیم عبادت میں اسی محترم مقام پر دنیا بھر کے مسلمانوں سے عہد ِمحبت ومودت کو تازہ کروانے اور اطاعت و فرماں برداری کا وعدہ لینے کے لئے ان ہی نقش قدم کی پیروی کو ضروری قرار دیا۔جب اللہ تعالی کو اپنے بندوں کی اطاعت و فرماں برداری پسند آتی ہے تو پھر اسی طرح انسانوں کے لئے یاد گار بنادیتے ہیں اور اپنی محبت بھی ان ہی کاموں کے انجام دینے میں پوشیدہ رکھتے ہیں۔

حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے خاندان نے سینکڑوں سال قبل محبت الہی میں کچھ کام کئے تھے آج زمانہ بہت گزر چکا ہے لیکن ان کے ان کاموں نے اور اداؤں نے بارگاہ ِ خدا میں وہ قبولیت حاصل کی کہ آج بھی ان کی یادیں تازہ،ان کے ایمان افروز ادائیں تابندہ اور ان کی محبت انگیز بے تابیاں زندہ ہیں۔ جب حضرت ابراہیم ؑصحرا وبیابان میں بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوچکے اور دنیا کے بتکدے میں خانہ خدا تیار کرچکے، لیکن دور دور تک انسانوں کی آمد و رفت اور اس کو آباد رکھنے کا امکان بظاہر نہیں دکھائی دے رہا تھا، تو سیدنا ابرہیم خلیل اللہ ؑ نے عرض کیا کہ :اے اللہ! اس ویرانے میں کون تیرے گھر آکر عبادت کرے گا۔ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ :وأذن فی الناس بالحج یأتوک رجالاوعلی ضامریأتین من کل فج عمیق  لیشھدوامنافع لھم ویذکر وااسم فی ایامعلومات علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام۔(الحج:27۔28)اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو،کہ وہ تمہارے پاس پید ل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اوٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو( لمبے سفر سے ) دبلی ہوگئی ہوں، تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لئے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا کئے ہیں۔

جب حضرت ابرہیم ؑ کو صدا لگانے کا حکم دیا تو آپ نے کہا کہ اے اللہ ! اس جنگل میں کون میری آواز کو سننے والا ہے ؟اور میری آواز انسانوں تک کیسے پہنچے گی ؟اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم آواز لگاؤ اس کو ہم پہنچائیں گے، چناں چہ آواز لگائی گئی ساری مخلوق نے جواب دیا، اور ماؤں کے رحم اور باپوں کے صلب میں رہنے والے جن لوگوں نے بھی اس صدا پر لبیک کہا، وہ حج کے لئے بلائے جاتے ہیں اور آنکھوں سے نعمتوں، رحمتوں، الطاف و عنایتوں کے امنڈتے دریاؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر:42/10قاہرہ) اطاعت و فنائیت کی اس عظیم عبادت کے سفر کی یہ تاریخ ہے۔ اب جو لوگ بلائے جاتے ہیں اور جن کی قسمت میں بیت اللہ کا دیدار لکھا ہوتا ہے اور وہاں جاکر عبادت انجام دینا مقدر ہوتا ہے ان کو طریقہ بھی ان ہی پیاروں کا اختیار کرنا ہوگا جنہوں نے تعمیر بیت اللہ میں اور پھر اس کو آباد کرنے میں اپنا سب کچھ قربا ن کردیا۔ محبت اور اطاعت کے جذبات کو پروان چڑھانے والی اس عبادت کو دیکھیں کہ شروع ہی میں کہہ دیا کہ اپنے شاہانہ لباس اور اور ٹھاٹ باٹ کو اور رنگ برنگ کے کپڑوں کو اتار دو اور دو چادروں میں ملبوس ہوجاؤ،اپنی زبانوں پر اللہ تعالی کی کبرائی اور بڑائی کا ورد رکھو اور اس کے حضور حاضر ہونے کا غلامانہ اعتراف کرو۔ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ حاجی کون ہے ؟آپ نے فرمایا کہ جو پراگندہ بال اور پراگندہ حال ہو!ایک سائل نے مزید دریافت کیا کہ کون سا حج افضل ہے ؟آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس میں کثرت سے تلبیہ پڑھا گیا ہو اور قربانی دی گئی ہو۔من الحاج یا رسول اللہ ﷺ؟قال الشعث والتفل فقام اٰخر فقال یارسول اللہ ای الحج افضل ؟قال العج و الثج۔(ترمذی،رقم الحدیث:2943)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلو یؒ فرماتے ہیں کہ: احرام کے ذریعہ نفس کو اللہ تعالی کے سامنے خاکساری اور فروتنی کرنے والا بنایا جاتا ہے۔جب احرام  باندھ لیتا ہے۔وطن کی آسائشوں کو تج کر چلتا ہے۔اپنی مالوف اور پیا ری عادتوں کو چھوڑدیتا ہے۔اور زیب و زینت کی تمام شکلوں کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔اور فقیروں و محتاجوں کی صورت بنالیتا ہے تو اس سے خوب بندگی اور فروتنی ظاہر ہوتی ہے۔(رحمۃ اللہ الواسعۃ مع حجۃ اللہ البالغۃ:189/4)حج کے اندر انجام دینے والے تمام اعمال جس قدر فنائیت کو ظاہر کرتے ہیں اور انسان کی کیسی دیوانگی اور محبت الہی میں وافتگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ حاجی کبھی بیت اللہ کا طواف اور اس کے گرد چکر لگاتا ہے، توکبھی صفا و مروہ کے درمیان سعی کا آغاز کرتا نظر آتا ہے۔ منی میں قیام کرتا ہے تو عرفات میں قیامت خیز مجمع میں زار و قطار اپنے پرودگار کو منانے میں منہمک دکھائی دیتا ہے۔ تو کبھی جمرات کے میدان میں کنکریاں مارتے ہوئے صرف اللہ ہی کی اطاعت و فرماں برداری کا اعلان کرتا ہے اور اطاعت ِالہی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے کے خلاف اپنے غیض و غضب کا اظہار کرتا ہے، اور حلق کرواکر، سر منڈواکر اپنی فدائیت کو پیش کرتا ہے۔ ان ایام میں اللہ تعالی نے حاجی کو جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ان سے مکمل احتراز بھی کیا جاتا ہے، نہ سر کے بالوں کو سنوارنے کی فکر ہو تی ہے اور نہ ہی خوشبوسے معطر ہونے کا خیا ل،نہ آرائش و زیبائش کا موقع ملتا ہے اور نہ ہی سج دھج کے رہنے کا وقت، بس ہر گھڑی یاد ِالہی، ہر لمحہ اطاعت ِالہی میں بسر ہوتا ہے، اور اپنی ہر ہر اداسے اپنی دیوانگی اور اپنی بے چارگی اور فنائیت کو ظاہر کرتے ہوئے کبھی اِدھر اور کبھی اْدھر سرگرداں رہتا ہے، تاکہ کوئی موقع بھی معافی اور بخشش کا ہاتھ سے جانے نہ پائے۔

حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں کہ: حج اپنے تمام ارکان و اعمال اور مناسک وعبادات کے ساتھ اطاعت ِمحض، مجرد امتثالِ امر،بے چوں چراحکم  بجا لانے اور ہر مطالبہ کے آگے سر جھکادینے کا نام ہے۔حاجی کبھی مکہ میں نظر آتا ہے، کبھی منی میں، کبھی عرفات میں، کبھی مزدلفہ میں، کبھی ٹھرتا ہے کبھی سفر کرتاہے،کبھی خیمہ گاڑتا ہے، کبھی اکھاڑتا ہے،وہ حکم کا بندہ چشم و آبرو کا پابند ہے، اس کا نہ کو ئی ارادہ ہوتا ہے، نہ فیصلہ، نہ انتخا ب کی آزادی۔(ارکان ِ اربعہ:310)جب حاجی اپنی ذات سے اپنی محبت و اطاعت اور فنائیت پیش کرتا ہے اور اس میں کسی قسم کی کمی اور کوتاہی ہونے نہیں دیتا ہے تو پھر اللہ تعالی بھی اسے اپنے انعامات سے نوازتے ہیں، سب سے بڑی خوشی اور سعادت کی بات کہ حا جی حج سے واپس ہوتا ہے تو اس کی زندگی گناہوں کی آلودگیوں، اور معاصی کی گندگیوں سے بالکل پاک و صاف ہوجاتی ہے،نبی ﷺ نے فرمایا کہ : جو شخص اللہ کی رضاء کے لئے حج کرتا ہو،اس میں فحش اور برائی کی بات نہ کرتا ہو،اور کسی قسم کی معصیت اور گناہ میں مبتلانہ ہوتو وہ حج کے بعد اپنے گھر گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر واپس لوٹے گاجس طرح کے پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک دنیا میں آیا تھا۔من حج للہ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ(بخاری:رقم الحدیث1698)اور یہ بھی فرمایا کہ حج ِ مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے۔والحج المبرور لیس لہ جزاء الاالجنۃ(بخاری :رقم الحدیث:1657) آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ حاجی اور عمرہ کرنے والا یہ اللہ کے وفد ہیں، جب یہ دعا کرتے ہیں تو دعا قبول کی جاتی ہے اور جب یہ سوال کرتے ہیں تو ان کو عطا کیا جاتا ہے۔ ( ابن ماجہ:رقم الحدیث2888)اجر و ثواب کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ حاجی کا اونٹ کے ہر قدم اٹھانے اور ہاتھ ( اگلے پاؤں )رکھنے پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے، ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے،اور ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے۔ (شعب الأیمان للبیہقی :رقم الحدیث3814)

الغرض حج اپنی بے شمار خصوصیات کے ساتھ اطاعت و فرماں برداری اور فنائیت کا ایک عظیم سبق دینے والی عبادت بھی ہے اور بلکہ حج کے اندر سب سے زیادہ اسی چیزکو اہم قرار دیا کہ وہ حکم کا پابند اور مرضی ٔ رب کا خواہش مند رہے، اس کے اندرون میں اللہ کو منانے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی بے چینی پائی جائے، وہ اپنے عمل سے اور طور طریق سے علانیہ اس کا ثبوت دے کہ وہ محبت الہی سے سرشار ہے اور اسی محبت کے زیرسایہ پروان چڑھنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی مرضی اپنی خواہش ہر ایک کو مٹا دے اور فکر ونظر میں قلب وجگر میں صرف اللہ کی توجہ ودھیان رہے۔ جب ایک مومن ان صفا ت سے مزین ہوکر اور اسی کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ سرزمین مکہ پر قدم رکھتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ کوضائع ہونے نہیں دیتا، اسے لایعنی کاموں اور بے کار کی مشغولیتوں کے لئے وقت ہی نہیں رہتا، وہ ہر عمل کو خوب سے خوب بناکر کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور اپنے حج کو مقبول ومبرور بنانے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے۔

اسی لئے حج کے مبارک سفر پر جانے والے خوش نصیب افراد کو یہیں سے اپنے ذہن و دل کو اطاعت و فنائیت کی طرف مائل کردینا چاہیے۔اور مکمل فرماں برداری کے ارادوں کو پختہ کرلینا ضروری ہے۔تاکہ خالی ہاتھ جاکر دامن ِمرادکو بھر کر لاسکیں۔ مطیع وفرماں بردار بن کر آسکیں، کیوں کہ یہ دنیا کے سفروں کی طرح ایک عام سفر نہیں ہے کہ جس میں صرف ظاہری اسباب و سامان پر خوب نظر ہو بلکہ دل اور کیفیات قلب میں ایمانی بے قراری پائی جائے اور اعمال و افعال میں اطاعت کا شوق و جذبہ  موجزن ہوتو حج زندگی میں انقلاب کا ذریعہ بنے گا اور ظاہر و باطن کی تبدیلی کا سبب ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔