حسد کرنے والے کا انجام

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

 بکر بن عبد اللہ کہتے ہیں ایک نیک شخص کسی بادشاہ کا مقرب اور وفادار تھا،وہ بادشاہ کے جوتوں کا انتظام کرتا تھا،اور بادشاہ بھی اس کی نیکوکاری اور پرہیز گاری کی وجہ سے اس سے محبت کرتا تھا، وہ جب بھی بادشاہ کی محفل میں آتا تو اسے عموما یہ ضرب المثل بیان کرکے نصیحت کرتا’’اپنے محسن کے ساتھ اس کے احسان کی وجہ سے اچھا سلوک کرو، رہا برائی کرنے والا تو اس کی برائی ہی اسے ختم کرنے کیلیے کافی ہے‘‘

 درباریوں میں سے ایک شخص کو اس سے حسد تھا، اس کی پوری خواہش یہی تھی کہ بادشاہ کو اس سے بدظن کرادیا جائے تاکہ یہ دربار کا مقرب نہ رہے۔ اس نے اس کے لیے بے شمار تدابیر اختیار کیں لیکن ہرایک میں ناکام رہا۔ ایک دن موقع پاکر اس نے بادشاہ کے کان بھرے کہ یہ شخص جو آپ کا نہایت مقرب ہے حقیقت میں آپ کا بدخواہ ہے، اس نے لوگوں کے درمیان آپ کے خلاف کئی باتیں مشہور کررکھی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کے منہ سے نہایت گندی بدبو آتی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا: تمہارے اس الزام کا ثبوت کیا ہے؟ حاسد بولا : آپ اس شخص کو شام کے وقت بلوائیں اور اپنے قریب کریں گے تو آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ یہ شخص اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے گا ، تاکہ آپ کے منہ کی بدبو نہ سونگھ سکے۔

بادشاہ نے کہا : تم جا ئوہم خود اس کی تصدیق کرلیں گے۔ وہ شخص وہاں سے اٹھا اور سیدھا اس آدمی کے پاس گیا اور اسے کھانے کی دعوت دی، کھانے میں جان بوجھ کر پیاز اور لہسن جیسی بودار چیزیں شامل کیا، اس بیچارے کو حاسد کی چال کا قطعی علم نہیں تھا، اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر بادشاہ کے دربار میں گیا، بادشاہ نے اسے اپنے قریب آنے کو کہا، جب وہ قریب آیا تو اسے اور قریب آنے کے لیے کہا، جب وہ بادشاہ کے بہت زیادہ قریب ہوا تو اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ اس کے منہ کی بدبو بادشاہ کو تکلیف نہ پہنچائے۔

اب بادشاہ کا شک یقین میں بدل گیا، اس نے یقین کرلیا کہ یہ شخص واقعی میرا مخلص نہیں ہے تو اس نے قلم دوات منگوایا اور اپنے ہاتھ سے اپنے کسی عامل کے نام یہ فرمان تحریر کیا کہ : یہ حامل رقعہ جب تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کرکے اس کی کھال اتار کر اس میں بھس بھر کر میرے پاس روانہ کرنا۔

بادشاہ کے متعلق مشہور تھا کہ جب بھی وہ کسی کو کوئی گرانقدرانعام یا عطیہ دیتا تو اس کا فرمان اپنے ہاتھ سے ہی لکھتا۔ یہ شخص جب فرمان لے کر دربار سے باہر نکلا تو حاسد اسے دروازے کے پاس ہی مل گیا، اس نے پوچھا : یہ کیا لے کر جارہے ہو؟ اس آدمی نے جواب دیا کہ : بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے فرمان لکھا ہے۔ یہ سنتے ہی حاسد کی رال ٹپکنے لگی، اس نے سمجھا شاید بادشاہ نے اپنی عادت کے مطابق انعامی رقم لکھی ہوگی، اس نے نہایت ہی لجاجت اور چاپلوسی سے عرض کیا کہ یہ شاہی فرمان مجھے دے دو۔

 اس آدمی نے کہا : جا اب یہ خط تمہارا ہے۔ حاسد خوشی بخوشی یہ فرمان لے کر اس عامل کے پاس گیا، تو خط پڑھتے ہی عامل نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس شخص کو رسیوں سے جکڑ دو۔

 اس نے کہا : میں انعام حاصل کرنے کے لیے آیا تھا۔ عامل نے کہا : وہ بھی جلد ہی تمہیں مل جائے گا۔ پھر خط کے مضمون سے اس حاسد کو واقف کرایا تو چیخ پکار مچانے لگا ، اللہ کی دہائی دینے لگا کہ یہ فرمان بادشاہ نے میرے لیے نہیں بلکہ فلاں شخص کے لیے لکھا تھا، چاہیں تو بادشاہ سے مراجعہ کرلیں۔ عامل نے کہا : بادشاہ کے خط کا مراجعہ نہیں ہوتا، پھر اس کو قتل کرکے اس کی چمڑی ادھیڑ کر اس میں بھس بھر کر دوسرے دن بادشاہ کی خدمت میں روانہ کردیا۔

دوسرے دن نیک آدمی بادشاہ کی خدمت میں پہنچا، اور اپنی عادت کے مطابق اسے نصیحت کی کہ ’’اپنے محسن کے ساتھ اس کے احسان کی وجہ سے اچھا سلوک کرو، رہا برائی کرنے والا تو اس کی برائی ہی اسے ختم کرنے کیلیے کافی ہے‘‘۔ بادشاہ نے اسے دیکھ کر پوچھا : کیا تم ابھی تک زندہ ہو ؟ جب کہ میں نے کل تمہارے قتل کا فرمان لکھا تھا۔ اس نے ماجرا سنایا تو بادشاہ نے کہا: اس شخص نے تو مجھے بتایا تھا کہ تم میرے بارے میں کہتے ہو کہ میرے منہ سے بدبو آتی ہے۔ کیا سچ ہے؟ اس نے کہا : حاشا وکلا میں نے تو ایسی بات کبھی نہیں کی۔ بادشاہ نے کہا : اچھا بتا کل جب میں نے تمہیں بلایا تھا تو تم نے اپنے منہ پر ہاتھ کیوں رکھ لیا تھا ؟ وہ کہنے لگا : بادشاہ سلامت!حقیقت تو یہ ہے کہ کل اس شخص نے مجھے کھانے کی دعوت دی، جس میں مجھے خوب لہسن وغیرہ کھلایا، میں نے ہاتھ اس لیے منہ پر رکھ لیا تھا کہ کہیں آپ کو اس کی ناگوار بو سے تکلیف نہ ہو۔ بادشاہ نے کہا : تم سچ کہتے تھے، تم اپنی ڈیوٹی پر واپس چلے جائو، رہا تمہارے ساتھ برائی کرنے والے کا معاملہ تووہ خود اپنی برائی کے انجام کو پہنچ چکا ہے۔

قارئین کرام !آج کے اس ماد ی دور کے اندر لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کیا یہی کچھ نہیں کر رہے کہیں کسی کاحق غصب اور کہیں چاپلوسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برداشت تو ہم سے بالکل ہی ختم ہوگئی ہے ،نہ کسی کی عزت برداشت ہوتی ہے اور نہ کسی کی شہرت،اللہ پاک جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے ہم نہ تو کسی کی شہرت اپنے نام کر سکتے ہیں اور نہ کسی کی عزت لہذا ہمیں عزت والوں کی عزت کرنی چاہیے اور شہرت والوں کی شہرت کو تسلیم کرنا چاہیے ،نیک نامی اگر حاصل کرنی ہے تو اسی اصول کو اپنانا ہوگا ’’اپنے محسن کے ساتھ اس کے احسان کی وجہ سے اچھا سلوک کرو! رہا برائی کرنے والا تواس کی برائی ہی اسے ختم کر نے کے لیے کافی ہے ،اللہ پاک ہمیں حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے اور برائیوں میں نہیں اللہ پاک ہمیں اچھائی کرنے والوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔