شہادتِ حسینؓ کا تاریخی پس منظر

صائمہ صدف شکیل احمد

(طالبہ ایم اے، نالاسوپارہ)

قرآن مجید کا فلسفہء شہادت :

قرآن کریم میں شہادت کی اصطلاح کن معنوں میں استعمال ہوئی ہے اسے سمجهنے کے لیے سورۃ البقرہ کی آیت ۱۴۳ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس آیت میں اللّٰہ تعالی فرماتے ہیں :

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً

"اور اسی طرح تو ہم نے تمہيں ایک امتِ وسط بنایا یے تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

  یہاں ہم مسلمانوں کا فرض منصبی بھی بتایا گیا ہے اور ساتھ ہی شہادت کی بات بھی آئ ہے۔ یعنی اللّٰہ کے دین کو اس کی سر زمين پر مکمل طور پر یوں نافذ کرنا کہ حجت تمام ہو جاے۔ تمام عالم پر یہ واضح ہو جا ے کہ اسلام ہی مکمل نظام حیات ہے اور چشمِ فلک نے اس سے بہتر نظام نہيں دیکها۔ اس بات کی شہادت دینے کے لیے جن لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ گویا اللّٰہ کے گواہ کہلاے, شہداء کہلاے۔

تاریخِ اسلام نے عظیم شہادتوں کے تین ادوار دیکھے۔ پہلا دور حضور صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی نبوتسے فتح مکہ تک رہا جس میں کئ  صحابہ اکرام نے دین کی بقاء کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کیا۔ دوسرا دور خلافت راشدہ کے زمانے میں اور شہادتوں کا تیسرا دور خلافت کے اختتام سے شروع ہوا جو داخلی انتشار اور خانہ جنگی کی بدولت تھا۔ سا نحہ کربلا اسی دور کی ایک کڑی ہے۔

حضرت ابو بکر صدیق صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا دور خلافت

فتح مکہ کے بعد انقلاب محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تکميل ہوئی اور اسلام کو سرخروئ و سربلندی حاصل ہوئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ اول بنے۔ اس وقت اس انقلاب عظيم کی مخالفت میں کچھ منفی عناصر (Counter Revolutionary Forces)نے بھی اپنا سر ابھارا۔ دو بڑے فتنے جو اس وقت شروع ہوے وہ تھے نبوت کے جھوٹے دعوےدار , اور لوگوں کا زکوۃ کی ادائيگی سے انکار,  ان دونوں ہی فتنوں کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے کمال خوبی سے ختم کر دیا۔ اگر چہ ان کے دور میں توسيع دارالاسلام اور فتوحات کا کام نہیں ہوا مگر استحکام اور امن و امان کے حساب سے یہ ایک سنہرا دور رہا۔

حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا دور خلافت 

حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ دوم کے دور خلافت میں اسلامی حکومت کی توسيع کا کام بہت اعلی پیمانے پر ہوا,اور فتوحات کا سلسلہ سلطنت ایران سلطنت روما فتح کر لیے گئے۔ایک مرتبہ پھر چراغ خلافت کو بھجانے کے لئے Counter Revolutionary Movement اٹھی۔ ایران کے جرنیل ,ہربوذان نے سازش رچی اور ابو لو لو فیروز کے ہاتهوں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کوشہیدکروادیا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کا دور خلافت

حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت کے بعد یہ سمجها گیا کہ خلافت اسلاميہ کہ عمارت زمين بوس ہو جائے گی لیکن باطل اس بات سے بے خبر تھا کہ یہ عمارت محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم  کی قائم کی ہوئی ہے اور یوں ریشہ دوانیوں سے ختم نہیں ہو سکتی۔

اب خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ نے خلافت کی باگ دوڑ سنبهالی۔ ۱۲ برس پر مشتمل ان کے دور خلافت کے ابتدائی دس سال نہایت کامیاب اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور اندورن ملک امن وسکون قائم رہا۔

ان کی خلافت کے آخری عرصہ میں اب یہودیوں کی طرف سے ردعمل اور سازشیں ہونے لگیں۔ عبداللہ ابن صبا نے اسلام کا لبادہ اوڑھا اور منافقت کے پردے کے ساتھ  داخل ہوا۔اس نے اندازہ لگایا تھاکہ قریش کے دو بڑے خاندانوں ،بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان پرانی چپقلش ہے۔پہلے دو خلیفہ نہ بنو ہاشم  سے تھے نہ بنو امیدہے ،لیکن خلیفہ سوم بنو امیہ کے فرد تھے۔اس نے اس دکھتی رگ کو پکڑا اور یہاں سے” فتنہ الکبراء”کا آغاز ہوا،اس نے کہا کہ خلافت تو بنو ہاشم کا حق ہے کیونکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بنو ہاشم سے ہیں۔اور بالاخر اسی فتنہ کے زیر اثر حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔

حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا دور خلافت

اب خلافت حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے سپرد ہوئی، ان کی خلافت کے ۵ سال مسلسل خانہ جنگی کا سلسلہ چلا۔ ایک طرف شعیان علی تھے اور دوسری طرف شیعان عثمان تھے۔جو عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے قتل کے قصاص کے مطالبے کو لیکر آئے۔جنگ جمل رونما ہوئی ،جس میں دس ہزار مسلمان شہید ہوئے۔یہ جنگیں اس لئے ہو رہی تھیں کہ خلافت کی عمارت کو اغیار کی سازشوں سے بچایا جائے،یہ سلسلہ آخر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت پر ختم ہوا۔(سن ہجری ۳۵)انھیں شہید کرنے والا فرد عبدالرحمن ابن ملجم خارجی طبقے سے تھا یہ گمراہ ترین فرقہ تھا۔یہ لوگ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے لشکر میں شامل تھے،لیکن جب آپ نے ثالثی کی تجویز قبول کی تو وہ ناراض ہوگئے اور انھوں نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اور امر بن العاص رضی اللّٰہ عنہ کے قتل کی بھی سازش رچی تھی۔

حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت

حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے جب کچھ افراد نے اجازت چاہی کہ کیا ہم حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تو آپ نے کہا تھا نہ میں اجازت دیتا ہوں نہ انکار کرتا ہوں اگر چاہو تو کر لو۔ اور یوں لوگوں نے حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ ان کا دور خلافت صرف چھے ماہ رہا جو خلافت کا مختصر ترین دور تھا۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ

حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے برادرِ نسبتی تھے اور کاتبانِ وحی میں سے تھے۔ انھوں نے حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت سے اختلاف کیا۔ حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ پچاس ہزار آدمیوں کو لے کر نکلے اور امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ بھی اپنا لشکر لے کر شام سے آئے۔ لیکن حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کو علم ہو گیا تھا کہ ان کے ساتھیوں میں کچھ فسادی عناصر بھی ہیں جو عبداللّٰہ ابن صبا کے ساتھیوں میں سے ہے۔ چنانچہ انھوں نے صلح کی پیش کش کی اور یوں حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کی شرائط کے مطابق صلح ہو گئی۔ حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ سن ۴۱ ہجری میں خلافت سے دستبردار ہوگئے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی گئی۔ ۵سالہ خانہ جنگی کا اختتام ہوا اور عالمِ اسلام متحد ہو گیا۔ اسے عام الجمع کہا جاتا ہے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں بھی فتوحات کا سلسلہ چلا۔ توسیع دارالاسلام کا کام ہوا۔ سندھ’ کابل’ افغانستان’ ترکستان اور قیصر قسطنطنیہ فتح ہوا۔

آغاز ملوکیت

خلافتِ راشدہ کا ایک اہم عنصر ‘مشاورت’ ہے۔ تمام خلفائے راشدین کا انتخاب مشاورت سے ہوا۔ لیکن حجرت امیر معاویہ نے یہ طاقت سے حاصل کی اس لئے ان کا دور ‘ دورِ خلافت میں شامل نہیں کیا جاتا۔ یوں خلافت راشدہ کے ۳۰ برس مکمل ہوئے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے دور سے ملوکیت کا آغاز ہوا۔

مخالفتِ ملوکیت اور یزید

ادھر حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کی ولی عہد  کا اعلان کیا۔لوگوں نے عام طور پر بیعت ولی عہدی کرلی۔البتہ ۵ اہم شخصیات نے بیعت سے انکار کردیا۔

۱۔۔عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللّٰہ عنہ

۲۔عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ

۳۔۔۔عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ

۴۔۔۔عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ

۵۔۔۔حضرت بن حسین ابن علی رضی اللّٰہ عنہ

عبدالرحمن ابی بکر رضی اللّٰہ عنہ نے کہا تھا” کیا تم چاہتے ہو کہ قیصر و کسری کی سنت پر عمل کرو؟”

اوران پانچوں نے نسل در نسل حکومت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔بہر حال امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں ان افراد سے کوئی جھگڑا نہیں کیاگیا۔

یزید کی ولی عہدی کے ۱۰ سال بعد ۶۰ ہجری میں امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔اب یزید نے بیعت خلافت کے لئے تمام گورنروں کو پیغام بھیجا۔اور عالم اسلام نے بیعت کرلی سوائے ان مذکور صحابیوں کے۔(حضرت عبداللّٰہ بن ابی بکر رضی اللّٰہ عنہ اس وقت انتقال فر ما چلے تھے۔) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ کی رائے تھی کہ بہر حال یہ غلط کام ہوا لیکن اتنا بھی غلط نہیں کہ جنگ و جدال ہو،اور دونوں نے یزید سے بیعت کرلی۔باقی دونوں افراد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت حسین  رضی اللّٰہ عنہ نے اس غلطی کو برداشت کرنے سے انکار کیا اور مقابلہ کا فیصلہ کیا۔مدنیہ چھوڑ کر حرم میں پناہ لی۔

سانحہ کربلااور شہادت حسین رضی اللّٰہ عنہ:

حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کوفہ کو دارالخلافت  بنا چکے تھے۔حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کو کوفہ سے کئی خط موصول ہونے اور انھیں کوفہ آنے کی دعوت  دی گئی اور یزید کے خلاف مدد کرنے کے وعدے کئے گئے۔اگرچہ کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ مکے کو جاہ پناہ بنانا چاہتے تھےمگر حسین رضی اللّٰہ عنہ کوفہ جانے کا تہیہ کر چکے تھے۔وہ اپنے فیصلے پر جم گئےاور  حضرت مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ کو کوفہ بھیجا جہاں بارہ ہزار افراد نے بیعت کرلی۔یوں یزید کے خلاف میدان میں اترنے کے لئے خاصی تعداد مل گئی۔

ادھر یزید نے عبیداللہ ابن زیاد کو گورنر بنا کر بھیجا،اس کے خوف سے کئی کوفی بیعت سے مکرر گئے۔اور بالاخر حضرت مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ شہید کردئیے گئے۔حضرت مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کو پیغام بھیجا تھا کہ یہاں بغاوت ہوگئی ہے۔چنانچہ آپ واپس لوٹ جائیے”۔الکوفی لا یوفی” کوفی اپنے عہد کو پورا نہیں حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ نے واپس جانے کا قصد کیا لیکن حضرت مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ کے بیٹے اپنے والد کے قتل کا قصاص لیے بخیر واپس نہیں جانا چاہتے تھے۔اس لئے حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ لشکر کے ہمراہ کربلا پہنچے۔ یزید کے بھیجے گئے پہلے دو لشکر نرم پڑ گئے لیکن پھر ابن زیاد نے تیرا نے تیسرا لشکربھیجا ایک فیصلہ کن معرکہ ہوا۔

   حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ نے کوفہ والوں کو ان کے عہد یاد دلائے،کہا کہ میں خود نہیں آیا تم لوگوں نے خطوط بھیج بھیج کر مجھے بلایا،ساتھ ہی خطوط بھرا  تھیلا ثبوت کے طور پر پیش کیا۔اب کوفی ڈر گئے اگر یہ بات یزید تک پہنچ گئی تو ہمارا بھونڈا پھوٹ جائے گا اور اب حسین رضی اللّٰہ عنہ دمشق چلے گئے تو یزید ہماری اصلیت سے واقف ہو جائے گا اور وہ لوگ حسین رضی اللّٰہ عنہ کی جان کے درپے  ہوگئے۔ بالآخر ۱۰ محرم الحرام کو حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور خیموں کو آگ لگادی گئی تاکہ کوفہ والوں کے خطوط جل جائیں۔ یہ سانحہ کربلا سن ۶۱ ہجری میں وقع پذیر ہوا۔ یہ اسلامی تاریخ کا وہ باب ہے جس پر کافی اختلافات ہیں۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ  اپنی کتاب تفہیمات میں لکھتے ہیں :

 حضرت حُسینؓ نے یہ نمونہ پیش کیا کہ

"اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور وہ غلط راہ پر جا رہی ہو تو اُس کے خلاف جدوجہد درست ھے۔ مسلمان حکومت بگڑ رہی ہو تو مسلمان کا کام تماش بین بن کر بیٹھنا نہیں بلکہ اُس کا فرض ھے کہ وہ اصلاح کے لیے کھڑا ہو جائے خواہ اکیلا ہی ہو اور خواہ کچھ نتیجہ ہو۔ "

   حضرت عبداللّٰہ ابن زبیر ؓ نے پھرمکہ میں حکومت قائم کی جو ۹ برس تک رہی۔ شام اور مصر کے صوبے ان کے زیر حکومت اگئے۔ سن ۷۳ ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا۔

کربلا کی جنگ کوئی اقتدار کی جنگ نہیں تھی بلکہ حضرت حسینؓ نے اسے اپنا فرض منصبی سمجھا کہ اسلامی خلافت کی بقا کے لئے وہ میدان میں اتریں اور نظامِ ملوکیت کو قائم نا ہونے دیں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم واقعہ کربلا سے درس لیں’ قربانیوں کا’ ایثار کا اور خدائے تعالٰی کی راہ میں اپنے آپ کو نثار کر دینے کا۔

    ماہِ محرم الحرام ‘حرمت’والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں کی جان و مال’ عزت و آبرؤ ایک دوسرے پر حرام ہے۔ ہجرتِ مدینہ بھی ماہِ محرم میں ہوئی اور سانحہ کربلا بھی اور یہ دونوں واقعات ہمیں دین کی خا طر قربانی دینے کا درس دیتے ہیں۔

1 تبصرہ
  1. Asadulla کہتے ہیں

    Typing errors are found.
    Article is very crispy, and clear

    It is ultimately leading a person to denounce the hukumat of batil and stand against it.

    Spiritual relationship to the shahafat is missing.

تبصرے بند ہیں۔