حق رازداری کا پاس و لحاظ اور اسلامی تعلیمات

ڈاکٹر شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری

   اسلامی قوانین کا بنیادی مقصد انسانی عظمت کا تحفظ ہے۔ اسلام احترام انسانیت اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔دین اسلام انسان کے لیے حقوق تسلیم کرتا ہے۔ اسلام کے جامع و واضح انسانی حقوق کے تصور، حکمت اور فلسفہ کی بنیاد توحیدی فکر پر استوار ہے۔  اور اپنے ماننے والوں کو ہر اس عمل سے اجتناب کرنے کی تلقین و تاکید کرتا ہے جو معاشرتی تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق برائے رازداری  (Right of Privacy) بھی ہے جو فقہ اسلامی کا ایک وسیع موضوع ہے۔ دین اسلام بلاتفریق رنگ و نسل، مسلک و مذہب حق رازداری  کو ہر انسان کی عزت و کرامت کا لازمہ سمجھتا ہے اور تمام مسلمانوں کو اس کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ شریعت کے مطابق انسان کا ہر عمل نجی ہے جب تک کہ وہ خود اپنے کسی عمل پر دوسروں کو مطلع نہ کردے۔ اسلام گھر کے اندر اور باہر ہر انسان کو رازداری کا حق دیتا ہے ۔

دین اسلام نے جاسوسی (تجسس ) جیسی بری خصلت اور رذیل حرکت کو بغیر کسی قید و شرط کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید کا صریح حکم ہے کہ مسلمان کسی کے نجی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں یعنی بلا وجہ جاسوسی نہ کریں ۔ اس قرآنی ہدایت کے مطابق ہر مسلمان کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ انفرادی ، خاندانی اور معاشرتی راز فاش کرنے سے حد درجہ اجتناب کرے بصورت دیگر انسان کو پریشانی، خاندان کو رسوائی اور ملک کو شرمندگی اور ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مال چھپانے سے زیادہ مشکل کام کسی کے راز کی حفاظت کرنا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کسی کا راز ایک امانت ہے اور اس کا ظاہر کرنا گویا امانت میں خیانت کرنا و چغلی کرنا ہے اور ان دونوں مذموم افعال کی سزا جہنم ہے۔ حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں کہ اپنے بھائی کے راز فاش کرنا بھی خیانت ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق حق رازداری کا پاس و لحاظ کریں تو نہ صرف انسانی معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے گا بلکہ انسان آخرت کی ذلت و رسوائی اور عذاب جہنم سے بھی محفوظ ہوجائے گا۔ وہ رشتے پائیدار ہوتے ہیں جن کی بنیاد اعتماد اور بھروسہ پر ہوتی ہے اور ان رشتوں کا تانا بانا بکھر جاتا ہے جو شکوک و شبہات کی نذر ہوجاتے ہیں اور جب شکوک و شبہات حد سے تجاوز کرجاتے ہیں تو انسان کسی کے حق رازداری پر دست درازی کرنے کی طرف مائل ہوجاتا ہے جس کے باعث اس کا ذہنی سکون غارت اور وہ مومنانہ کردار سے محروم ہوجاتا ہے بالآخر رشتوں میں نفرتیں اور دراڑ پیدا ہوجاتی ہے جس کے منفی اثرات معاشرے پر بھی پڑتے ہیںاسی لیے دین اسلام انسان کی نجی و خصوصی زندگی کے راز ٹٹولنے اور پوشیدہ حالات کھوجنے سے منع فرماتا ہے۔

 قرآن و حدیث میں نجی زندگی، نجی املاک، نجی مواصلات، ذاتی خودمختاری اور نگرانی کے جدید نظریہ (Surveillance) سے متعلق واضح اور رہنمایانہ ہدایات موجود ہیں۔ معاشرہ سے برائیوں کے تدارک و خاتمہ کے لیے صرف مجرموں کو سزائیں دینا کافی نہیں ہے بلکہ پاک، صالح اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کی فکری تربیت کا اہتمام ہو ورنہ ہمارا ذاتی مشاہدہ و تجربہ ہے کہ اخلاقی بے راہ روی اور نفسیاتی بیماریوں سے معاشرے کو محفوظ رکھنے میں اکثر قوانین بھی ناکام ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے اسلام قوانین سے زیادہ شخصیت سازی پر زور دیتا ہے۔نبی رحمت ؐنے انفرادی، سماجی، سیاسی، معاشی حقوق پر مشتمل ،فلاحی مملکت کی بنیاد فراہم کرنے ،عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اور و امن و آشتی کو یقینی بنانے والے نظام کی طرف رہبری و رہنمائی کرنے والے خطبہ حجۃ الوداع میں بالعموم انسان اور بالخصوص بندہ مومن کو یہ تعلیم دی کہ وہ جنسی، نسلی ، مذہبی، وطنی اور طبقاتی امتیازات کو بالائے طاق رکھ کر انسانی حقوق کا پاس و لحاظ رکھے تاکہ کسی صورت انسانی مساوات پامال نہ ہواور انسانی معاشرے میں کامل طور امن و امان کی حکمرانی رہے۔یہ ایک ایسی بلند سطح کی امنیت ہے جس کا حصول اسلامی معاشرے کی تشکیل کے بغیر ممکن نہیں۔ بحیثیت داعی اسلام اور خیرامت ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر وقت فکر مند رہے اور عملی طور پر حقوق انسانی کا پاس و لحاظ رکھ کر غیر مسلموں کے لیے مشعل راہ بنے۔ اگر حق رازداریکا اسلامی تعلیمات کے مطابق پاس و لحاظ نہ رکھا جائے تو انسانی معاشرہ کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اگرچہ انسان کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو۔

 دین اسلام میں  حق رازداری کا پاس و لحاظ کرنے والے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ جس نے کسی انسان کے عیوب کی سترپوشی کی اللہ تعالی بروز قیامت اس کے معائب کی سترپوشی فرمائے گا۔ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ جو شخص کسی کے عیب کو چھپاتا ہے اس کا یہ عمل ایسے ہی ہے جیسے اس نے زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کو موت سے بچالیا۔ اس کے برعکس جو لوگ اس انسانی حق کو پامال کرتے ہیں ان کے لیے سخت اور شدید وعیدیں بیان ہوئی ہیں جس کے مطابق جو لوگوں کے عیوب تلاش کرتے ہیں اللہ تعالی ان کے عیب دنیا پر ظاہر فرمادیتے ہیں۔ جب اللہ تعالی کسی کے عیب کو ظاہر فرمادے تو اس کا دنیا میں ذلیل و رسوا ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔ اور ایک روایت میں آیا کہ جو شخص کسی کی باتوں پر کان لگاتا ہے حالانکہ وہ اسے ناپسند سمجھتا ہو یا وہ اس سے راہ فرار اختیار کرتا ہو تو بروز محشر اس کے کانوں میں شیشہ پگھلاکر ڈالا جائے گا۔ لوگوں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہمیں یہ بات ہمیشہ مستحضر رکھنی چاہیے کہ عیب پوشی صفت الٰہی ہے۔ اور ہم چونکہ رب کائنات کے خلیفہ ہیں لہٰذا ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم لوگوں کے راز افشا نہ کریں۔

علاوہ ازیں نبی پاکؐ نے اپنی امت کو تحسس و تجسس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ امام نوویؒفرماتے ہیں کہ تحسس کے معنی لوگوں کی گفتگو سننے اور تجسس کے معنی لوگوں کے عیب تلاش کرنے کے ہیں۔ ان دو الفاظ کے معانی میں دوسرا فرق یہ ہے کہ جب انسان اپنے لیے معلومات حاصل کرنے کے لیے دوسروں کے راز تلاش کرتا ہے تو اسے تحسس کہتے ہیں اور جب انسان دیگر افراد کو معلومات پہچانے کے لیے کسی انسان کے راز تلاش کرتا ہے تو اسے تجسس کہتے ہیں ۔ محولہ بالا حدیث شریف کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ بندہ مومن کے لیے زیب نہیں کہ وہ کسی اوروں کے لیے یا اپنے ذاتی مفادات کے لیے انسان کے راز تلاش کرے۔ واضح باد کہ جو لوگ برے مقاصد کے لیے لوگوں کے راز تلاش کرتے ہیں انہیں جاسوس کہا جاتا ہے جس کی دین اسلام میں مذمت بیان ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اچھے مقاصد کے لیے لوگوں کے راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں انہیں ناموس کہا جاتا ہے جیسے بادشاہ کا رازدار اور معتمد علیہ شخص وغیرہ، مذہب اسلام میں اس کی اجازت ہے۔ اگر حکومت کے خلاف تخریبی کارروائیاں ہورہی ہوں یا عوامی مفادات کے خلاف سازشیں ہورہی ہوں یا معاشرے میں نقص امن یا ملک کے اتحاد و سا  لمیت کو خطرہ لاحق ہو تو ان تمام صورتوں میں دین اسلام میں جاسوسی کی اجازت ملتی ہے لیکن یہ بھی اسی وقت ممکن ہے جب حکومت یا حکمران کے پاس اس بات کے پختہ ثبوت موجود ہوں کہ فلاں شخص حکومت کے خلاف سازش یا نقص امن کی کارروائیوں میں ملوث ہے ورنہ محض شک کی بنیاد پر دین اسلام میں حکومت کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کے گھر کی تلاشی لے۔

رسول رحمتؐ نے فرمایا حاکم جب لوگوں کے معاملات میں بدگمانی اور تہمت پر عمل کرے گا تو انہیں بگاڑ دے گا۔ معاشرہ کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے حق رازداری  کا بھرپور پاس و لحاظ رکھا جائے۔ حضرت معاویہؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے خاتم پیغمبراںؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم لوگوں کے پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑوگے، تو تم ان میں بگاڑ پیدا کردوگے یا قریب ہے کہ ان میں اور بگاڑ پیدا کردو۔ مذکورہ بالا مستثنیات اور استثنائی مواقع سے صرف نظر کریں تو اسلام کے معاشرتی آداب و احکام کی روشنی میں حق رازداری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر افراد کی شخصی و داخلی زندگی میں جاسوسی کرنا ، ان کی خفیہ باتیں جاننے کی کوشش کرنا، ان کے بھیدوںکو فاش کرنا تو درکنار انسان کے اسرار کی حرمت کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اسلام بندہ مومن کو اپنے ہی گھر میںبغیر اجازت داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا تاکہ گھر میں مقیم دیگر لوگوں کا حق رازداری کا تحفظ ہوسکے چونکہ گھر ہی وہ مقام ہے جہاں انسان پابندیوںسے آزاد ہوکر آرام کرسکتا ہے۔

 اس درکار آزادی کو کامل طور پر یقینی بنانے کے لیے اسلام نے بغیر اجازت گھر میں داخل ہونے کو نہ صرف ممنوع قرار دیا بلکہ مسلمانوں کو حکم دیا کہ اجازت لیتے وقت دروازے کے دائیں یا بائیں ہوکر کھڑے ہوں۔ اس حکم کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اگر انسان بغیر اجازت اپنے ہی گھر میں داخل ہوجائے تو ممکن ہے کہ انسان کے سامنے ایسے مناظر و حالات آجائیں جسے وہ دیکھنا کبھی گوارا نہ کرے۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے نبی رحمتؐ سے سوال کیا کہ میں اپنی ماں کے گھر جائوں تو کیا وہاں بھی اجازت لوں؟ حضورؐ نے جواباً ارشاد فرمایا ہاں۔اس نے عرض کیا میرے علاوہ میری ماں کا کوئی خدمت گزار بھی نہیں ہے تو پھر بھی اجازت لوں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کہ تو اپنی ماں کو برہنہ دیکھے۔ اسی طرح دین اسلام نے دوسروں کے خطوط بغیر اجازت پڑھنے اور ان کی گفتگو سننے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اگر کوئی ترچھی نظر سے بھی کسی کا خط پڑھتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی شریعت میں قابل مذمت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب میں انسانی احساسات کو بھی بہت اہمیت دی گئی ہے۔

آج کل موبائل کا زمانہ ہے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ کسی کا موبائل یا لیب ٹاپ یہ کہتے ہوئے لیتے ہیں کہ مجھے ایک کال کرنی ہے یا مجھے ایک ای میل کرنا ہے جب موبائل یا لیپ ٹاپ ان کے ہاتھ میں آجاتا ہے تو وہ موبائل یا لیپ ٹاپ میں موجود پیغامات پڑھنے لگتے ہیںیہ بھی ایسا ہی ہے جیسے کسی کی اجازت کے بغیر اس کے خطوط پڑھنا اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان کا دل تاریک ہوجائے (العیاذ باللہ) ۔لہٰذا مسلمانوں کو اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے ورنہ لوگوں کے درمیان نفرتوںکی دیواریں کھڑی ہوجائیں گی، معاشرہ کا امن و امان غارت ہوجائے گا اور ہر انسان سکون و اطمینان کے لیے ترسے گا۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔