حلالے کی شرعی حیثیت

مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

دین اسلام نے پوری دنیا کے سامنےنظام مساوات اور حقوق نسواں کا ایسا حسیں تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومعتدل نظام پر عش عش کراٹھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور فطرت انسانی کا محافظ ہے۔ آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقیقت سے چشم پوشی اور اسلام کو بدنام کرنے کی منظم سازش ہے، مگر
”پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے“
کے عین مطابق آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانشوران فرنگ، اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں،اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارۂ کاربھی نہیں ؛کیوں کہ اسلام کے علاوہ تمام ادیان ومذاہب میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ؛جس کو عدل و مساوات کےبہترین نمونے کے طور پر پیش کیا جاسکے چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق عطاکئے؛ جن کا تصور قبل از اسلام بعید از قیاس تھا،”ای بلائیڈن“ رقم طراز ہیں:
”سچا اور اصلی اسلام جو محمد صلی الله عليہ وسلم لے کر آئے، اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے‘‘ (بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس)
شریعت مطہرہ کے وہ عائلی مسائل ؛جن پر اغیار ،مسلسل تیشہ زنی کرتے ہیں اور اس کوخواتین کے حق میں ظلم و نا انصافی قرار دیتے ہیں ،ان میں ایک اہم مسئلہ ’’حلالے‘‘کا ہے ۔
زیر تحریر مضمون میں اسی کی حقیقت کو واشگاف کیا گیا ہے
حلالہ کیا ہے ؟:حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دی جائے تو وہ اولاً عدت گذارے پھر اپنے اختیار سےدوسرا نکاح کرے اور شوہر ثانی اس کے ساتھ وظیفۂ زوجیت اداکرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے طلاق دے پھر یہ عورت عدت گذارے، اب پہلے شوہر جس نے طلاق دی تھی اس کے لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ چونکہ دوسرا شوہر نکاح اور وطی کے ذریعہ پہلے شوہر کے لیے نکاح کو حلال کرتا ہے اس لیے اس کا یہ فعل حلالہ کہلاتا ہے۔
حلالہ کا ثبوت:جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ(230)
پھر اگر اس عورت کوتیسری مرتبہ طلاق دی تو اب اس کے لئے وہ عورت حلال نہیں اس کے بعد ؛جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے، اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاویں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم۔ اور یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں؛جنہیں اللہ بیان فرماتا ہے جاننے والوں کےلئے۔
مذکورہ بالا آیت ميں اللہ تعالی نے واضح الفاظ ميں بتا دياکہ اگر کسی نے تیسری طلاق بھی دے دی تو اس کے بعد وہ عورت اس کےلئے حلال نہیں ہوئی؛ جب تک کہ وہ دوسرے شخص سے شادی کرلےاور اس کے ساتھ وظيفہ زوجيت ادا کرلے، اور ايسا کرنے کے بعد اگر کسی وجہ سے ان دونوں ميں جدا ئی ہوئی مثلا شوہر ثانی نے بھی اس کو طلاق دےدی یا اس کا انتقال ہوگیا وغیرہ تو اب وہ خاتون اپنی مرضی سے بغیر کسی جبرواکراہ کے شوہر اول کے نکاح میں رہ سکتی ہے۔اور یہی انصاف کا عین تقاضا اور شریعت کا دستور العمل ہے ۔
اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت رفاعہ قرظیؓ نامی صحابی نے اپنی عورت کو طلاق مغلظہ دی،بیوی نے دوسری جگہ نکاح کیا مگر وہاں معاملہ ٹھیک نہیں تھا :چناںچہ اس نے آکر رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں پہلے رفاعہ کے پاس تھی،انہوں نےمجھے طلاق دیدی پھر میں نےعبدالرحمن بن زبیرؓ سے نکاح کیا مگر ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کے مانند ہے یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئیں ،حضورﷺان کا ارادہ سمجھ گئے اور فرما:کیا تم رفاعہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہو ؟جب تک دوسرا شوہر تمہارا کچھ شہد نہ چکھے اور تم اس کا کچھ شہد نہ چکھو پہلے شوہر کی طرف نہیں لوٹ سکتی۔(بخاری شریف )
کیا حلالہ عورت پر ظلم ہے ؟:حلالہ کے منکرین ایک نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حلالہ عورت پر ظلم ہے؛لیکن یہ اعتراض جہالت پر مبنی ہے، کیونکہ ہر دانش مند جانتا ہے کہ جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں یا ایک دو طلاقوں کی صورت میں عدت گزر جائے تواب عورت کی اجازت اور مرضی کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جب عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کرلیا اور اب اس نے طلاق دے دی تو پہلے خاوند سے نکاح کے سلسلے میں بھی عور ت کی مرضی اور اجازت ضروری ہے۔ لہٰذا جب تک عورت اجازت نہیں دے گی اس کا نکاح نہیں ہوسکتا، تو کس طرح اس عمل کو عورت پر ظلم قرار دیا جائے گا۔ عورت کو کون مجبور کرتا ہے کہ حلالہ کرائے اور پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرے؟؟؟
پھر یہ کہ حلالہ کروانا مرد کے لئے زجروتوبیخ کا سبب ہے نہ کہ عورت پر ظلم وزیاد تی کا؛کیوں کہ ایک حساس اور غیرت مند مرد کے لئے سب سے بڑا نفسیاتی عذاب یہ ہے کہ اس کی بیوی دوسرے کی فراش بنے ؛اس طرح ہر شوہر تین طلاق دینے سے قبل دس مرتبہ سوچ کر آخری قدم اٹھائے گا اورکوئی حتمی فیصلہ کرے گا ؛تاکہ آگے چل کر اس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔
ان تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شریعت مطہرہ میں حقوق نسواں کی کس درجہ رعایت کی گئی ہے ۔
مجموعی اعتبار سے اس کی چند صورتیں:
(1)…جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں، چاہے تینوں اکٹھی ہوں یا الگ الگ دی گئی ہوں، دونوں صورتوں میں رجوع نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ خاوند (حلالہ کے بغیر) اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔
(2)… اگر اس عور ت نے دوسری جگہ نکاح کرلیا اور پھر اس دوسرے خاوند نے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دی تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا۔ یہ عمل حلالہ کہلاتا ہے اور یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔
(3)… اگر دوسرے خاوند نے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ بعد میں اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے اور اس کا گھر دوبارہ آباد ہوجائے، لیکن نکاح میں حلالہ کی شرط نہیں رکھی گئی تو یہ صورت بھی جائز ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔
(4)…اگر دوسرے خاوند سے نکاح اس شرط پر کیا جائے کہ وہ اسے بعد میں طلاق دے دے، تاکہ پہلا خاوند اس عورت سے نکاح کرلے، تو حلالہ کے لئے نکاح کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور یہ عمل حرام ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے۔
(5) …تاہم اگر ایسا کرلیا گیا تو شرط باطل ہوجائے گی اور یہ نکاح صحیح ہوگا اور دوسرا خاوند اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔ البتہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی۔
(6)… بیک وقت تین طلاقیں دینا بدعت اور ناجائز عمل ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہئے اور صرف ایک طلاق دی جائے یا ضروری ہو تو تین طہروں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں مکمل کی جائیں۔
(7)… اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا ہے تو ہر چند کہ اس کا یہ عمل حرام ہے اور وہ گنہگار ہوگا لیکن تینوں طلاقیں نافذ ہوجائیں گی۔ انہیں ایک طلاق قرار دینا نہ صرف یہ کہ صحابہٴ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے سے روگردانی ہے بلکہ عورت پر ظلم ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنا ہے۔
ان تمام صورتوں میں غورکرنے سے معلوم ہوگا کہ حلالے کی صرف ایک صورت حرام اورناجائز ہے بقیہ تمام صورتیں مباح اور جائز ہیں ؛جن کے انکار کی مطلق گنجائش نہیں۔
تین طلاقوں کے بعد حلالے کے ضروری ہونے کی وجہ :تین طلاقیں مغلظ ہیں یعنی ان سے حرمت سخت اور مضبوط ہوجاتی ہے، اب پہلے شوہر سے نکاح کے لئے دوسرے شوہر سے نکاح شرط ہے، اور اس اشتراط کی حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے تین وجوہات بیان فرمائی ہیں:واما اشتراط النکاح بعد الثالثۃ : فلتحقیق معنی التحدید والانھاء الخ
1) اس بات کو پختگی کے ساتھ واضح کرنے کے لئے: کہ اب شوہر کا حق بالکلیہ ختم ہوگیا ہے اور طلاق کی آخری حد پار ہوچکی ہے اس کے بعد رجوع کی مطلق گنجائش نہیں ہے ۔
2) شوہر کی تعزیر وتنبیہ کے لئے: کیوں کہ جب بیوی عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کرلے گی تو شوہر اس کی جدائی کا مزہ چکھے گا، جس کے بعد اس کو احساس ہوگا کہ اس نے عجلت میں یہ غلط اقدام کیا ہے۔
3) تین طلاقوں کی سنگینی ظاہر کرنے کے لئے : کہ تین طلاق وہی شخص دے گا جس نے قطعی طورپر یہ طے کرلیا ہوکہ اسے بیوی کو مکمل طورپر اپنے سے علیحدہ کرنا ہے اوراگر واپس لانا ہے تو اس شدید نفسیاتی الجھن اور رسوائی وبے عزتی کے بعد واپس لانا ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)
اسلام کے ان حکم ومصالح پر غورکرنےسےاندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے قدم قدم پر حقوق ِ نسواں کی کس قدر رعایت کی ہے اور ازدواجی زندگی کو خوش گوار ودائمی بنانے کی کس درجہ کوشش کی ہے ۔
مزید یہ کہ اس نکاحِ ثانی کو شریعت مطہرہ نے دائمی قراردیا یعنی دوسرا شخص اس مطلقہ عورت کو اپنے پاس ہمیشہ کے لئے رکھے ، وقتی طورپر حلالے کے لئے نکاح کرنا حرام اورناجائز ہے ؛بلکہ آپﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے تو شرعی حلالہ وہ ہے جو ایسے اسباب کے پید ا ہونے سے وجود میں آتا ہے جس میں قصد وارادے کا بالکل دخل نہ ہو بلکہ تمام امور اتفاقاً رونماہوگئے ہوں چناںچہ اگر پہلے خاوند کی طرح دوسرے خاوند نے بھی کسی رکاوٹ کی وجہ سے طلاق دے دی یا شوہر ثانی کا انتقال ہوگیا تو اب عدت کے بعد پہلے شوہر کے حرم میں رہنا بلاکراہت جائز ہے ۔
المختصر ان سب تحدیدات کا مقصد قانونِ الٰہی کی پاسبانی اورنظام مساوات کی پاسداری ہے؛جس سے یہ حقیقت عالم آشکارا ہوجاتی ہے کہ اسلام ہی نے فطرت کے مطابق ہرصنف کو اس کے مساوی حقوق عطاء کئے اور اس میں حبہ برابر جانب داری سے مکمل گریز کیا گیا،جو واقعتاً اسلام کا طرۂ امتیاز ہے۔

تبصرے بند ہیں۔