ہرجا جہانِ دیگر

سفینہ عرفات فاطمہ

ڈسکوری چینل پر ’Life ‘ عنوان کے تحت ایک پروگرام دکھایاجارہا تھا کہ کس طرح مختلف پرندے اور جانوراپنی زندگی کی بقا کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ‘ کیسے شکار کرتے ہیں اور کس طرح شکار ہونے سے بچتے ہیں ۔ ان کی یہ دلچسپ اور حیرت انگیز جدوجہد ہم انسانوں کے لیے بھی مشعلِ راہ ثابت ہوسکتی ہے‘ ہم ان جانوروں اور پرندوں سے جان سکتے ہیں کہ حوصلہ کیاہوتا ہے ‘مقابلہ کیا ہوتا ہے ‘ جینا کیا ہوتا ہے اور مرنا کیا ہوتا ہے ؟ پاناکیا ہوتا ہے اور کھونا کیا ہوتا ہے ؟
تین پھرتیلے چیتے شترمرغ کے ایک جوڑے پرنظررکھے ہوئے تھے‘ کیوں کہ شترمرغ ‘چیتے سے بھی بڑا اور وزنی ہوتا ہے اسی لیے یہ تینوں اسے مل کر ڈھیرکرنے کے لیے نکلے تھے۔ذہین ڈولفینیں‘ چھوٹی مچھلیوں کو غذابنانے کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔ مچھلیوں کے اردگرد وہ جس طرح حصاربندی کررہی تھیں ‘ ان کی ذہانت اور عقل مندی دیکھ کر ایک انسان ان کی پذیرائی کرے یا حیرت کے سمندرمیں غرق ہوجائے؟
انٹارٹیکا کی برفیلی سطح پر شکاری اور شکار کی سعی مسلسل دیکھنے لائق تھی۔ ان ویژولسVisuals) (کو دکھاتے ہوئے وائس اوورآرٹسٹ نے ایک بہت ہی معنی خیز جملہ اداکیا۔’’کسی شکاری کے لیے شکار محض ایک وقت کی غذا کی حیثیت رکھتا ہے‘جبکہ شکار کے لیے شکار ہونے سے خودکوبچانے کی کوشش زندگی اور موت کا سوال‘‘
ڈسکوری چینل ہی پرلداخ کے اونچے مقامات پر بسنے والے سارسوں کی زندگی دکھائی جارہی تھی ‘ اپنے نوزائیدہ چوزے کو بھیڑوں کا شکارہونے سے بچانے کے لیے مادہ سارس نے جب اپنے انتہائی بڑے پنکھ پھیلادےئے تو وہ منظراور اس کی خوبصورتی ‘اس کا احساس تمام تر اظہار کے پیمانوں سے بالاترتھا۔
کتنی محدود ہے ہماری زندگی؟ کیاکچھ ہے جو آنکھوں سے پرے ہے؟وہ کائنات ہم نے دیکھی ہی نہیں جو خالق دوجہاں کی صناعی کا عظیم شاہکار ہے۔ حالاں کہ وہ ہمارے لیے ہی آراستہ کی گئی ہے‘اسے ہمارے لیے قابلِ تسخیربنایا گیا ہے‘لیکن ہم اسے مسخرکرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
ہم جاننا ہی نہیں چاہتے کہ زمین اپنی گہرائیوں میں کیاکچھ رکھتی ہے اور آسمان اپنی وسعتوں میں کیاکیاچھپائے ہوئے ہیں ۔
پھول کی پنکھڑیوں پر جلوے بکھیرنے والی شبنم کا کیاپیغام ہے؟ ‘خزاں رسیدہ پتوں کی کیاکہانی ہے؟بہارمیں کھلنے والے گلوں کی داستان کیاہے ؟
ہم ہی ہیں وہ جنہیں غوروفکرکا پیغام دیاگیاہے‘ذروں اورستاروں کے اسرار ہمیں ہی دنیا پرمنکشف کرنے تھے لیکن ہم۔۔۔؟
ڈسکوری چینل پر جانوروں اور پرندوں کی زندگیوں کی کچھ جھلکیاں دیکھ کر میرتقی میر کا یہ شعریاد آیا
سرسری تم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جا ‘جہانِ دیگر تھا
کاش ہماری بصارتوں کو وسعتیں حاصل ہوں ‘ہماری بصیرت ’’جہانِ دیگر‘‘ کا نظارہ کرسکے‘ اس کی کائنات اور اس کامطالعہ ومشاہدہ ہمارے لیے سہل ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔