حکمراں ہے اِک وہی باقی سب بتانِ آزری (آخری قسط)

 پس سفرسے پہلے زادراہ کی فکرکرلواورطوفان سے پہلے کشتی بنالوکیونکہ سفرنزدیک ترہے اورطوفان کے آثارظاہرہوگئے ہیں ۔ جن کے پاس زادراہ نہ ہوگاوہ وہ بھوکے مریں گے اورجن کے پاس کشتی نہ ہوگی ، وہ سیلاب میں غرق ہوجائیں گے ۔جب تم دیکھتے ہوکہ مطلع غبارآلودہوااوردن کی روشنی بدلیوں میں چھپ گئی توتم سمجھتے ہوکہ برق وباراں کاوقت آگیا۔پھرتمہیں کیاہوگیاہے کہ دنیاکی امن وسلامتی کامطلع غبارآلودہورہاہے ۔ دین الٰہی کی روشنی ظلمت وکفروطغیان میں چھپ رہی ہے مگرتم یقین نہیں کرتے کہ موسم بدلنے والا ہے اورتیارنہیں ہوتے کہ انسانی بادشاہوں سے کٹ کرخداکی بادشاہت کے مطیع ہوجاؤ۔کیاتم نہیں چاہتے کہ خداکے تخت جلال کی منادی پھربلندہواوراس کی زمین صرف اسی کے لئے ہوجائے۔

  آہ ہم بہت سوچکے اورٖغفلت وسرشاری کی انتہاہوچکی ۔ ہم نے اپنے خالق سے ہمیشہ غرورکیالیکن مخلوقوں کے سامنے کبھی بھی فروتنی سے نہ شرمائے ۔ہماراوصف یہ بتلایاگیاتھاکہ  :-

 مومنوں کے ساتھ نہایت عاجزونرم ، مگرکافروں کے مقابلہ میں نہایت مغروروسخت۔  (5  :  54)

ہمارے اسلاف کرام کی یہ تعریف کی گئی تھی کہ  :-

   ’’کافروں کے لئے نہایت سخت ہیں ، پرآپس میں نہایت رحم والے اورمہربان۔ ‘‘  (48 :29)

  پھرہم نے اپنی تمام خوبیاں گنوادیں اوردنیاکی مغضوب قوموں کی تمام برائیاں سیکھ لیں ۔ ہم اپنوں کے آگے سرکش ہوگئے اورغیروں کے سامنے ذلت سے جھکنے لگ گئے ۔ ہم نے اپنے پروردگارکے آگے دست سوال نہیں بڑھایا۔ لیکن بندوں کے دسترخوان کے گرے ہوئے ٹکڑے چننے لگے ۔ ہم نے شہنشاہ ارض وسماء کی خداوندی سے نافرمانی کی مگرزمین کے چندجزیروں کے مالکوں کواپنا خداوند سمجھ لیا۔ ہم پورے دن میں ایک بار بھی خداکانام ہیبت اورخوف کے ساتھ نہیں لیتے ۔ سیکڑوں مرتبہ اپنے غیرمسلم حاکموں کے تصورسے لرزتے اورکانپتے رہتے ہیں ۔

 ’’اے سرکش انسان! کس چیزنے تجھے اپنے مہربان اورمحبت کرنے والے پروردگارکی جناب میں گستاخ کردیا‘وہ کہ جس نے تجھے پیداکیاتیری ساخت درست کی، تیری خلقت کواعتدال بخشااورجس صورت میں چاہاتیری شکل کی ترکیب کی ۔ پھریہ کس کی وفاداری ہے ۔ جس نے تجھے اس سے باغی بنادیاہے ، نہیں اصل یہ ہے کہ تمہیں اس کی حکومت کایقین ہی نہیں ۔ حالانکہ تجھ پراس کی طرف سے ایسے بزرگ نگران کارمتعین ہیں جوتمہارے اعمال کاہرآن احتساب کرتے رہتے ہیں اورتمہاراکوئی فعل بھی ان کی نظرسے مخفی نہیں ۔ یادرکھوکہ ہم نے ناکامی اورکامیابی کی ایک تقسیم کردی ہے ۔ خداکے اطاعت گزاربندے عزت ومراد اورفتح وکامرانی کے عیش ونشاط میں رہیں گے اوربدکارلوگ خداکی بادشاہی کادن کیاہے ‘وہ دن جس میں کوئی کسی کے لئے کچھ نہ کرسکے گااورصرف خداکی اس دن حکومت ہوگی۔ ‘‘   (82  :  4 :  19)

اس سے پہلے کہ خداکی بادشاہی کادن نزدیک آئے ،کیابہترنہیں کہ اس کے لئے ہم اپنے تئیں تیارکرلیں ۔ تاکہ جب اس کامقدس دن آئے توہم یہ کہہ کرنکال نہ دیئے جائیں کہ تم نے غیروں کی حکومت کے آگے خداکی حکومت کوبھلادیاتھا۔ جاؤکہ آج خداکی بادشاہت میں بھی تم بالکل بھلادیئے گئے ہو۔

 اوراس وقت ان سب سے کہاجائے گاکہ جس طرح تم نے اس دن کی حکومت الٰہی کوبھلادیاتھا، آج ہم بھی تم کوبھلادیں گے ۔ تمہاراٹھکانہ آگ کے شعلے ہیں ۔اورکوئی نہیں جوتمہارامددگارہو، یہ اس کی سزاہے کہ تم نے خداکی آیتوں کی ہنسی اڑائی اوردنیاکی زندگی اوراس کے کاموں نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا۔ پس آج نہ توعذاب سے تم نکالے جاؤگے اورنہ ہی تمہیں اس کاموقع ملے گاکہ توبہ کرکے خداکومنالوکیوں کہ اس کاوقت تم نے کھودیا۔  (45  :  34  :  35)

 آج خداکی حکومت اورانسانی بادشاہوں میں ایک سخت جنگ چاہئے ۔شیطان کاتخت زمین کے سب سے بڑے حصے پربچھادیاگیاہے ۔ اس کے گھرانے کی وراثت اس کے پوجنے والوں میں تقسیم کردی گئی ہے اوردجال کی فوج ہرطرف پھیل گئی ہے ۔ یہ شیطانی بادشاہتیں ہیں کہ خداکی حکومت کونیست ونابودکردیں ۔ ان کے داہنی جانب دنیوں لذتوں اورعزتوں کی ایک ساحرانہ جنت ہے ۔ اوربائیں جانب جسمانی تکلیفوں اورعقوبتوں کی ایک دکھائی دینے والی جہنم بھڑک رہی ہے ‘جوفرزندآدم خداکی بادشاہت سے انکارکرتاہے وہ دجال کفروظلمت اس پراپنے جادوکی جنت کادروازہ کھول دیتے ہیں کہ حق پرستوں کی نظرمیں فی الحقیقت خداکی لعنت اورپھٹکارکی جہنم ہے۔

 اورجوخداکی بادشاہت کااقرارکرتے ہیں ان کوابلیس عقوبتوں اورجسمانی سزاؤں کی جہنم میں دھکیل دیتے ہیں کہ  :

مگرفی الحقیقت سچائی کے عاشقوں اورراست بازی کے پرستاروں کے لئے وہ جہنم ، جہنم نہیں ہے ۔ لذتوں اورراحتوں کی ایک جنت النعیم ہے ۔ کیونکہ ان کے لسان وایقان کی صدایہ ہے کہ  :

 اے دنیوی سزاؤں کی طاقت پرمغرورہونے والے بادشاہ توجوکچھ کرنے والاہے ، کرگزر‘توصرف دنیاکی اس زندگی کواورگوشت اورخون کے جسم پرہی حکم چلاسکتاہے ، پس چلادیکھ۔ ہم تواپنے پروردگارپرایمان لاچکے ہیں تاکہ ہماری خطاؤں کومعاف کرے تیری دنیاوی سزائیں ہمیں اس کی راہ سے بازنہیں رکھ سکتیں ۔

 جب یہ سب کچھ ہورہاہے اورزمین کے ایک خاص ٹکڑے ہی میں نہیں بلکہ اس کے ہرگوشے میں آج یہی مقابلہ جاری ہے توبتلاؤ،پرستاران دین ضیفی ان دجاجلہ فکر وشیطنت اورحکومت وامرالٰہی میں سے کس کاساتھ دیں گے۔کیاان کواس آگ کے شعلوں کاڈرہے جودجال کی حکومت اپنے ساتھ ساتھ سلگائی آتی ہے لیکن کیاان کومعلوم ہے کہ ان کامورث اعلیٰ کون تھا۔ دین حنیف کے اولین داعی نے بابل کی ایک ایسی ہی سرکش حکوت کے مقابلے میں خداکی حکومت کوترجیح دی اوراسے آگ میں ڈالنے کے لئے شعلے بھڑکائے گئے ، پراس کی نظرمیں ہلاکت کے وہ شعلے گلزاربہشت کے شگفتہ پھول تھے۔

   کیاان کے دل میں دنیوی لذتوں اورعزتوں کی اس جھوٹی جنت کی لالچ پیداہوگئی ہے جس کے فریب باطل سے یہ جنودشیطانی انسانی روح کوفتنہ میں ڈالناچاہتی ہے ۔اگرایساہے توکیاانہیں خبرنہیں کہ مصرکابادشاہ حکومت الٰہی کامنکرہوکراپنی عظیم الشان گاڑیوں اوربڑی بڑی رتھوں سے اوراس ملک سے جس پراسے رب الاعلیٰ ہونے کاگھمنڈ تھا، کتنے دن متمنع ہوسکا۔

فرعون ارض مصرمیں بہت ہی بڑھ چڑھ کرنکلاتھا۔ اس نے ملک کے باشندوں میں تفریق کرکے الگ الگ گروہ قراردے رکھے تھے ۔ ان میں سے ایک گروہ بنی اسرائیل کواس قدرکمزوراوربے بس سمجھ رکھاتھاکہ ان کے فرزندوں کوقتل کرتااوران کے اعرض وناموس کوبربادکرتا۔اس میں شک نہیں کہ وہ زمین کے مفسدوں میں سے بڑاہی مفسدتھالیکن بایں ہمہ ہمارافیصلہ یہ تھاکہ جوقوم اس کے ملک میں سب سے زیادہ کمزورسمجھی گئی تھی اس پراحسان کریں ۔اس قوم کے لوگوں کووہاں کی سرداری وریاست بخشیں ۔ انہی کووہاں کی سلطنت کاوارث بنائیں اورانہی کی حکومت کوتمام ملک میں قائم کرادیں ۔ اس سے ہمارامقصدیہ تھاکہ فرعون وہامان اوراس کے لشکرکوجس ضعیف قوم کی طرف سے بغاوت وخروج کاکھٹکالگارہتاتھا۔اسی کے ہاتھوں ان کے ظلم واستبدادکے نتیجے ان کے آگے آئیں ۔

 مسلمانو!کیامتاع آخرت بیچ کردنیاکے چندخزف ریزوں پرقناعت کی خواہش ہے ۔ کیااللہ کی حکومت سے بغاوت کرکرے دنیاکی حکومتوں سے صلح کرنے کاارادہ ہے ۔ کیانقدحیات ابدی بیچ کرمعیشت چندروزہ کاسامان کررہے ہو۔ کیاتمہیں یقین نہیں کہ

یہ دنیا کی زندگی جوتعلق الٰہی سے خالی ہے اس کے سوااورکیاہے کہ فانی خواہشوں کے بہلانے کاایک کھیل ہے ۔ اصل زندگی توآخرت ہی کی زندگی ہے جس کے لئے اس زندگی کوتیارکرناچاہئے۔

اگرتم صرف دنیاہی کے طالب ہوجب بھی اپنے خداکونہ چھوڑو۔ کیونکہ وہ دنیاوآخرت دونوں بخشنے کے لئے تیارہے ۔ تم کیوں صرف ایک ہی پرقناعت کرتے ہو۔

 اورجوشخص دنیاکی بڑی برتری کاطالب ہے ۔ اس سے کہہ دوکہ صرف دنیاہی کے لئے کیوں ہلاک ہوتاہے ‘حالانکہ خداتودین وآخرت دونوں کے برتری دے سکتاہے ‘ وہ خداکے پاس آئے اورآخرت کے ساتھ دنیاکوبھی لے۔

  مسلمانو! پکارنے والاپکاررہاہے کہ اب بھی خدائے قدوس کی سرکشی ونافرمانی سے بازآجاؤاوربادشاہ ارض وسماء کواپنے سے روٹھاہوانہ چھوڑدوجس کے روٹھے کے بعدزمین وآسمان کی کوئی ہستی بھی تم سے من نہیں سکتی ۔ اس سے بغاوت نہ کرو‘بلکہ دنیاکی تمام طاقتوں سے باغی ہوکرصرف اسی کے وفادارہوجاؤ۔ پھرکوئی ہے جواس آوازپرکان دھرے۔  فھل من مستمع

 آسمانی بادشاہت کے ملائکہ مکرمین اروقدوسیان مقربین اپنے نورانی پروں کوپھیلائے ہوئے اس راست بازروح کوڈھونڈرہے ہیں جومخلوق کی بادشاہت چھوڑکرخالق کی حکومت میں بسناچاہتی ہے ۔ کون ہے جو اس پاک مسکن کاطالب ہواورپاکبازروحوں کی طرح پکاراُٹھے۔

  اے ہمارے حقیقی بادشاہ ہم نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جوتیری بادشاہت کی آوازدے رہاتھا۔ اے ہمارے ایک ہی بادشاہ !ہم نے تیری ہی بادشاہت قبول کی ۔ پس ہمارے گناہ معاف کر۔ ہمارے عیوب پرپردہ ڈال۔ اپنے نیک بندوں کی معیت میں ہماراخاتمہ کر۔ تونے اپنے منادی کرنے والے کی زبانی ہم سے جووعدے کئے تھے وہ پورے کر۔اوراپنی آخری بادشاہت میں ہمیں ذلیل وخوارنہ کرکہ تواپنے وعدوں سے کبھی نہیں ٹلتا۔(194 – 193  :  3)

تحریر: مولانا ابوالکلام آزادؒ…  ترتیب: عبدالعزیز  

تبصرے بند ہیں۔