حکیم اجمل خاں کی طبی خدمات

ڈاکٹر فیاض احمد (علیگ)

ہندوستان میں طب یونانی کی ترقی اور اس کی نشاۃ ثانیہ در حقیقت خاندان شریفی (دہلی) اور خاندان عزیزی(لکھنئو) کی رہین منت ہے۔ حکیم اجمل خاں اول الذکر خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ اجمل خاں کی ہمہ جہت شخصیت مختلف علوم و فنون، نیز اعلی انسانی اقدار کا مجموعہ تھی۔ وہ ایک ماہر طبیب ہونے کے علاوہ عالم دین، جادو بیان خطیب، بے مثال ادیب و شاعر اورمقبول عام سیاسی رہنما تھے۔ ہندوستان کی آزادی میں حکیم اجمل خاں کی سیاسی خدمات اور قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا نام صف اول کے مجاہدین آزادی میں آتا ہے۔ عوام الناس میں اجمل خاں کی عزت و مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو ان کو ’’بے تاج بادشاہ ‘‘کہا کرتے تھے جبکہ ان کی پر کشش شخصیت کی بناء پر سابق وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگ نے ان کو ’’میگنیٹ آف انڈیا‘‘ (ہندوستان کا مقناطیس) کا خطاب دیا تھا اور ان کے اوصاف و محاسن کی وجہ سے کراچی کارپوریشن کے چیر مین نے ان کو ’’افسانوی شخصیت قرار دیا تھا۔ (۱)

سیاسی میدان میں شہرت و مقبولیت کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی دنیا میں بھی اجمل خاں کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ اردو فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا، چنانچہ اکثر کتب و رسائل عربی زبان میں ہی تحریر کئے ہیں (جن کی تفصیل آگے آئے گی)،شاعری کا اعلی ذوق رکھتے تھے اور شیداؔ تخلص کے ساتھ اردو وفارسی دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’دیوان شیدا‘‘ کے  نام سے ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب (سابق صدر جمہوریہ ہند)کی زیر نگرانی مطبع شرکت کاویانی، برلن (جرمنی) سے نہایت اہتمام کے ساتھ ۱۳۴۳؁ھ؍۱۹۲۶؁ء میں شائع ہوا تھا۔ جس کا انتساب خواجہ عبدالمجید (جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پہلے شیخ الجامعہ) اور اساتذہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام کیا گیا تھا، اور اس کا مقدمہ قاضی عبدالغفار کے قلم کا رہین منت تھا۔ (۲)

اجمل خاں کے اسی اعلی ادبی ذوق،علمی لیاقت اور سیاسی مقبولیت کی وجہ سے ہی علامہ شبلی نعمانی کہا تھا کہ:۔

’’میری نظر میں ہندوستان بھر میں حکیم اجمل خاں سے زیادہ کوئی شخص قابل عزت نہیں، کیونکہ علم و امارت کا ان سے بہتر پیکر ملنا مشکل ہے۔ ‘‘ (۳)

        حکیم اجمل خاں عالم دین، ادیب، شاعر اور سیاسی رہنما ہونے کے باوجود بنیادی طور پر ایک ماہر طبیب اور انسانیت کے مسیحا تھے اور یہ فن ان کو اپنے اجداد سے وراثت میں ملا تھا، حکمت ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خاندان اور خاص طور سے حکیم اجمل خاں کی دلچسپی و قربانیوں کے طفیل ہی آج ہندوستان میں طب یونانی کا وجود باقی ہے۔ اجمل خاں کی مسیحائی اور حذاقت فن کا شہرہ مغربی ممالک تک تھا۔ ۱۹۱۱ ؁ء میں انگلینڈ و فرانس کے سفر کے دوران آپ نے مغربی ممالک کے مایہ ناز ڈاکٹروں سے طب یونانی کا لوہا منوایا تھا، چنانچہ فرانس کے سینیئر سرجن کی ایک لاعلاج مریضہ آپ کے علاج سے ہی شفا یاب ہوئی تھی۔ اسی طرح انگلینڈ میں ڈاکٹر انصاری کے توسط سے آپ کی ملاقات وہاں کے سینیئر سرجن ڈاکٹر اسلیلے بائیڈ  سے ہوئی،اور وہاں بھی اجمل خاں نے بائیڈ کی ایک تشخیص کو غلط قرار دیا اور آپریشن کے بعد واقعی بائیڈ کی تشخیص غلط اور حکیم اجمل خاں کی تشخیص بالکل تیر بہدف ثابت ہوئی اور بائیڈ کو اجمل خاں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا، چنانچہ بائیڈ نے بڑی فراخدلی و خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی بیوی (جو خود ایک زنانہ اسپتال کی سینیئر سرجن تھیں )سے اجمل خاں کا تعارف کراتے ہوئے اپنی شکست کا اعتراف کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ:

’’ ڈاکٹر انصاری کے جن ہم وطن نے مجھے سرجیکل کشتی میں شکست دی ہے، وہ یہ صاحب ہیں ‘‘ (۴)

مذکورہ دونوں واقعات اجمل خاں کی حکمت و تشخیص کا بین ثبوت ہیں۔ ان  دوواقعات کو تمام تذکرہ نویسوں نے نقل کیا ہے۔ ان دونوں واقعات کے بعدیوروپی ممالک میں حکیم اجمل خاں  کی فنی حذاقت کے ساتھ ساتھ طب یونانی کی جس انداز سے پذیرائی ہوئی، وہ قابل رشک ہے۔ ملاحظہ ہو ـ:

’’وہ پہلے ہندوستانی ہیں جن کا بحیثیت اس کے کہ وہ ہندوستان کے طبیب اعظم ہیں، یوروپ میں جا بجا خیر مقدم ہوا، اور انہوں نے نہ صرف  رسمی ملاقاتوں  بلکہ طبی مشوروں سے جا بجا یوروپ والوں پر طب اسلامی کی قدر و وسعت کا حال آئینہ کیا۔ وہ پہلے فاضل طبیب ہندوستانی ہیں جن کویوروپ میں اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ بڑے بڑے امراء ان سے ملاقات کرنے ان کی فروگاہ آتے رہے۔ صدہا لوگوں سے ان کی ملاقاتیں اور گفتگوئیں ہوئیں۔ حکومت نے ان کو اعزاز بخشا اوران کی شہرتیں بلاد مغرب میں نئے ساز و سامان کے ساتھ ہوتی رہیں ‘‘۔ (۵)

اجمل خاں کی طبی خدمات کے اعتراف میں انگریز حکومت نے  ۱۹۰۸ء؁ میں ان کے خاندانی خطاب ’’حاذق الملک‘‘ اور تمغہ ’’قیصر ہندسے سرفراز کیا تھا، مگر اجمل خاں نے ۱۹۲۰ء؁ میں جلیانوالہ باغ کے خونی حادثہ  (۶) سے متاثر ہو کر انگریزی حکومت کے خلاف غم و غصہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطاب اور تمغہ دونوں یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ’’ؑعطائے تو بہ لقائے تو‘‘ (۷)

اجمل خاں کے اس جذبہ ایثار و قربانی کی قدر کرتے ہوئے قوم و ملت نے انہیں ’’مسیح الملک‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا جو ان کے نام کا جزء لا ینفک بن کر رہ گیا اور تا عمر انہوں نے اس خطاب کی عظمت وحرمت کو برقرار رکھا۔

مسیح الملک حکیم اجمل خاں ۱۷ شوال ۱۲۸۴؁ھ؍ ۱۱ فروری ۱۸۶۴؁ء میں شریف منزل (دہلی) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مولوی صائم علی سے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی اور حکیم دائم علی کے قول  کے مطابق تین سال میں حکیم اجمل خاں نے پورا قرآن حفظ کر لیا تھا  اور بقول حکیم جمیل الدین (یہ بھی ان کے استاد تھے)اس وقت ان کی عمر پندرہ سولہ برس تھی۔ (۸)

حفظ قرآن کے بعددیگر علوم کی طرف متوجہ ہوئے، چنانچہ صرف و نحو،پیر جی صدیق احمد دہلوی سے، منطق و فلسفہ مولوی عبدالرشید رامپوری و شمس العلماء مولوی عبد الحق حقانی(مولف تفسیر حقانی) سے، عربی ادب مولوی محمد طیب رامپوری سے پڑھا، جبکہ دیگر علوم مرزا عبداللہ بیگ و حکیم مولوی جمیل الدین و دیگر اساتذہ سے پڑھے، خوش نویسی میں خلیفہ امیر محمد پنجہ کش و مولوی رضی الدین سے مہارت حاصل کی۔ (۹)

طب کی تعلیم والد محترم حکیم محمود خاں اعظم وبڑے بھائیوں (حکیم عبدالمجید خاں و حکیم واصل خاں ) کے پاس بیٹھ کر حاصل کی۔ مطب حکیم محمود خاں اعظم و حاذق الملک اول (حکیم عبدالمجید خاں )کے پاس بیٹھ کر سیکھا کرتے تھے مگر معالجات میں زیادہ تر حکیم واصل خاں کی رائے سے متاثر ہوا کرتے تھے، جبکہ قانون کے زیادہ تر اسباق حکیم غلام رضا خاں سے پڑھے۔ اس طرح اٹھارہ یا انیس سال کی عمر میں ۱۹۸۳ء؁ میں تقریبا تمام متداول علوم میں مہارت کے ساتھ تعلیم سے فارغ ہو چکے تھے۔ بقول قاضی عبدالغفار :۔

’’اٹھارہ یا انیس سال کی عمر تک وہ منطق، طبیعیات،ادب، فلسفہ،حدیث، فقہ اور تفسیر کی تمام منزلوں سے گزر چکے تھے۔ ‘‘ (۱۰)

۱۸۸۳ء؁ میں تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ طبیہ کے قیام کے ابتدائی زمانے سے ہی اس میں دلچسپی لینی شروع کی اور وہیں سے  درس و تدریس کا آغاز کیا۔ حکیم عبدالحمید خاں کے انتقال کے بعدمدرسہ طبیہ کی نگرانی و انتظامی امور کی ذمہ داری بھی اجمل خاں کے سر آ گئی۔ اس طرح اجمل خاں نے عملی زندگی میں قدم رکھا اور تا دم آخر طب یونانی کے فروغ و ترقی اور اس کے مسائل کو حل کرنے میں لگے رہے۔

روز اول سے اب تک طب یونانی میں سب سے اہم مسئلہ مفرد ادویہ کی فراہمی، ان کی شناخت اور معیاری مرکبات کی تیاری کارہا ہے۔ اس کے پیش نظر حکیم اجمل خاں نے اپنے بھائی حکیم واصل خاں کے اشتراک سے ۱۹۰۴ء؁ میں یونانی اینڈ آیورویدک میڈیسنز کمپنی قائم کی، جس کا مقصد مفرد دواوں کی فراہمی و مرکبات کی تیاری کے ساتھ مدرسہ طبیہ کے لئے رقم کی فراہمی تھی۔ آمدنی میں مزید اضافہ اور دواوں کی اصلاح و بہتری کے مقصد سے ہی حکیم اجمل خاں نے ۱۹۰۷ء؁ میں ’’ہندوستانی دواخانہ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور شرکاء کو آمادہ کیا کہ وہ اپنے حصص مدرسہ طبیہ کے حق میں فروخت کر دیں، اس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ بقول حسان نگرامی :

                ’’اس دواخانے کی آمدنی حکیم صاحب کے سامنے ہی دو لاکھ سے زائد ہو گئی تھی‘‘ (۱۱)

۱۹۰۶ء؁ میں حکیم اجمل خاں نے ’’مدرسہ دائیاں ‘‘کی تحریک چلائی، جس کے تحت  ’’مدرسہ طبیہ زنانہ ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا افتتاح ۱۳ ؍جنوری ۱۹۰۹ء؁  کو پنجاب کے لیفتیننٹ گورنر کی اہلیہ سر لوئی ڈین نے کیا (۱۲)۔ یہ مدرسہ ابتداء میں  پرانی دہلی کے ایک محلہ ’’چوڑی والان‘‘ میں ڈپٹی سلطان کی متصل عمارت میں قائم ہوا، بعد میں اسے قرول باغ طبیہ کالج میں منتقل کر دیا گیا۔

۱۹۱۰ء؁ میں حکیم اجمل خاں نے ’’انجمن طبیہ ‘‘ قائم کی اور اہل خیر حضرات کے تعاون سے قرول باغ میں ایک بڑا رقبہ حاصل کر کے طبیہ کالج کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ سیاسی مصلحت  اور دور اندیشی کے پیش نظر اجمل خاں نے اس کا سنگ بنیاد گورنر لارڈ ہارڈنگ سے ۲۹؍مارچ ۱۹۱۶ء؁ کو رکھوایااور اس کا افتتاح ۱۳؍فروری ۱۹۲۱ء؁ کو گاندھی جی سے کرایا۔ (۱۳) اس شاندار عمارت میں ایک اندازے کے مطابق اس وقت ۶۷۱۴۰۵ روپئے صرف ہوئے تھے۔ (۱۴)

۱۹۲۶ء؁ میں اجمل خاں نے طبیہ کالج میں ریسرچ کا شعبہ قائم کیا، (۱۵)جس کا سربراہ انھوں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو بنایا جنھوں نے شعبہ کیمیا میں جرمنی سے ریسرچ کی تھی۔ ڈاکٹر سلیم الزماں کے مطابق شعبہ ریسرچ میں اجمل خاں تین شعبے کھولنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

۱۔ شعبہ کیمیا  ۲۔ شعبہ صیدلہ  ۳۔ شعبہ نباتات

ڈاکٹر صدیقی سے اجمل خاں نے سب سے پہلے ’’اسرول ‘‘ نامی دوا پر ریسرچ کروائی  اور جدید سائنس کے اصولوں کی بنیاد پر اس کے جوہر فعال، اجملین، اجملیسین، اجملینین و سرپینٹین وغیرہ کو الگ کروایا۔ تجزیہ و تجربہ کے بعد اس کے جو نتائج سامنے آئے،اسے دیکھ کر مغربی دنیا کے لوگ بھی حیران رہ گئے۔ اس کے مثبت اثرات و فوائد کو دیکھتے ہوئے تحقیقی رجحان رکھنے والے مغربی خوشہ چیں اسے بھی حسب عادت لے اڑے اور تنگ نظر اطباء لکیر پیٹتے رہ گئے۔ اسی طرح بہت سے آلات جراحی اور ادویہ ہیں جنھیں مغربی خوشہ چیں اپنا کر مستفید ہو رہے ہیں، اور جھوٹی انا کے شکار تنگ نظر اطباء کو آج بھی صرف اس بات پر فخر ہے کہ فلاں ایجاد یا تحقیق تو فلا ں حکیم کی مرہون منت ہے۔ ـبقول شاعر

وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

طبی دنیا میں اجمل خاں کا سب سے بڑا کارنامہ طب یونانی و دیسی طب کو برطانوی استبداد،ا ور حکومت کی سازشوں سے بچانا ہے۔ اس وقت برطانوی حکومت نے میڈیکل رجسٹریشن ایکٹ کے ذریعے طب یونانی ودیسی طب کوختم کرنے کی زبردست سازش کی تھی اور طب مشرق کو ایکٹ سے خارج کر دیا تھا۔ اجمل خاں واحد شخص تھے،جنہوں نے اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کیااور ملک گیر پیمانے پر تحریک چلائی۔ طبیبوں اور ویدوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے۱۹۰۶ء؁ میں آل ایڈیا ویدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس قائم کی،جس کا پہلا اجلاس بقول سید ظل الرحمن،۲۶ ؍۲۷ نومبر۱۹۱۰ء؁کو دہلی میں منعقد ہوا۔ (۱۶)

اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں کانفرنس کے اجلاس ہوتے رہے۔ اس مہم میں مزید جان ڈالنے کے لئے اجمل خاں نے اس وقت کی اہم علمی و سیاسی شخصیات کو بھی کانفرنس میں مدعو کیا۔ چنانچہ وسط مارچ ۱۹۱۷ء؁  میں منعقد ہونے والی کانفرنس کی صدارت پنڈت مدن موہن مالویہ نے کی اور ۲۴ مارچ ۱۹۱۷ء؁ کومدرسہ طبیہ کے سالانہ اجلاس کی صدارت سر سنکرن نائر نے کی جو اس وقت حکومت کی مجلس عاملہ کے رکن تھے۔ اسی پالیسی کے تحت ’’مدرسہ طبیہ زنانہ ‘‘کا افتتاح سر لوئی ڈین سے کرایا، جبکہ طبیہ کالج کا سنگ بنیاد لارڈ ہارڈنگ سے اور اس کا افتتاح گاندھی جی سے کرایا۔

بالآخر اجمل خاں کی طویل جد و جہد رنگ لائی اور ۱۹۲۶ء؁ میں حکومت کی طرف سے بورڈ آف انڈین میڈیسن ( BIMS) کا قیام عمل میں آیا، جس کے تحت حکو مت نے آیورویدک اسکول اور طبی کالج کھولنے کا فیصلہ کیا۔ آیورویدک اسکول کا قیام تو بنارس ہندو یونیورسٹی سے الحاق کے ساتھ ہو گیا لیکن طبیہ کالج کے جائے قیام کو لے کر دلی اور لکھنئو کے اطباء کے درمیان ان کے مزاج کے مطابق رسہ کشی شروع ہوئی، جبکہ کانفرنس کی رائے دونوں کے ما بین علی گڈھ کے حق میں تھی۔ اس سلسلہ میں تمام اطباء کا ایک عام اجلاس ۱۹۲۶ء؁ میں لکھنئو میں ہوا۔ دونوں گروہوں نے زبردست تقریریں کیں اور اپنے اپنے دلائل سے ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشس کی لیکن حکیم اجمل خاں نے کشادہ دلی و رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ :۔

’’میں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے دل میں کبھی لکھنئو اور دہلی کا سوال پیدا نہیں ہوا۔ میں کھلے طور پر اعتراف کرتا ہوں کہ لکھنئو کو طبی مرکز کے لحاظ سے دہلی پر ترجیح دیتا ہوں اور ذاتی طور پر اپنے دل میں لکھنئو کے لئے بڑی وقعت رکھتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسئلہ جائے قیام کالج کے متعلق مخالف و موافق تقریریں ہوئیں لیکن میں اس معاملہ میں بالکل علیحدہ و جانب دار ہوں۔ اگر کالج لکھنئو میں قائم ہو گا تو مجھے کوئی رنج نہ ہو گا اور اگر کانفرنس کی رائے کے مطابق علی گڈھ میں قائم ہو تو میں خوش ہوں گا‘‘ (۱۷)

کافی بحث ومباحثہ کے بعد بالآخر کانفرنس کی رائے منظور ہوئی اور فیصلہ علی گڈھ کے حق میں ہوا۔ اس متفقہ فیصلے کے بعد۱۹۲۷ء؁ میں حکیم اجمل خاں کی طبی خدمات کے اعتراف میں اسے ’’اجمل خاں طبیہ کالج ‘‘کے نام سے موسوم کیا گیا۔ (۱۸)اس کی پہلی تقرراتی کمیٹی میں حکیم اجمل خاں بذات خود موجود تھے۔ اس کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ صاحب ہوئے جن کی سرپرستی میں طبیہ کالج کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔

اجمل خاں طبیہ کالج کی کلاسز ابتداء میں سلطان جہا ں منزل میں ہوتی تھیں جبکہ صاحب باغ (سلیمان ہال) کے ایک حصہ (موجودہ پروووسٹ آفس سلیمان ہال)میں مطب و اسپتال قائم ہوا۔ طلبہ کی رہائش کے لئے کچی بیرک (موریسن کورٹ )کو منتخب کیا گیا۔ ۱۹۳۶ء؁ میں طلبہ کو کچی بیرک سے حبیب باغ منتقل کر دیا گیا اور اسے طبیہ ہوسٹل کہا جانے لگا، جس پر ادھر کئی دہائیوں  سے این سی سی (NCC )کا قبضہ ہے۔

۱۹۳۷ء؁ میں طبیہ کالج کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد ہز ہائی نس ولی عہد معظم جاہ اور ملکہ نیلوفر نے اس مقام پر رکھا جہاں اس وقت یونیورسٹی کا COACHING & GUIDENCE CELLقائم ہے۔ یہاں پہلے قدیم عمارت تھی، جس میں دواخانہ قائم تھا۔

۱۹۴۰ء؁ میں طبیہ کالج کا الحاق مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ سے ہوا اور حکومت اتر پردیش کی طرف سے اسپتال کے اخراجات کے لئے پچاس ہزار روپئے سالانہ کا عطیہ منظور ہوا۔

۱۹۴۴ء؁ میں طبیہ کالج و ہاسپٹل کی موجودہ شاندار عمارت مکمل ہوئی اور طبیہ کالج و ہاسپٹل کو سلطان جہاں منزل و صاحب باغ سے یہاں منتقل کر دیا گیا، جہاں آج بھی دونوں قائم ہیں۔ (۱۹)

حکیم اجمل خاں کی زندگی میں آل انڈیا طبی کانفرنس کا آخری اجلاس اپریل ۱۹۲۷ء؁ میں رامپور میں منعقد ہوا، اس اجلاس میں انہوں نے کہا تھا کہ :

’’اپنی زندگی کا بہترین حصہ فن طب کی خدمت میں صرف کر کے اس کی بنیاد مضبوط کر دی  ہے، اب آئندہ آپ کا یہ فرض ہے کہ اس مستحکم بنیاد پر عمارت بنا کر ہمیشہ  کے لئے اس کو قائم رکھیں اور اس کی ترقی کے ذرائع پیدا کریں۔ (آخر میں یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ) مجھ کو اپنی زندگی کی اتنی امید بھی نہیں ہے کہ آئندہ کانفرنس میں شرکت کر سکوں ‘‘ (۲۰)

ان کی یہ پیشیں گوئی سچ ثابت ہوئی اور رامپور میں ہی دل کا دوسرا دورہ پڑا اور ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۲۷ء؁ کو صبح سوا دوبجے انسانیت کا یہ مسیحا  ’’مسیح الملک‘‘عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)

اجمل خاں نے طبی، سماجی، انتظامی و تحریکی خدمات کے ساتھ ساتھ بیش بہا علمی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ تحقیقی رجحان کے باعث انہوں نے سائنس کی جدید ایجادات سے مستفید ہونے  اور انہیں داخل نصاب کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا اور قدیم طریقہ علاج پر مصر رہے تو یہ چیز ہماری طب کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی، چنانچہ طبی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ:۔

’’اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ زمانہـ موجودہ میں جو ترقی ہو رہی ہے اس کے پہلو بہ پہلو ہم اپنی طب کو ترقی دیں۔ ایک زمانہ گذر گیا، دنیا کے علوم کہیں سے کہیں پہنچ گئے لیکن ہم نے ذرہ برابر ترقی نہیں کی۔ ترقی کرنا تو درکنار ہم الٹے رو بہ تنزل ہیں۔ ‘‘ (۲۱)

حکیم اجمل خاں کا مذکورہ تبصرہ اگر چہ آج سے تقریبا ایک صدی قبل کا ہے لیکن افسوس کہ طب یونانی کی موجودہ صورت حال پر آج بھی صادق آتا ہے۔ نام نہاد اطبا ء نے ترقی ضرور کی لیکن فن طب مستقل رو بہ زوال ہے۔ طبیہ کالجز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود عملی میدان میں ماہر فن اطباء نا پید ہوتے جا رہے ہیں، آخر کیوں ؟طب یونانی کے ٹھیکیداروں اور ارباب حل و عقد کو اس کے اسباب و عوامل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئیے۔

حکیم اجمل خاں نے قدیم طب کو جدید سائنس سے ہم آہنگ کرنے کی حتی الامکان کوشس کی، چنانچہ ۱۹۲۰ء؁ میں کالج کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے درج ذیل مضامین کو جدید سائنس کی روشنی میں پڑھانے کی پر زور سفارش کی تھی۔ (۲۲)

1-Anatomy

2-Physiology

3-Pathology

4-Radiology

5-Pediatrics

6-Gynaecology & Obstetrics

7-Infectious Disease

8-Skin Disease

9-Pharmacology

10-Meusium & Lab etc.

قدیم نصاب کو جدید سائنس کی روشنی میں مرتب کرنے اور قدیم وجدید کو ہم آہنگ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ قدیم طبی مضامین کو جدید سائنس کی روشنی میں پرکھ کر از سر نو مرتب کیا جائے۔ یہ مرحلہ انتہائی دشوار گزار تھا۔ اس سلسلہ میں حکیم اجمل خاں نے ۱۹۲۶ء؁ میں آیورویدک اینڈ طبی کالج کی ریسرچ کمیٹی کے سامنے اپنی اسکیم پیش کی اور کمیٹی کے متفقہ فیصلہ کے بعدایک ’’اصلاح نصاب کمیٹی‘‘تشکیل کی گئی۔ اس کمیٹی کے ممبران میں حکیم اجمل خاں کے علاوہ حکیم فضل الرحمن، حکیم کبیر الدین (بہاری)، دکتور سید ناصر عباس، حکیم عبدالحفیظ اور حکیم محمد الیاس وغیرہ تھے۔ (۲۳)

اصلاح و تحقیق کے سلسلے میں اجمل خاں کے پیش نظر اسوہ و نمونہ کے ظور پر شیخ الرئیس بو علی سینا کا طریقہ کار اور ان کی شاہکار تصنیف ’’القانون‘‘تھی۔ اسی طرز پر کمیٹی نے قدیم طبی مضامین کو جدید سائنس کی روشنی میں مرتب کرنا شروع کیا۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ روزآنہ کسی ایک مضمون پر گھنٹوں بحث و مباحثہ ہوا کرتا، جس میں حکیم اجمل خاں بذات خود شریک ہوتے اور حاصل بحث کو نوٹ کر لیا جاتا۔ بقول حکیم کبیر الدین (بہاری)جو اس کمیٹی کے رکن تھے کہ اجمل خاں کی زندگی میں یہ کام ’’علامات‘‘ تک ہو چکا تھامگر حکیم اجمل خاں کی وفات کے بعد کمیٹی نے اس کام کو ختم کر دیا۔ حکیم اجمل خاں کی وفات کے بعد،ان کی خواہش کے مطابق، نتائج تحقیق کو حکیم محمد الیاس نے ’’قانون عصری‘‘کے نام سے مرتب کیا۔ بقول حکیم کبیرالدین(بہاری) کہ

’’یہ کتاب بیسویں صدی کی طبی تالیفات کی فہرست میں مشعل راہ کہلانے کی مستحق ہے۔ یہ نام ’’قانون عصری‘‘خود مسیح الملک کا تجویز فرمودہ۔ قانون عصری کا یہ حصہ تحقیقات کے کام کا ایک مختصر نمونہ ہے جو مسیح الملک مرحوم کے نصب العین کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ اگر اس اسلوب پرقانون عصری سرحد تکمیل تک پہنچ جاتا تو یہ عہد حاضر کا سب سے بڑا کارنامہ ہوتا ‘‘(۲۴)

        حکیم اجمل خاں کی وفات کے بعد یہ کام مکمل نہ ہو سکا، جو یقینا طب یونانی کا بہت بڑا خسارہ ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں۔ بہر کیف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکیم اجمل خاں کا بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے طب کو محلوں اور درباروں سے نکال کر عوام میں لا کھڑا کیا۔ امراء کے ساتھ ساتھ غرباء کا بھی خیال رکھا اور ہر ایک کی حسب استطاعت  نسخے تجویز کئے۔ اس طرح انہوں نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو فائدہ پہنچایا بلکہ طب کے ذخیرہ علم میں بھی خاطر خواہ اضافات ہوئے، چنانچہ گندھک کو بطور دوا سیال شکل میں سب سے پہلے حکیم اجمل خاں نے ہی تیار کیا اور اسے سیال کبریت کے نام سے روشناس کرایا۔ اسی طرح سیال فولاد و سیال کافور وغیرہ جیسے اہم سیالات بھی حکیم اجمل خاں کے تحقیقی و اختراعی ذہن کے مرہون منت ہیں۔ حکیم اجمل خاں کی وفات کے بعدان کے نسخوں، علاج نیز افادات اجمل پر مشتمل درج ذیل کتب اب تک شائع ہو چکی ہیں، جن کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔

۱۔ حاذق۔ مرتب و ناشر،بیسویں صدی پبلی کیشنز،دہلی، ب ت

۲۔ حاذق۔ مرتب و ناشر، فردوس بکڈپو، حیدرآباد، ب ت

۳۔ کتاب النبض۔ مرتب و ناشر، بہار آفسیٹ پریس،دہلی،ب ت

۴۔ بیاض اجمل۔ مرتب و ناشر، اعجازپبلشنگ ہائوس،دہلی،۱۹۹۵ء؁

۵۔ بیاض مسیحا۔ مرتبہ، محمد حسن قرشی، اعجاز پبلشنگ ہائوس،دہلی،۱۹۹۶ء؁

۶۔ افادات مسیح الملک۔ مرتب و ناشر، نامعلوم۔ ب ت

حکیم اجمل خاں سیاسی و سماجی سرگرمیوں اور مطب کی مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف سے خصوصی شغف رکھتے تھے۔ شاگردوں کو بھی اس کی ہدایت کیا کرتے تھے  چنا نچہ اپنے شاگرد رشید حکیم کبیر الدین (بہاری) کو ان کی یہ ہدایت تھی کہ :۔

’’کسی دوسرے طبی شعبے کو اختیار کرنے کے بجائے تالیف و ترجمے کی خدمت انجام دیں ‘‘ (۲۵)

حکیم اجمل خاں کے اس شاگرد رشید نے اپنے استا د کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے خود کو تصنیف و تالیف میں منہمک کرنا زیادہ مناسب سمجھا، جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں کہ :

’’جب میں نے اپنا دور تعلیم ختم کر کے زندگی کے کسی مستقل میدان میں قدم رکھنے کا ارادہ کیا تو حضرت استاد مسیح الملک مرحوم نے بکمال شفقت مجھے ایماء فرمایا کہ کسی دوسرے طبی شعبہ کو اختیار کرنے کے بجاے تالیف و تراجم کی اہم خدمت میں اپنی زندگی کو مصروف کروں اور عہد حاضر کی ضرورت تعلیم و تعلم کے ایفاء میں مشغول ہو جائوں جو حالات موجودہ کے لحاظ سے طب کی ایک بڑی خدمت ہو گی۔ ‘‘(۲۶)

حکیم کبیر الدین اپنی ذاتی دلچسپی اور ذوق وشوق کی بناء پر استاد محترم کے مشورہ کو ان کا حکم سمجھتے ہوئے تمام عمر تصنیف و تالیف، خصوصا ترجمہ نگاری میں مصروف رہے۔ جیساکہ وہ خود لکھتے ہیں

’’اس مشعل ہدایت کی روشنی میں تائید ایزدی کے ساتھ اس دشوار گذار و پر خطر راستہ پر قدم رکھ کر عزم صمیم کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کو اس علمی خدمت میں مصروف کردینے کا تہیہ کر لیا جس پرزمانہ تلمذ سے آج تک گامزن ہوں ‘‘ (۲۷)

   اس طرح حکیم کبیرالدین نے ۸۲ سا ل کی عمر میں تقریبا ۸۷ کتب تصنیف و تالیف کیں جن میں زیادہ تعداد ان کے تراجم کی ہے۔ (۲۸)

بلا شبہ حکیم موصوف کی مذکورہ کتب و تراجم (ان کے معیار و میزان سے قطع نظر ) طب یونانی کی درسیات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور ہند و پاک کی طبی دنیا میں بے انتہا مقبول ہیں۔

طب یونانی کی درسیات کی تصنیف و تالیف کی غرض سے حکیم اجمل خاں نے ۱۹۱۴ء؁ میں ’’محکمہ تالیفات ‘‘ قائم کیا اور اس کی نگرانی بھی اپنے شاگرد مذکور کے ذمہ کی۔ بقول حکیم راجندر لال ورما، مسیح الملک کا یہ ارشاد تھا کہ

’’جدید تنظیم کے تحت ترجمہ و تالیف کا ایک شعبہ کھولا جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس شعبہ میں موٗلف اول کے طور پر کام کرو۔ ‘‘ (۲۹)

اس شعبہ تصنیف و تالیف سے حکیم کبیر الدین صاحب کی وابستگی کیونکر ہوئی ؟ اس سے قطع نظر، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے اس شعبہ سے وابستگی کے بعدپیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس وقت کے مروجہ نصاب کے مطابق تقریبا ہر موضوع پر درسی کتب کی تالیف میں اہم اور بنیادی کردا ر ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف عربی و فارسی درسیات کو اردو میں منتقل کیا بلکہ طب جدید سے استفادہ کرتے ہوئے جدید موضوعات کو بھی یونانی ادب میں اس طرح شامل کیا کہ دونوں میں تفریق ناممکن ہو گئی، خاص طو ر سے طب جدید کی عام فہم انگریزی اصطلاحات کو اردو کے نام پر عربی و فارسی اور بسا اوقات بالکل ٹھیٹھ بھاشا میں منتقل کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کے ذہن رسا نے جو کارنامے انجام دئے ہیں وہ انہیں کا حصہ ہیں۔ بہر کیف۔

حکیم اجمل خاں اپنے رفقاء اور شاگردوں کو تحقیق و تصنیف کی طرف راغب کرنے کے ساتھ ہی بذات خود بھی نہ صرف تحقیق و تصنیف میں مشغول رہتے بلکہ اپنے نتائج تحقیق کو مضامین و رسائل کی شکل میں شائع کیا کرتے تھے۔ عربی،فارسی اور اردو تینوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے مگر عربی سے زیادہ رغبت رکھتے تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی زیادہ تر تصنیفات عربی زبان میں ملتی ہیں جو کہ حسب ذیل ہیں ـ۔

        ۱۔ القول المرغوب فی الماء المشروب

        ۲۔ التحفۃ الحامدیہ فی الصناعۃ التکلیسیہ

        ۳۔ البیان الحسن بشرح المعجون المسمی باکسیر البدن

        ۴۔ اوراق مزھرۃ مثمرۃ

        ۵۔ خمس مسائل

        ۶۔ الساعاتیۃ

        ۷۔ الوجیزۃ

مذکورہ مقالات کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے ان کا سلیس اردو میں ترجمہ کر کے ’’رسائل مسیح الملک‘‘ کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ (۳۰)

۸۔ مقدمۃ اللغات الطبیہ

اس اہم لغت کو بھی ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے ’’طبی لغات نویسی کے مبادیات‘‘کے عنوان سے اردو میں منتقل کر دیا ہے۔ یہ تمام تراجم  ’’اجملیات ‘‘ کی فہرست میں قابل قدر اضافہ ہیں جن کا سہرا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کے سر جاتا ہے۔

حکیم اجمل خاں نے ۱۸۹۵ء؁ میں جبکہ ہندوستان میں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت طاعون پر ایک تفصیلی رسالہ ’’رسالہ طاعون ‘‘کے نام سے تحریر کیا تھا جس میں طاعون کے اسباب و علامات نیز علاج کے ساتھ ساتھ طاعون کی تاریخ کا بھی تفصیلی و تحقیقی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ رسالہ اردو زبان میں لکھا گیا تھا۔

اجمل خاں کی بہت سی تصنیفات  زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکیں جو یقینا طب یونانی کا نا قابل تلافی نقصان ہے۔ چند غیر مطبوعہ تصانیف، حکیم سید ظل الرحمن کے مطابق حسب ذیل ہیں :۔

        ۱۔ رسالہ فی ترکیب الادویہ و استخراج درجاتہا

        ۲۔ المحاکمۃ بین القرشی و العلامہ

        ۳۔ حاشیہ شرح اسباب

        ۴۔ اللغۃ الطبیہ (۳۱)

یکم جون ۱۹۰۳ء؁ کو حکیم اجمل خاں نے مدرسہ طبیہ کا ایک ماہانہ رسالہ ’’مجلہ طبیہ ‘‘کا اجراء کیا جو حکیم عبد الرزاق کی زیر ادارت شائع ہوتا تھا۔ اس رسالہ میں مدرسہ کی خبروں کے علاوہ طبی مضامین شائع ہوتے تھے۔ اجمل خاں کے مضامین بھی وقتا فوقتا اس رسالہ میں شائع ہوتے تھے۔ حکیم اجمل خاں کا مشہو ر رسالہ ’’القول المرغو ب فی الماء المشروب‘‘کا اردو ترجمہ مع تلخیص،سب سے پہلے اسی مجلہ میں شائع ہوا تھا، جس میں حکیم اجمل خاں نے پانی کے تمام پہلوئوں پر سیر حاصل تحقیقی وتنقیدی گفتگو کی تھی۔ یہ مقالہ کئی نمبروں میں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح دکن ریویو میں بھی حکیم اجمل خاں کے رشحات قلم شائع ہوا کرتے تھے۔ شیخ الرئیس بو علی سینا پر بھی حکیم اجمل خاں کے مقالات دکن ریویو میں شائع ہوئے تھے،جن سے حکیم اجمل خاں کی شیخ الرئیس سے دلچسپی و تاثر کا اندازہ ہو تا ہے۔

خاندان شریفی کے قدیم اخبار ’’اکمل الاخبار ‘‘میں بھی حکیم اجمل خاں کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے مگر ان کی نوعیت سیاسی ہو ا کرتی تھی،جن سے حکیم اجمل خاں کے کانگریسی رجحان اور کانگریس نوازی کا پتہ چلتا ہے۔ ’’رفیق الاخبار‘‘ دہلی میں حکیم اجمل خاں کی کئی طبی نگارشات شائع ہوئی ہیں، ان میں حکیم اجمل خاں کی سب سے اہم تحریر ’’ہماری طب کیونکر زندہ رہ سکتی ہے ؟‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، جو در اصل حکیم اجمل خاں کاوہ تفصیلی خطبہ ہے جو آپ نے آل انڈیا آیورویدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس کے ایک اجلاس میں دیا تھا۔ یہ پورا خطبہ یکم دسمبر  ۱۹۱۱ء؁  کے ’’رفیق الاطباء‘‘ میں حرف بہ حرف شائع ہوا تھا۔ (۳۲)

اس تاریخی خطبہ میں حکیم اجمل خاں نے طب کے زوال کے اسباب، ویدوں و طبیبوں کے غیر تحقیقی رجحان، ان کی انانیت کی حد تک بڑھی ہوئی خود اعتمادی، اندھی تقلید،جدید سائنس کو نظر انداز کرتے ہوئے قدیم و غیر سائنسی طریقہ علاج پر اصرار، نصاب تعلیم و طریقہ تعلیم کی خرابیوں وغیرہ جیسے تمام عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے اطباء کو دعوت فکر دی ہے۔ دور حاضر کے تناظر میں اس خطبہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ کاش کہ دور حاضر کے اطباء، آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے عہدیداران، ریسرچ کونسل کے ذمہ داران، طب یونانی کے ارباب حل و عقداور تمام طبیہ کالجوں کے ٹھیکیدار اس خطبہ کو پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے  اپنی اپنی روش پر غور کرتے اور اجمل خاں کی تجاویز و منصوبوں پر عمل درآمد کر لیتے تو شاید نہیں بلکہ یقینا طب یونانی کے مردہ جسم میں کچھ جان آ جاتی اور یہ طب جدید کے شانہ بہ شانہ چل سکتی مگر افسوس کہ ایسا ہونا ممکن نہیں، کیونکہ ایسا کرنا تنگ نظر و مفاد پرست اطباء کے اصول کے خلاف ہے۔ اس لئے یونان کی یہ شہزادی (طب یونانی) یوں  ہی سر عام لٹتی رہے گی اور اس کے نام کی روٹی کھانے والے سرکاری کرسیوں پر بیٹھے تیسری جنس کی طرح تالیاں بجاتے رہیں گے۔ کاش کہ پھر کوئی اجمل خاں سا عاشق پیدا ہو جاتا جو اس شہزادی کی بکھری ہوئی زلفوں کو سنوار سکتا۔ کاش

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مراجع

۱۔ حکیم مختار اصلاحی۔ اطباء اور ان کی مسیحائی،اصلاحی دواخانہ،بمبئی،۰۷، ۱۹۸۷ٖ ؁ء۔ ص۹۳۔

۲۔ یہ دیوان اب نایاب ہو چکا ہے، صرف تذکروں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ تلاش بسیار کے باوجود اس کا کوئی نسخہ مجھے نہ مل سکا۔     کوثر چاندپوری کے حوالہ سے میں نے نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ’’حکیم اجمل خاں ‘‘ از کوثر چاندپوری، مطبوعہ شمیم بکڈپو،لکھنئو    ،۱۹۷۳؁ء، ص۱۷۶۔

۳۔ حکیم حافظ سید حبیب الرحمن۔ ہندوستان کے مشہور اطباء، ترقی اردو بیورو،دہلی،۱۹۸۸ ؁ء،ص۱۰۴۔

۴۔ حکیم مختاراصلاحی۔ اطباء اور ان کی مسیحائی، محولہ بالا، ص۱۰۱۔

۵۔ حکیم جمیل خاں۔ سیرت اجمل،ہندوستانی دواخانہ،دہلی، ب ت،ص، ۵۷

۶۔ اس خونی حادثہ میں سر پھرے انگریز آفیسر جنرل ڈائر نے ۳۰ سیکنڈ میں تقریبا پانچ سو انسانوں خصوصا مسلمانوں کو گھروں سے    کھینچ کر قتل کروا دیا تھا اورتقریبا پندرہ سو لوگوں کو زخمی کیا تھا

۷۔ محمد ابرا رحسین  فاروقی۔ مآثر المسیح، نامی پریس، لکھنئو،۱۹۲۶ء؁، ص ۲۴

۸۔ قاضی عبد الغفار۔ حیات اجمل، انجمن ترقی اردو، علی گڈھ،۱۹۵۰ ؁ء،ص ۲۳

۹۔ حکیم محمد حسن قرشی۔ تذکرہ مسیح الملک،لاہور، ۱۹۲۸ء؁،ص ۱۶

۱۰۔ قاضی عبدالغفار۔ حیات اجمل، محولہ بالا، ص،۳۲

۱۱۔ حکیم محمد حسان نگرامی۔ تاریخ طب۔ ترقی اردو بیورو،دہلی۱۹۸۹ء؁،ص ۴۳۸۔

۱۲۔ حکیم رشید احمد خاں۔ حیات اجمل، جید پریس، دہلی،۱۹۳۷ء؁،ص ۷۱۔

۱۳۔ حکیم کوثر چاند پوری۔ حکیم اجمل خاں، شمیم بک ڈپو،لکھنئو،۱۹۷۳ء؁، ص ۱۵۵۔

۱۴۔ حکیم عبدالرزاق۔ حکیم  اجمل خاں : دی ورسیٹائل جینیس، سی سی آر یو ایم،۱۹۸۷ء؁،  ص ۲۰

۱۵۔ محمد زبیر صدیقی۔ اسٹڈیز ان عربک اینڈ پرشین میڈیکل لیٹریچر۔ کلکتہ یونیورسٹی پریس،۹۱۵۹ء؁،ص ۵۰،۵۱

۱۶۔ سید ظل الرحمن۔ دلی اور طب یونانی،اردو اکادمی،دلی۱۹۹۵ء؁ ، ص،۲۴۶

۱۷۔ قاضی عبد الغفار۔ حیات اجمل، محولہ بالا، ص۳۹۶

۱۸۔ معالج۔ میگزین،شعبہ معالجات، اجمل خاں طبیہ کالج، علی گڈھ، ۱۹۸۸ء؁، ص، ۲

۱۹۔ طبیہ کالج سے متعلق تاریخی معلومات کے لئے میں استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر ایف،ایس شیرانی صاحب کا ممنون و مشکور ہوں۔

۲۰۔ حکیم کوثر چاند پوری۔ حکیم اجمل خاں۔ محولہ بالا، ص، ۶۷۔ ۱۶۶

۲۱۔ قاضی عبد الغفار۔ حکیم اجمل خاں، محولہ بالا، ص۳۲۳

۲۲۔ حکیم عبدالرزاق۔ محولہ بالا، ص۳۰۔ ۲۷

۲۳۔ حکیم رضی الاسلام ندوی۔ کلیات طب کے مصادر و مراجع۔ علی گڈھ،۱۹۹۵ء؁۔ ص،۱۵۹

۲۴۔ حکیم کبیر الدین۔ دیباچہ کتاب الادویہ، اول۔ ص، ۱۴، بحوالہ حکیم رضی الاسلام ندوی

۲۵۔ حکیم رضی الاسلام ندوی۔ کلیات طب کے مصادر و مراجع۔ ص ۱۶۷

۲۶۔ حکیم کبیر الدین۔ کلیات ادویہ، مطبوعہ دفتر المسیح، قرول باغ، نئی دہلی،ب ت۔ دیباچہ ص۲

۲۷۔ ایضا۔ ص،۴

۲۸۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو راقم السطور کا مقالہ ’’حکیم کبیر الدین۔ ۔ ۔ ۔ بحیثیت مترجم‘‘ جو ۱۹؍۲۰ فروری ۲۰۱۶ء؁ میں جامعہ ملیہ   اسلامیہ میں منعقد دو روزہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان ’’اردو طبی تراجم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معیار و میزان ‘‘ میں پڑھا گیا تھا اور اس سیمینار کے مجموعہ   مقالات میں شامل ہے، جسے اصلاحی ہیلتھ کیئر فاونڈیشن نے ۲۰۱۷ء؁ میں شائع کیا ہے۔

۲۹۔ حکیم راجندر لال ورما۔ بحوالہ ’’حکیم محمد کبیر الدین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حیات اور کارنامے‘‘۔ سی سی آر یو ایم،نئی دہلی،جنوری ۱۹۹۵ء؁، ص۴۰۔ ۳۹

۳۰۔ تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو ’’رسائل مسیح الملک‘‘(اردو) مترجمہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، مطبوعہ علی گڈھ، ۱۹۹۱ء؁

۳۱۔ حکیم رضی الاسلام ندوی۔ رسائل مسیح الملک، محولہ بالا۔ ص۱۶

۳۲۔ اس خطبہ کی تلخیص ملاحظہ ہو۔ ’’ آئینہ طب‘‘۱۹۹۰ء؁  (اجمل خاں طبیہ کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کی سالانہ میگزین)۔ ص ۴۳ تا ۵۵

تبصرے بند ہیں۔