حیرت انگیز قرآن- The Amazing Quran  قسط (3)

از: پروفیسر گیری ملر        ترجمہ: ذکی الرحمن فلاحی مدنی

حالیہ دنوں میں مسلمانوں نے اس طرف خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ چند سال قبل سعودی حکومت نے اپنے دارالسلطنت ریاض میں متعدد متخصص اہلِ علم کو اس بات کی دعوت دی کہ وہ رحمِ مادری میں بچے کے ارتقائی مراحل کا جائزہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کی روشنی میں لیں۔اس علمی اجتماع کو منعقد کرنے میں سعودی اربابِ حکومت کے پیشِ نظر مشہور قرآنی حکم: ( فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ) (الانبیاء:7)تھا،یعنی ’’تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔‘‘
حاضرین میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ علم الجنین (Embryology)کے صدر پروفیسر کیتھ مور(Keith Moore) بھی تھے۔ پروفیسر موصوف نے اس موضوع پر درسی کتابیں تیار کی ہیں اور ان کا شمار اس موضوع پر دنیا کے معدودے چند نمایاں اہلِ علم میں ہوتا ہے۔ سعودی حکومت نے ان سے مطالبہ کیاتھا کہ وہ اپنے اختصاص کی روشنی میں اس موضوع پر قرآن کے بیان کردہ حقائق کا جائزہ لیں اور ان کی صحت وعدمِ صحت پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کریں۔ریاض میں قیام کے دوران ان کو تمام مطلوبہ آلات ووسائلبہم پہونچائے گئے اور ہر قسم کی مدد فراہم کی گئی۔ یقین جانئے کہ وہ اپنے اس تجربہ سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ بعد میں انہوں نے اپنی تصنیف کردہ کتابوں میں کئی بڑی تبدیلیاں کیں۔انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’ہم ولادت سے پہلے‘(Before We are Born)کے دوسرے ایڈیشن میں اضافہ کرتے ہوئے، علم الجنین (Embryology)پر قرآنی تفصیلات کو بڑے مدلل انداز میں درست قرار دیا۔ اس سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ہر اعتبار سے زمانہ سے سابق ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے پیروکاروں کا علم اس کے نہ ماننے والوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
میری خوش نصیبی تھی کہ میں نے پروفیسر کے ٹی وی پروگرام کو مسلسل دیکھا ۔اس پروگرام میں پروفیسر نے اپنے تجربات کے نتائج پیش کئے تھے۔ ان دنوں اس پروگرام کا بڑا چرچہ تھا، پروفیسر موصوف نے اپنے پروگرام میں چند سلائیڈ تصویریں (Illustrated Slides)بھی دکھائی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ رحمِ مادری میں جنین کے نشونما کے بارے میں قرآن نے جو معلومات ذکر کی ہیں وہ اب سے تیس سال پہلے تک بھی علمی دنیا میں غیر معروف تھیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ بذاتِ خود قرآن کی بیان کردہ معلومات میں ایک چیز سے آج تک قطعی ناواقف تھے۔وہ چیز یہ ہے کہ جنین (Embryo)اپنے ارتقائی مراحل میں سے ایک مرحلہ میں’علقہ‘(جونک،Leech) سے مشابہت رکھتا ہے،اور یہ تشبیہ صد فیصد مطابقِ واقعہ ہے۔
اپنی کتاب میں اس واقعہ میں انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درحقیقت میں نے کبھی اس سے پہلے جونک کو نہیں دیکھا تھا۔ اس قرآنی تشبیہ کی سچائی جاننے کے لیے میں نے ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ حیوانیات (Zoology)سے رجوع کیا اور وہاں سے جونک کی فوٹو حاصل کی۔اپنے تقابلی مطالعہ کو مبنی بر صحت پاکر انہوں نے اس موضوع پر تحریر کی ہوئی اپنی درسی کتابوں میں جنین اور جونک کی تصاویر کو شائع کیا۔اس کے بعد پروفیسر موصوف نے ایک کتاب ’علم الاجنہ السریری(Clinical Embryology ) کے نام سے تحریر کی اور اس میں قرآن کی بتائی ہوئی معلومات کی روشنی میں اپنے علمی نتائج پیش کئے۔
اس کتاب کی اشاعت سے کینڈا (Canada)کے علمی حلقوں میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ کینڈا کیطول وعرض میں اخبارات کی سرخیاں اس کتاب کی نذر ہو گئیں۔ بعض اخبارات کا رویہ قدرے مضحکانہ بھی تھا، مثلاً ایک اخبار کی سرخی یہ تھی:حیرت انگیز چیزیں ایک قدیم کتاب میں پائی گئیں‘‘(Surprising things found in Ancient Book)۔
اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ ترعام لوگوں کو واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں تھا۔ ایک پریس رپورٹر نے پروفیسر کیتھ مور سے سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا:کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ قدیم عربوں کو ان معلومات کا علم رہا ہو اور قرآن کے مؤلف نے ان کو کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہو؟ہو سکتا ہے کہ عربوں نے ماضی میں عملِ جراحت کی ابتدائی شکل ایجاد کر لی ہو، اور چند عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر اس قسم کی چیزیں جان لی ہوں؟سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر موصوف نے کہا تھا :آپ یہاں ایک اہم نکتہ فراموش کر جا رہے ہیں، یعنی جنین کے ابتدائی مراحل کی تصاویر جو آج ہر جگہ آسانی سے مل جاتی ہیں ان کو صرف اور صرف خورد بین (Microscope)کے ذریعہ سے لیا جا سکتا ہے ۔اور خورد بین کب وجود میں آئی یہ آپ کی جنرل نالج میں ہوگا ہی۔
یہ کہنا فضول ہے کہ چودہ سو سال پہلے کسی نے جنین کے ارتقائی مراحل جاننے کی کوشش کی تھی، کیونکہ اس زمانے میں لوگ اس کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ قرآن میں مذکورہ جنین کے ابتدائی مراحل کی معلومات کو مجرد آنکھ سے دیکھنا ممکن ہی نہیں۔ جنین اپنے ابتدائی مراحل میں اس درجہ چھوٹا ہوتا ہے کہ خورد بین کی مدد لیے بغیر اس کا مشاہدہ از قبیلِ مستحیل ہے، اور خورد بین کا یہ آلہ محض دو صدی قبل تک دنیا میں ناپید تھا۔
فاضل پروفیسر نے ایک طرح سے معاندین کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا:آپ کی رو سے اس قسم کے احتمال کی گنجائش البتہ نکل آتی ہے کہ اب سے چودہ سو سال پہلے کسی شخص نے بڑی رازداری کے ساتھ ایک نہایت ترقی یافتہ خورد بین ایجاد کی اور اس کے ذریعہ سے اس نوعیت کے بالکل درست تجربات کئے۔ اور پھر مکمل خاموشی کے ساتھ ان تجربات کے علمی نتائج کی محمدﷺ کو تعلیم دے کر اس بات پر مطمئن کرلیا کہ وہ ان معلومات کو اپنی کتاب قرآن میں ذکر فرمائیں۔یہ سب کر چکنے کے بعد اس نے اپنی ایجاد کردہ خوردبین کو تباہ کر دیا تاکہ رہتی دنیا تک یہ راز پوشیدہ ہی رہے، کیا آپ اس قسم کے واہیات نظریہ کی تصدیق کریں گے؟اور اگر آپ اس لغو نظریہ کی تائید پر مصر ہیں تو براہِ کرم اس کی موافقت میں کچھ علمی وعقلی دلائل بھی فراہم کر دیجئے گا۔
یہ سوال پوچھے جانے پر کہ اب آپ اس کی کیا توجیہ کریں گے، انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا:اس کی توجیہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ قرآن اللہ رب العالمین کا نازل کردہ کلام ہے۔
مذکورہ بالا مثال میں قرآن کے علمی بیانات کی تصدیق کرنے والا شخص اگرچہ غیر مسلم تھا، لیکن اس بات سے کوئی اصولی فرق نہیں پڑتا۔ اگر کوئی عام آدمی اس نوعیت کے قرآنی بیانات کی وکالت کرے تو ضروری نہیں کہ ہم اس کی بات قبول کر لیں۔ لیکن اصحابِ علم کو حاصل اعتبار واحترام کے پیشِ نظر اگر کوئی متبحر عالم، جس کی اپنے اختصاص پر قدرت اور کمال مسلّم ومقبول ہو، اس بات کا دعوی کرے کہ میرے متعلقہ موضوع پر وارد قرآنی بیانات صد فیصد درست ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے نتائج کو صحیح نہ مانیں۔
پروفیسر کیتھ مور کے تجربہ سے سبق لیتے ہوئے ان کے ایک ہم پیشہ ساتھی نے بھی اس قسم کوشش کی۔پروفیسر مارشل جونسن(Marshal Johnson)جو ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ علم طبقات الارض((Geologyمیں استاد تھے، انہوں نے اپنے مسلم دوستوں سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ ان کے میدانِ اختصاص سے متعلق قرآن میں وارد معلومات کو اکٹھا کرکے انہیں دیں۔اور پھر ان کے علمی نتائج نے دوسری بار لوگوں کو حیرت واستعجاب میں مبتلا کر دیاکیونکہ اس موضوع پر بھی قرآنی بیانات ،جدید سائنسی انکشافات سے مکمل ہم آہنگ ہیں۔مختلف علمی موضوعات پر قرآنی بیانات کی رنگا رنگی کو دیکھتے ہوئے ہر علمی موضوع پر بحث وتحقیق کرنا ایک مستقل کتاب کا طالب ہے اور اس کے لیے طویل مدت بھی درکار ہوگی جو اس مختصر سے مقالہ میں ممکن نہیں۔
مذکورہ بالا تحقیقی بیانات کے تذکرہ سے میرا مقصود یہ کہنا ہے کہ قرآن کریم مختلف موضوعات پر اپنی رائے بڑے نپے تلے لیکن واضح اسلوب میں پیش کر دیتا ہے اور اپنے قاری کو وصیت کرتا ہے کہ وہ انموضوعات کے متخصص علماء و ماہرین کی تحقیقات کی روشنی میں قرآنی بیانات کو جانچے اور اہلِ علم وفضل سے مراجعت ومشاورت کے بعد ہی قرآن کی حقانیت پر صاد کرے۔ بلا شبہ قرآن کااپنایا ہوا یہ جرأت مندانہ موقف ہمیں دنیا کی کسی دوسری کتاب میں نہیں ملتا۔ اس سے زیادہ حیرتناک بات یہ ہے کہ قرآن جہاں کہیں بھی اپنی معلومات پیش کرتا ہے وہ بیشتر اوقات اپنے قاری سے تاکید کرتا جاتا ہے کہ ان باتوں کو اس سے پہلے تم نہیں جانتے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں آج کوئی ایسی مقدس کتاب موجودنہیں ہے جواس طرح کی صراحت کرتی ہو۔تمام ادیان ومذاہب کی موجودہ مذہبی کتابیں بلا شک وشبہ ہمیں بہت سی نئی معلومات فراہم کرتی ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ ان معلومات کے مصدر ومرجع کا تذکرہ بھی کردیتی ہیں۔
مثال کے طور پر عہد نامہ قدیم (Old Testament)میں بہت سی ایسی تاریخی معلومات ملتی ہیں کہ فلاں بادشاہ کا زمانہ یہ تھا اور اس نے فلاں بادشاہ سے جنگ کی تھی، یافلاں فلاں بادشاہ کے اتنے اور اتنے بیٹے تھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ یہ شرط بھی ملتی ہے کہ اگر تمہیں مزید معلومات درکار ہیں تو فلاں فلاں کتاب سے رجوع کرو، یعنی سابق الذکر معلومات کا مصدر کچھ کتابیں ہیں جن کی طرف بہ وقتِ ضرورت رجوع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قرآن کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے، وہ اپنے پڑھنے والے کو معلومات فراہم کرتے ہوئے صراحت کر دیتا ہے کہ یہ باتیں اپنے آپ میں تمہارے لیے نئی ہیں اور کسی خارجی مصدر سے نہیں لی گئی ہیں۔ اور قرآن کی یہ نصیحت تو برقراررہتی ہی ہے کہ اس دعوی پر شک کرنے والے اگر چاہیں تو بحث وتحقیق کر کے اس کو غلط ثابت کر نے کی کوشش کر لیں ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چودہ صدیوں کے طویل عرصہ میں کوئی ایک غیر مسلم بھی اس دعوی کو چیلینج نہیں کر سکا۔ اور حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ کفار مکہ جو اسلام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے تھے، وہ بھی قرآن کے اس دعوی کی تردید نہ کر سکے۔ کوئی ایک متنفس بھی یہ ادعاء نہ کر سکا کہ قرآن کی مبینہ معلومات سیکنڈ ہینڈ ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ محمدﷺ نے ان کو کہاں سے چرایا ہے۔
اس قسم کا دعوی نہ کئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ واقعتاًیہ حقائق اپنے آپ میں جدید تھے۔چنانچہ بحث وجستجو پر آمادہ کرنے والی قرآنی ہدایت کی پیروی میں خلیفۂ راشد ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ایک وفد کو سدِ(دیوار)ذوالقرنین کی تلاش میں بھیجا۔ قرآنی وحی سے پہلے عربوں نے اس دیوار کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا، لیکن چونکہ قرآن نے اس کی علامات وقرائن واضح کر دیے تھے اس لیے انہوں نے اس دیوار کو ڈھونڈھ نکالا۔ اور در حقیقت یہ دیوار آج بھی موجودہ روس کے ڈربنڈ ((Durbendنامی مقام پر واقع ہے۔
یہاں ایک بات ذہن نشیں کر لیجئے کہ اگرچہ قرآن میں متعد دچیزیں بڑی صحت اوردقت رسی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر وہ کتاب جو چیزوں کو درستگی اور باریکی سے بیان کر دے وہ منزل من اللہ قرار پائے گی۔صحیح بات یہ ہے کہ صحت وباریکی، وحیِ الٰہی ہونے کی شرطوں میں سے صرف ایک شرط ہے۔ مثال کے طور پر ٹیلیفون ڈائیریکٹری اپنی معلومات میں صحیح ودقیق ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ منزل من اللہ ہے۔ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ قرآنی معلومات کے اصل منبع ومصدر کو دلائل وبراہین کے ذریعہ ثابت کیا جائے، اور یہ ذمہ داری قرآن کے مخاطب کی ہے۔لہٰذا صورتِ مسئلہ کچھ اس طرح بنتی ہے کہ قرآن اپنے آپ میں ایک اٹل سچائی ہے، اب جس کو اس دعوی میں تردد ہو وہ قطعی دلیلوں سے اس کی تردید کر کے دکھائے۔اور خود قرآن اس قسم کی بحث وتمحیص کی ہمت افزائی کرتا ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔