حیرت انگیز قرآن- The Amazing Quran قسط (5)

از: پروفیسر گیری ملر        ترجمہ: ذکی الرحمن فلاحی مدنی

یہاں میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، اسلامی تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کو بھی یہ بات پتہ ہوگی کہ آنحضرت ﷺکا ایک چچا ابولہب دینِ اسلام کی دعوت کا کٹر مخالف تھا۔ اسلام سے اس کی دشمنی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملعون راستہ چلتے آپﷺ کا پیچھا کیا کرتا تھا، جہاں آپﷺرک کر کسی کو وعظ وتبلیغ فرماتے یہ فوراً جا پہونچتا اور بڑی شدومد کی ساتھ آپﷺ کی تردید کرنے لگتا۔ الغرض زندگی کے ہرہر شعبہ میں محمد ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کے برعکس کرنا اس کی زندگی کا شیوہ تھا۔ اسی ابو لہب کی موت سے تقریباً دس سال پہلے آنحضرتﷺ پر ایک چھوٹی سورت نازل ہوئی۔ یہ مکمل سورت ابو لہب سے متعلق تھی اور یہی اس کا نام بھی پڑا۔
اس سورت نے پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ ابو لہب کو جہنمی یا دوزخی قرار دیاہے۔دوسرے الفاظ میں معلوم تاریخ میں پہلی بار کسی انسان کو مدتِ امتحان ختم ہونے سے پہلے ہی نتیجہ بتا دیا گیا۔قرآن جو کلامِ ربانی ہے اس میں اگر کسی کے بارے میں صراحت کے ساتھ اہلِ جہنم ہونے کا تذکرہ آجائے تو اس کا سیدھا مفہوم یہ ہوگا کہ اب ایسے شخص کو قبولِ ایمان کی توفیق نہیں ہوگی اور ہمیشہ ہمیش کے لیے وہ ملعون ومردودہی رہے گا۔
ابو لہب اس سورت کے نزول کے بعد دس سال تک زندہ رہتا ہے اور اس طویل مدت میں وہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتا۔اس قدر اسلام دشمنی کے باوجود اس سے کبھی یہ نہ بن سکا کہ وہ بر سرِ عام یہ اعلان کر دیتا:لوگو!ہم سب نے سنا ہے کہ محمدﷺ کی وحی کے دعوے کے مطابق ،میں کبھی اسلام قبول نہیں کروں گااور میرا انجام دوزخ مقدر ہو چکا ہے، لیکن دیکھو میں آج اسلام میں داخلہ کا اعلان کرتا ہوں اورجان لو کہ میرا مسلمان ہو جانا محمد ﷺکے لائے ہوئے قرآن کی روشنی میں ناممکن تھا، اب تم لوگ فیصلہکرو کہ ایسی خدائی وحی کے بارے میں کیا کہوگے‘‘……….؟
وہ اگر ایسا اعلان کر دیتا تو یقین مانیے نہ صرف قرآن کی صداقت مشکوک ہو جاتی ،بلکہ اسلام کی بیخ کنی کا اس کا دیرینہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جاتا۔لیکن وہ ایسا نہ کر سکا، حالانکہ اس کی شر پسند طبیعت سے ایسے ردِ عمل کی بجا طور پر امیدکی جا سکتی ہے ، لیکن ایسا نہیں ہوتا، پورے دس سال گزر جاتے ہیں اور وہ اپنی طبعی موت مر کر ہمیشہ کے لیے واصلِ جہنم ہو جاتا ہے لیکن اس پوری مدت میں اس کے اندر قبولِ اسلام کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہوپاتا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محمدﷺ اللہ کے سچے رسول نہیں تھے تو انہیں یقینی طور پر کیسے معلوم ہوا کہ ابو لہب قرآن کی پیشین گوئی کو حرف بہ حرف درست قرار دیتے ہوئے بالآخر کفر پر ہی مرے گا؟محمد ﷺکو یہ خود اعتمادی کہاں سے حاصل ہو گئی کہ وہ اپنے مشن کے کٹر مخالف کو کامل دس سال اس بات کا موقعہ دیے رہیں کہ اگر وہ چاہے تو ان کے دعوئ نبوت کو جھوٹا ثابت کر دکھائے؟ اس کا بس یہی جواب ہے کہ آپﷺ فی الواقع اللہ کے سچے رسول تھے، انسان وحیِ الٰہی کے فیضان سے سرشار ہوکر ہی اس قسم کا پرخطر چیلینج پیش کر پاتا ہے۔
محمد ﷺکااپنی صداقت پر یقین اور اس کی تبعیت میں اللہ کی نصرت وحفاظت پر اعتماد کس بلندی کو پہونچا ہوا تھا، ہم اس کی دوسری مثال پیش کرتے ہیں۔ ہجرت کے موقعہ پر آپﷺ نے مکہ کو خیر آباد کہہ کر حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مشہور پہاڑ’’ ثور‘‘ کے ایک غار میں پناہ لی تھی۔ کفارِ مکہ آپﷺ کے خون کے پیاسے بن کر پوری طاقت کے ساتھ آپﷺ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ایسی ہولناک صورتِ حالات میں یہ ہوتا ہے کہ تلاش کرنے والی ایک پارٹی قدموں کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے ٹھیک اسی غار کے بالمقابل پہونچ جاتی ہے جس میں آپﷺ پوشیدہ تھے۔ بس لمحہ کی دیر تھی کہ کوئی اس غار میں جھانک کر دیکھ لے اور اسلامی تاریخ کوئی دوسرا رخ اختیار کر نے پر مجبور ہو جاتی۔
حضرت ابو بکرؓ بھی حالات کی سنگینی سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یقین جانیے اگر محمدﷺاپنیدعوے میں جھوٹے ہوتے اور آپ کی رسالت محض ایک دھوکہ ہوتی، تو ایسی صورت میں آپ کا فطری ردِ عمل یہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھی سے کہتے:اے ابوبکرؓ! ذرا غار کے پچھلی طرف جاکر تو دیکھو، کیا وہاں کوئی جائے فرار ہے؟یا فرماتے:ابو بکرؓ ! وہاں کونے میں دبک کے بیٹھ جاؤ اور بالکل آواز نہ کرو۔‘‘
آپﷺنے ایسا کچھ نہیں فرمایا، اس وقت آپﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے جو کہا وہ آپؐ کے توکل علی اللہ کا غماز اور اپنی نبوت کی سچائی پر کامل یقین کا مظہر تھا۔ قرآن نے اس وقت کی نازک صورتِ حال میں آپ کا ردِ عمل (Reaction)اس طرح ذکر کیا ہے:
( ثَانِیَ اثْنَیْْنِ إِذْ ہُمَا فِیْ الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّہَ مَعَنَا)(التوبہ: 40) ’’جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
اب مذکورہ بالا مثالوں کی روشنی میں فیصلہ کیجیے کہ کیا کسی جھوٹے ،دھوکہ باز مدعیِ نبوت کو ایسی پرخطر صورت حال میں اپنے جھوٹ پر اس درجہ اعتماد ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یقین وتوکل کی یہ کیفیت کسی کاذب فریبی کو میسر آ ہی نہیں سکتی۔ جیسا کہ پیچھے ذکر آیا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو وحیِ الٰہی نہ ماننے والے اپنے آپ کو ایک خالی دائرہ (Vacant Circle )میں گھرا پاتے ہیں اور ان سے کوئی معقول جواب نہیں بن پاتا۔ کبھی وہ محمد ﷺ کو ایک دیوانہ شخص گردانتے ہیں اور کبھی جھوٹا دھوکہ باز۔ ان کی عقل میں اتنی موٹی بات بھی نہیں آتی کہ دیوانگی اور مکاری متضاد صفات ہیں اور کسی ایک آدمی میں ان کے اجتماع کی بات کہنا بذاتِ خود پاگل پن کی علامت ہے۔
سات سال پہلے کی بات ہے، میرے ایک وزیر دوست میرے گھر تشریف لائے تھے۔ ہم جس کمرے میں گفتگو کر رہے تھے، وہاں قریب میز پر قرآن مجید رکھا ہوا تھا،جس کے بارے میں وزیر موصوف کوعلم نہیں تھا۔ دورانِ گفتگو میں نے قرآن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا :’’میں اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘ وزیر صاحب نے از راہِ تفنن کتاب پر ایک اچٹتی سی نظر ڈال کر فرمایا:’’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اگر یہ کتاببائبل نہیں ہے تو ضرور بالضرور کسی انسان کی تصنیف کردہ ہے۔‘‘
میں نے ان کے دعوے کے جواب میں صرف اتنا کہا :’’چلیے میں آپ سے اس کتاب میں موجود چند باتوں کا تذکرہ کرتا ہوں۔‘‘ اور تین یا چار منٹوں میں، میں نے ان کے سامنے قرآن کے چند علمی حقائق پیش کر دیے۔ان چند منٹوں نے اس کتاب کے تعلق سے ان کے نظریہ میں بڑی تبدیلی پیدا کر دی، انہوں نے کہا :’’آپ کی بات سچ ہے، اس کتاب کو کسی انسان نے نہیں بلکہ شیطان نے لکھا ہے‘‘۔
میری نظر میں اس قسم کا احمقانہ لیکن افسوسناک موقف اختیار کرنے کی کچھ وجوہات ہیں:اولاً یہ ایک جلدی میں تراشا ہوا سستا عذر ہے، اس کے ذریعہ کسی بھی لاجواب کر دینے والی سچویشن سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
بائبل کے عہد نامہ جدید میں بھی اسی قسم کا ایک واقعہ درج ہے۔ قصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اپنی معجزاتی قوت سے ایک مردہ آدمی کو زندہ کر دیتے ہیں۔ اس آدمی کی موت چار دن پہلے واقع ہو چکی تھی، لیکن حضرت عیسی کے ’قم‘کہہ دینے بھر سے وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔اس حیرتناک منظر کا مشاہدہ بعض یہودی بھی کر رہے تھے، اس واضح معجزہ کو سر کی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان کا جو تبصرہ تھا وہ قابلِ عبرت ہے۔ انہوں نے کہا:’’یا تو یہ شخص(حضرت عیسیٰؑ )بذاتِ خود شیطان ہے یا شیطان اس کی مدد کر رہا ہے۔‘‘
اس قصہ کو دنیا بھر کے عیسائی کلیساؤں میں بار بار ذکر کیا جاتا ہے اور عیسائی حضرات موٹے موٹے اشک بہاتے ہوئے اس قصہ کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں :’’اگر ہم اس جگہ ہوتے تو یہودیوں کی سی حماقت ہم سے سرزد نہ ہوئی ہوتی۔‘‘ لیکن رونے کا مقام ہے کہ بعینہ یہی لوگ تین چار منٹ میں چند قرآنی علمی معجزات کو جان لینے کے بعد وہی طرزِ عمل اختیار کر تے ہیں جو ان کے نبی کے تعلق سے یہودیوں نے کیا تھا، یعنی یہ شیطان کا کام ہے یا اس کتاب کی تیاری میں شیطان کا تعاون شامل رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ حضرات جب مباحثہ کے دوران کسی تنگ زاویے میں پھنس جاتے ہیں اور کوئی معقول ومقبول جواب انہیں سجھائی نہیں دیتاتوپھرانکی جانب سے اسی طرح کے سستے اور ریڈیمیڈ اعذار کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اس قسم کے کمزور فکری موقف کی دوسری مثال ہمیں کفارِ مکہ کے یہاں بھی دکھائی پڑتی ہے۔ اسلامی دعوت کے سامنے علمی وعقلی سطحوں پر ہزیمت اٹھانے کے بعد انہوں نے بھی اسی نوعیت کے عذر تراشنے شروع کر دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ شیطان ہی ہے جو محمدﷺ کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے، لیکن قرآن کریم نے اس طرح کی ساری افواہوں، عذر تراشیوں اور الزامات کی پر زور تردید کی ہے۔ اس سلسلے کی ایک خاص آیت یہ ہے:
(وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْْطَانٍ رَجِیْمٍ * فَأَیْْنَ تَذْہَبُونَ * إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْنَ)(التکویر: 25 ۔27) ’’یہ کسی شیطانِ مردود کا قول نہیں ہے، پھر تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو؟ یہ تو سارے جہاں والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔‘‘
اور اس طریقے سے قرآن نے، ان خیالی مفروضات کی قلعی کھولی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں بیشمار ایسے دلائل وشواہد موجود ہیں جو اس مفروضے کی ،پوری وضاحت کے ساتھ تردید کرتے ہیں۔ مثلاً قرآن کی چھبیسویں سورت میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
(وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیَاطِیْنُ *وَمَا یَنبَغِیْ لَہُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُونَ* إِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ )(الشعراء :210۔212) ’’اس (کتابِ مبین) کو شیاطین لے کر نہیں اترے ہیں، نہ یہ کام ان کو سجتا ہے، اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں، وہ تو اس کی سماعت تک سے دور رکھے گئے ہیں۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ یہ تعلیم دی جاتی ہے:
(فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّہِ مِنَ الشَّیْْطَانِ الرَّجِیْم)(النحل 98) ’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘
اب ان آیات پر غور کر کے بتایا جائے کہ کیا شیطان اس طرح کی کتاب خود تیار کر سکتا ہے؟کیا شیطان اتنا ہی سادہ لوح ہے کہ وہ اپنے قارئین سے التماس کرے گا کہ دیکھو میری کتاب پڑھنے سے پہلے تم اللہ سے اس بات کی دعا ضرور کرو کہ وہ میرے کید وشر سے تمہاری حفاظت فرمائے۔ اس طرح کی حرکت آخریدرجہ کی خود فریبی وحماقت ہے جس کی توقع انسان سے تو کی جا سکتی ہے مگر شیطان سے نہیں۔
مسئلہ کا دوسرا رخ یہ ہو سکتا ہے کہ شاید شیطان ہی نے انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس قسم کی ہدایت شامل کر دی ہے، تاکہ سادہ لوح سامعین اس پر فریب نصیحت کے بعد اس کی کتاب کے دجل وفریب کا آسانی کے ساتھ شکار ہوتے رہیں۔لیکن یہاں پر ایک انتہائی خطرناک سوال رونما ہو جاتا ہے کہ کیاحکمتِ الٰہی کے تحت اس قسم کی آخری درجہ کی فریب دہی کا اختیار شیطان کو تفویض کیا گیاہے …؟اور کیا اس طرح کے مفروضے کو مان لینے کے بعد کسی بھی موجودہ مذہب ودین کی صداقت شبہات کے دائرہ میں نہیں آجاتی ہے…؟
بہت سے عیسائی دینی رہنما اس بارے میں صراحت کے ساتھ توقف کا پہلو اختیار کر لیتے ہیں، جبکہ عیسائیوں کی اکثریت اس بات کا اعتقاد رکھتی ہے کہ شیطان ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اگر وہ کرنا بھی چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ اگر شیطان کو اس قسم کی دراندازیوں اور چالبازیوں پر قادر مان لیا جائے گا تو دنیا کے تمام ادیان ومذاہب کا نفسِ وجود بھی شک وانکار کے گھیرے میں آجاتا ہے۔ لیکن قرآن کے سلسلے میں اکثر غیر مسلم حضرات کا رویہ عملی طور پر یہی عکاسی کرتا ہے کہ ان کے نزدیک شیطان وہ سبھی کچھ کر سکتا ہے جوصرف اللہ کی قدرتِ کاملہ سے متوقع ہے۔کیونکہ یہ لوگ قرآنی حقائق کے تئیں اپنی حیرت وپسندیدگی کا اقرار کرنے کے باوجود، اس کو شیطانی کارنامہ قرار دینے پر مصر نظر آتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔