حیرت انگیز قرآن- The Amazing Quran قسط (7)

از: پروفیسر گیری ملر        ترجمہ: ذکی الرحمن فلاحی مدنی

جیسا کہ ہم پیچھے واضح کر آئے ہیں کہ قرآن کے متعلق تمام متبادل احتمالات ختم ہو جاتے ہیں، اور مزید کسی ایسے جدید احتمال کا امکان نہیں رہ جاتاجس کے رہتے قرآن کا انکار یا عدمِ قبول لازم آتا ہو۔ قرآن کریم اگر وحیِ ربانی نہیں ہے تو وہ ایک دھوکہ اور فریب ہے، اور اگر وہ دھوکہ اور فریب ہے تو ہر انسان کو حق پہونچتا ہے کہ وہ معلوم کرے کہ اس عظیم الشان فریب کا مصدر کیا ہے اورکس کس مقام پر یہ کتاب ہمیں دھوکہ دے رہی ہے…؟سچ بات تو یہ ہے کہ ان سوالات کے صحیح جوابوں پر ہی بڑی حد تک قرآن کی صداقت وصحت کا انحصار ہے اور ان سوالات پر چپ سادھ لینا اشارہ کرتا ہے کہ دعوے داروں کے پاس اپنے موقف کی تائید میں کچھ نہیں ہے۔
اتنا سب کچھ جان لینے کے علی الرغم اگر مخالفین کو اصرارہے کہ قرآن محض ایک فریب ہے، تو انہیں اس دعوے کے کچھ دلائل بھی پیش کرنے چاہئیں۔کیونکہ اب دلائل دینے کی ذمہ داری ان کی بنتی ہے اور یہ کوئی صحت مندانہ رویہ نہیں کہ کوئی بھی شخص بغیر کسی معقول دلیل وبرہان کے اپنے گھسے پٹے نظریے کو بس پیش کرتا رہے۔ میں ایسے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں :’’مجھے قرآن میں موجود کوئی ایک دھوکہ یا جھوٹ لا کردکھاؤ، اور اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کو مکر وفریب اور جھوٹ کہنا بند کرو۔‘‘
قرآن کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ غیر متوقع طور پر رونما ہونے والے حادثات کو بھی الگ انوکھے انداز میں پیش کرتا ہے۔یہ حوادث صرف زمانۂ ماضی پر موقوف نہیں ہوتے، بلکہ ان میں سے کچھ دراز ہوتے ہوتے ہمارے عہدسے بھی متعلق ہو جاتے ہیں۔
بالفاظِ دیگر قرآن اپنے منکرین کے لیے جس طرح کل ایک محیر العقول مسئلہ بنا ہوا تھا ویسے ہی آجبھی ایک نہ سلجھنے والی مشکل ہے۔ قرآن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی تائید میں دلائل کا اضافہ کرتا جاتا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ قرآن آج بھی وہ حیرت انگیز طاقت ہے جس کے ساتھ آسانی سے لوہا نہیں لیا جا سکتااور ہنستے کھیلتے جس کے چیلینج کا مقابلہ نا ممکن ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں، قرآن کی ایک آیت ہے:
(أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ) (الانبیاء:۳۰) ’’کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی، کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟‘‘
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آیت کریمہ میں مذکور بعینہ انہی معلومات کے نام نہاد انکشاف کرنے پر 1973 ؁ء میں انکارِ خدا کے قائل دو ملحدوں کو نوبل پرائز (Noble Prize)سے نوازا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن نے صدیوں پہلے اس کائنات کی ابتدا کے بارے میں وضاحت فرمادی تھی، لیکن انسانیت آج تک قرآن میں مذکور اس کائناتی سچائی کو ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
آج سے چودہ سو سال پہلے کے انسانی معاشرہ میں اس حقیقت کا اعلان آسان نہیں تھا کہ کائنات میں زندگی کا آغاز پانی میں ہوا تھا۔ آپ صرف تصور کر لیں کہ آپ چودہ سو سال پہلے کی دنیا میں کسی سنگلاخ صحرا کے وسط میں کھڑے ہیں اور اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی سے کہہ رہے ہیں:’’یہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو، یہ سب پانی سے تشکیل پایا ہے۔‘‘
مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایسا کہتے توکوئی آپ کی تصدیق نہیں کر تا۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے میں انسانیت کو خوردبین کے ایجاد ہونے کا انتظار کرنا پڑا، اور اس طویل انتظار کے بعدمعلوم ہوا کہ انسانی جسم جن خلیوں(Cells )سے تشکیل پاتاہے ان کی حیات کا بنیادی مادہ(Cytoplasm )پانی سے بنتا ہے، اورایک بار پھر واقعات نے ثابت کر دیا کہ گردشِ ایام کی رفتارقرآن کے پائے استقلال کو سرِ مو نہیں ہلا سکی۔
قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ قرآن کی صداقت کی بعض مثالیں وہ ہیں جو ماضی میں قرآن کے حق میں شہادت دے چکی ہیں اور کچھ ایسی شہادتیں بھی ہیں جو ماضی وحال دونوں کو اپنے حلقۂ اثر میں لیے ہوتی ہیں۔ قرآن کی صداقت جانچنے کے بعض پیمانے وہ تھے جو ماضی میں اللہ تعالیٰ کی عظمتِ کاملہ اور علمِ مطلق کی گواہی دے کر ناپید ہو گئے جبکہ دوسرے کچھ پیمانے ایسے ہیں جو آج بھی کسی ناقابلِ تسخیر چیلینج کی طرح ہمارے درمیان موجود ہیں۔
پہلی قسم کی مثال میں قرآن کی اس تصریح کو پیش کیا جا سکتا ہے جو ابولہب کے متعلق کی گئی تھی۔ قرآن کریم میں سورہ لہب میں دعوی کیا گیا تھا کہ اللہ عالم الغیب ہے اور وہ جانتا ہے کہ ابو لہب اپنی شرپسندی کو چھوڑ کر اسلام نہیں لا سکتا ہے، اس لیے اس کا دوزخی ہونا مقدر ہے۔ اس سورت کے ذریعہ جہاں اللہ کے علمِ مطلق اور اس کی لا محدود حکمت کا اثبات مقصود تھا، وہیں اس کے واسطے سے ابولہب اور اس کے ہم شاکلہ لوگوں کو ڈرانا بھی مقصود تھا۔ اور سب نے دیکھا کہ قرآن کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف صادق آئی۔
دوسری قسم کی مثال میں وہ آیات پیش کی جا سکتی ہیں جن میں مسلمانوں اور قومِ یہود کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ ان آیات میں قرآن کے پیشِ نظر یہ نہیں ہے کہ وہ دونوں دینوں کے متبعین کے باہمی تعلقات کو کم سے کمتر کرنا چاہتا ہے، بلکہ یہاں اس کا مقصدواقعی زندگی میں موجوددونوں جماعتوں کے اجتماعی تعلقات کا خلاصہ کرنا ہے۔ قرآن نے دو ٹوک انداز میں اس بات کی پیشین گوئی کی ہے کہ یہودیوں کے مقابلے عیسائی حضرات کا رویہ مسلمانوں کے تئیں قدرے بہتر ہوگا:
(لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی) (المائدہ:۸۲) ’’تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔‘‘
اس تصریح میں چھپی گہری حقیقت کا شعور اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس کے حقیقی معنی کا اس کی جملہ ابعاد(Dimensions)واطراف کے ساتھ ادراک کر سکیں ۔یہ درست ہے کہ تاریخ میں بہت ساریعیسائی اور یہودی حضرات نے اسلام قبول کیا ہے، لیکن اگر ہم اس موضوع کو ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہود اپنی کٹّر اسلام دشمنی میں زیادہ معروف رہے ہیں۔ میرے خیال میں بہت کم لوگوں کو احساس ہوگا کہ اس قسم کی آسمانی صراحت کتنے دوررس اندیشوں کو ہوا دے سکتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس آیت کے ذریعہ یہودیوں کے ہاتھ اسلام کے اِبطال اور قرآن کو غیر منزل من اللہ ثابت کرنے کا ایک سنہرا موقع میسر آگیا ہے۔ ان کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ وہ عالمی سطح پر اتفاق کر کے چند برسوں کے لیے مسلمانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کر لیں کیونکہ اس کے بعد وہ ببانگِ دہل اعلان کرسکتے ہیں :اب تمہارا مقدس قرآن تمہارے بہترین کرم فرماؤں کے بارے میں کیا کہتا ہے، وہ یہود ہیں کہ عیسائی؟دیکھو تمہارا قرآن ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے جبکہ ہمارا عمل تمہارے ساتھ اس کے برعکس ہے، کیا اب بھی یہ قرآن تمہارے نزدیک کلامِ الٰہی قرار پاتا ہے؟
جی ہاں !قومِ یہود کو قرآن کو غلط ثابت کرنے کے لیے صرف اتنا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن مسئلہ کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ وہ گزشتہ چودہ سو سال میں ایسا نہیں کر سکے ہیں، اور یہ حیرت انگیز عرض(Offer) آج بھی لامتناہی مدت صلاحیت(Validity) کے ساتھ موجود اور جاری ہے۔
اوپر جتنی بھی مثالیں اب تک اس مضمون میں ذکر ہوئی ہیں وہ دلائل کی معروضی( Subjective)قسم سے تعلق رکھتی ہیں، آئیے اب ہم موضوعی(Objective)انداز میں بھی قرآن کی حقیقت کا جائزہ لے کر دیکھیں۔
قارئین کے لیے یہ جاننا حیرت سے خالی نہ ہوگا کہ قرآن کی صداقت کو ریاضی (Mathematics)کے کسی فارمولے (Rule of Probability)سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔میں پہلے اس کی وضاحت کے لیے ایک مثال دیتا ہوں:اگر کسی شخص کے پاس کسی سوال کے جواب میں دو آپشن ہیں اور وہ اپنے اندازہ سے کسی ایک کواختیار کرتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ ہر دو بار میں ایک مرتبہ درست ہو، کیونکہ اس کے پاس دو احتمالات میں ایک قطعی طور پر درست ہوگا۔ لیکن اگر اس شخص کے سامنے ایسی دو صورتیں ہوں (یعنی وہ پہلی صورت میں بھی صحیح وغلط ہو سکتا ہو اور دوسری صورت میں بھی)اب وہ آنکھیں بند کرکے کوئی اندازہ لگانا چاہے تو اس کے اندازے کی درستی کا احتمال چار میں سے ایک ہوگا، کیونکہ اب اس کے سامنے چار میں سے تین احتمالات غلط اور ایک یقینی درست ہوگا۔ اور جیسے جیسے مسائل کی کثرت ہوتی جائے گی اندازے کی اصابت کا احتمال کم سے کم ہوتا جائے گا۔
اب ہم اس مثال کو قرآن پر آزماتے ہیں، سب سے پہلے ہمیں ان تمام موضوعات کی تعداد شمار کرنا ہوگی جن پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن نے اپنی کسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اور واضح رہے کہ ان موضوعات پر قرآن میں مذکورہ بیانات کی صحت کا احتمال، ریاضی کے سابق الذکر اصول کی روشنی میں بیحد کم ہے۔ بلکہ قرآن میں مذکور موضوعات کی تعداد اس قدر زیادہ اور متنوع ہے کہ عملی طور پر اس قاعدہ کی روشنی میں ان کی صحت کا احتمال صفر سے بھی کم بچتا ہے۔اب اگر قرآن کے سامنے لاکھوں احتمالات غلطی کے ہیں اور وہ مسلسل درست اندازہ دیے جا رہا ہے تو اس کا سیدھا نتیجہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب کے مؤلف نے اس کی تیاری میں ظن وتخمین کے بجائے قطعی حقائق سے استفادہ کیا ہے۔
میں یہاں تین مثالیں دوں گا اور ان شاء اللہ ان کی روشنی میں ثابت ہو جائے گا کہ قرآن اپنے درست بیانات کے ذریعہ کس طرح ممکنہ غلط احتمالات کی تردید کرتا آیا ہے۔ قرآن کی سولہویں سورت میں تذکرہ ملتا ہے کہ شہد کی مکھی اپنے چھتے کو چھوڑ کر غذا کی تلاش میں باہر نکلتی ہے:
(وَأَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتاً وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ*ثُمَّ کُلِیْ مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَخْرُجُ مِن بُطُونِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاء لِلنَّاسِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ)(النحل:۶۸۔۶۹) ’’اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چُوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔
اب کوئی شخص اندازے سے کہہ سکتا ہے:’’یہ جو مکھی تم لوگ اپنے آس پاس اڑتے دیکھتے ہو، ممکن ہے کہ وہ مذکر(Male) ہو اور ممکن ہے کہ وہ مؤنث (Female)ہو، میں اپنے اندازے سے کہتا ہوں کہ وہ مؤنث ہے۔‘‘ یقیناً اس صورت میں اس کے دو میں سے ایک احتمال قطعی درست ہوگا، یعنی یہ کہنے کا امکان رہتا ہے کہ اس جگہ قرآن غیر علمی بنیاد پر اندازے سے درست بات ذکر کر بیٹھا ہے۔ لیکن صورتِ واقعہ یہ ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت لوگوں کا اعتقاد اس کے بر عکس تھا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شہد کی مکھی کے مذکر ومؤنث میں کیا فرق ہوتا ہے؟بیحد باریک فروق تو کوئی اس میدان کامتخصص (Specialist)ہی بتا پائے گا، یہاں صرف اتنا جان لیجئے کہ حالیہ تحقیقات نے یہ انکشاف کیا ہے کہ مذکر مکھی کبھی غذا کی تلاش میں چھتے سے باہر نہیں آتی۔
ہینری چہارم (Henry The Fourth)پر لکھے گئے شیکسپئر (Shakespeare)کے ڈرامے میں بعض کردار، شہد کی مکھی پر اپنی قیمتی آراء کا اظہار کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں:دراصل یہ شہد کی مکھیاں افواج ہیں اور ان کا ایک بادشاہ ہوتا ہے‘‘۔ شیکسپئر کے عہد میں لوگوں کا یہ اندازہ تھا، یعنی یہ مکھیاں جو انسان اپنے آس پاس مشاہدہ کرتا ہے وہ مذکر مکھیوں کا لشکر ہے جو اپنے بادشاہ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ مگر جدید سائنس کی رو سے یہ نظریہ درست نہیں، حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ یہ سب مکھیاں مؤنث ہوتی ہیں اور ان کی زمامِ کار کسی ملکہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
بڑی بحث وتحقیق اور طول طویل ریسرچ کے بعد اس حقیقت کا ادراک عصرِ حاضر میں ہوا۔ لیکن قرآن کریم نے جس وقت اس حقیقت کا برملا اظہار کیا تھا اس وقت تخمیناتی قاعدہ کی رو سے اس کی صحت کا احتمال نصف فیصدی تھا، لیکن جدید علم نے قرآن کے بیان کو صد فیصد درست قرار دیا ہے۔
شہد کی مکھی کے علاوہ قرآن کریم نے سورج اورخلا میں اس کی حرکاتی کیفیت کے متعلق بھی تبصرہ کیا ہے۔ یہاں پھر ہمارے سامنے دو آپشن آجاتے ہیں، اول : سورج ہوا میں پھینکے گئے پتھر کی مانند حرکت کرتاہے، دوم : سورج کی حرکت اس کی اپنی ہوتی ہے۔ قرآن دوسرے احتمال کا ذکر کرتا ہے یعنی قرآن کی رو سے سورج اپنی ذاتی حرکت کی رو سے چلتا ہے۔ قرآن کریم میں خلا میں سورج کی حرکت کو ’سبح ‘کے لفظ سے تعبیر کیا ہے:
(وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ )(الانبیاء:۳۳) ’’اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا، سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘
(لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ)(یٰس :40) ’’نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘۔
عربی زبان میں سبح کے معنیٰ تیرنے کے ہیں لیکن اس میں باعتبارِ تضمن یہ شامل ہے کہ تیرنے والا اپنی کوشش وقوت استعمال کر کے تیر رہا ہو۔ کیونکہ بے جان تنکے کی طرح پانی میں تیرتے رہنے کے لیے عربی زبان میں ’طفا یطفوطفواً ‘کا فعل آتا ہے، جو کہ یہاں نہیں استعمال کیا گیا۔ قرآن کریم نے سورج کی خلائی حرکت کے لیے’’ سبح ‘‘کا لفظ استعمال کر کے آشکارہ کیا ہے کہ فضا میں سورج کی حرکت بے ضبط وقید نہیں ہے یعنی وہ کسی پھینکی ہوئی چیز سے مشابہ نہیں، بلکہ وہ اپنی حرکت اور اپنے سفرمیں خود بھی گھوم رہا ہے۔
یہ تو قرآنی بیان ہے، لیکن ذرا سوچئے کیا اس چیز کا جان لینا آسان بات ہے؟کیا کوئی عام آدمی بتا سکتا ہے کہ سورج اپنی حرکت کے دوران خود بھی گردش کرتا ہے؟ صرف عصرِ حاضر میں اس بات کا امکان پیدا ہو سکا ہے کہ ہم بینائی کھو دینے کا خطرہ مول لیے بغیر سورج کا بغور مطالعہ کر سکیں اور اس کی تصویریں اتار سکیں۔ ان تصاویر کے ذریعہ پہلی بار ہمارے علم میں یہ بات آسکی ہے کہ سورج کی ظاہری پرت پر تین دھبے (Spots)ہیں جو روزانہ پچیس بار گھومتے ہیں۔ دھبوں کی اس حرکت نے تاریخ میں پہلی بار قطعی طور سے ثابت کر دیا کہ سورج محور پر گھومتا رہتا ہے۔ اور اس طرح قرآن کے ایک اور کائناتی بیان کی تصدیق، جو اَبسے چودہ صدیوں قبل دیا گیا تھا، ناقابلِ تردید بنیادوں پر ہو گئی۔

تبصرے بند ہیں۔