خالص اوربے آمیزبندگی اللہ کاحق ہے

ترتیب : عـبـدالـعـزیز

        ’’خبرداردین خالص اللہ کاحق ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوادوسرے سرپرست بنارکھے ہیں (اوراپنے فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ)ہم توان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ہماری رسائی کرادیں، اللہ یقیناان کے درمیان ان تمام باتوں کافیصلہ کردے گاجن میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کوہدایت نہیں دیتاجوجھوٹااورمنکرِحق ہو۔ ‘‘    (سورہ الزمر-۳)

        سورہ الزمرکی آیت مذکورہ کواگرکوئی شخص سوچ سمجھ کرپڑھ لے تواس سے شرک جیسے گناہ عظیم کاارتکاب ہرگزنہیں ہوگا۔

        صاحبِ تفہیم القرآن مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے آیت مذکورہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں  :

–  یہ ایک امرواقعہ اورایک حقیقت ہے جسے اوپرکے مطالبے کے لئے دلیل کے طورپرپیش کیاگیاہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لئے دین کوخالص کرکے اس کی بندگی تم کوکرنی چاہئے کیونکہ خالص اوربے آمیزاطاعت وبندگی اللہ کاحق ہے۔ دوسرے الفاظ میں بندگی کامستحق کوئی دوسراہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اُس کی بھی پرستش اوراُس کے احکام وقوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگرکوئی شخص اللہ کے سواکسی اورکی خالص اوربے آمیزبندگی کرتاہے توغلط کرتاہے۔ اوراسی طرح اگروہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگی ٔ غیرکی آمیزش کرتاہے تویہ بھی حق کے سراسرخلاف ہے۔ اس آیت کی بہترین تشریح وہ حدیث ہے جوابنِ مردُذیہ نے یزیدالرّقاشی سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ ہم اپنانام دیتے ہیں اس لئے کہ ہمارانام بلندہو ٗ کیااس پرہمیں کوئی اجرملے گا؟ حضورؐنے فرمایانہیں۔ اس نے پوچھااگراللہ کے اجراوردنیاکی ناموری دونوں کی نیت ہو؟آپؐ نے فرمایا ان اللّٰہ تعالیٰ لایقبل الامن اخلص لہٗ، ’’اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتاجب تک وہ خالص اُسی کے لئے نہ ہو‘‘۔ اس کے بعدحضورؐنے یہی آیت تلاوت فرمائی۔

– کفارمکہ کہتے تھے، اوربالعموم دنیابھرکے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت اُن کوخالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے۔ خالق توہم اللہ ہی کومانتے ہیں اوراصل معبوداسی کوسمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی بارگاہ بہت اونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلاکہاں ہوسکتی ہے۔ اس لئے ہم ان بزرگ ہستیوں کوذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دعائیں اورالتجائیں اللہ تک پہنچادیں۔

– یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اتفاق واتحادصرف توحیدہی میں ممکن ہے۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ دنیاکے مشرکین کبھی اس پرمتفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں رسائی کاذریعہ آخرکون سی ہستیاں ہیں۔ کسی کے نزدیک کچھ دیوتااوردیویاں اس کاذریعہ ہیں اوران کے درمیان بھی سب دیوتاؤں اوردیویوں پراتفاق نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک چاند ٗ سورج ٗ مریخ ٗ مشتری اس کاذریعہ ہیں اوروہ بھی آپس میں اس پرمتفق نہیں کہ ان میں سے کس کاکیامرتبہ ہے اورکون اللہ تک پہنچنے کاذریعہ ہے۔ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کاذریعہ ہیں اوران کے درمیان بھی بے شماراختلافات ہیں۔ کوئی کسی بزرگ کومان رہاہے اورکوئی کسی اورکو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ توکسی علم پرمبنی ہے اورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ فلاں فلاں اشخاص ہمارے مقرّبِ خاص ہیں، لہٰذاہم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے تم ان کوذریعہ بناؤ۔ یہ توایک ایساعقیدہ ہے جومحض وہم اوراندھی عقیدت اوراسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلیدسے لوگوں میں پھیل گیاہے۔ اس لئے لامحالہ اس میں اختلاف توہوناہی ہے۔

– یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے دوالفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ایک کاذب دوسرے کفّار۔ کاذب ان کواس لئے فرمایاگیاکہ انہوں نے اپنے طرف سے جھوٹ موٹ یہ عقیدہ گھڑلیاہے اورپھریہی جھوٹ وہ دوسروں میں پھیلاتے ہیں۔ رہاکفّار ٗ تواس کے دومعنی ہیں۔ ایک سخت منکرحق ٗ یعنی توحیدکی تعلیم سامنے آجانے کے بعدبھی یہ لوگ اس غلط عقیدے پرمصرہیں۔ دوسرے کافر ِ نعمت، یعنی نعمتیں تویہ لوگ اللہ سے پارہے ہیں اورشکریے اُن ہستیوں کے اداکررہے ہیں جن کے متعلق انہوں نے اپنی جگہ یہ فرض کرلیاہے کہ یہ نعمتیں ان کی مداخلت کے سبب سے مل رہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔