خدایا! اہلِ حلب کی مدد فرما!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی
اس وقت دنیا عجیب دور سے گزررہی ہے ،ہر طرف قتل و خون ریزی کا بازار گرم ہے ،ظالم بے لگا م ہوکر ظلم وستم ڈھانے میں لگے ہوئے ہیں اور مظلوم بے بس و بے سہارا ہوکر لقمۂ تر بنے جارہے ہیں،انسانی جانوں کی قدر قیمت اس درجہ پامال ہوگئی ہے کہ انہیں گاجر ومولی کی طرح کاٹا جارہا ہے اور پانی کی طرح ان کے خون کو بہایا جارہا ہے۔کہیں مسلمان خود اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں پسے جارہے ہیں تو کہیں اوروں کے ہاتھوں کاٹے جارہے ہیں ۔ایک ایسا روح فرسا منظر اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں جاری ہے کہ جس سے روحِ انسانیت تڑپ اٹھے ،روہنگیا کے مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو ملک شام کے رہنے والے خود اپنے ظالم حکمران اور ڈکٹیٹر کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ جب سے ملک شام پر ظالم و جابر حکمراں اور خونِ مسلماں سے اپنی پیاس بجھانے والا ،درندہ صفت قاتل بشار الاسد کا دورِ حکومت شروع ہوا وہاں کے مسلمانوں کے لئے ایک بڑی آزمائش ہوگئی،بشار الاسد نے اپنے ہی لوگوں پر قیامت برپا کردی اور ظلم وستم ،سفاکیت و بربریت کی تاریخ لکھی اور لکھ رہا ہے ،لاکھوں انسانوں کے خون سے کھیلنے والا،ہزاروں گھروں کو اجاڑنے والا،بے شمار بچوں کو یتیم کرنے والا،عفت مآب ماؤں اور بہنوں پر ظلم وتشدد کرنے والا،بوڑھوں پر جبر وستم ڈھانے والا ،نہتے جوانوں کو تخؤ مشق بنانے والا بشار االاسد اور اس کے ہمنواشام اور حلب جیسے خوبصورت شہروں کو جہنم بناکر رکھے ہیں۔گزشتہ چار سالوں کے دوران طرح طرح کے ظلم وستم کرنے والا اور اس کی فوج گزشتہ چند دنوں سے شام کے مشہور شہر ’’حلب ‘‘ کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا پر گشت کرنے والی وہ المناک تصویریں ،جلتے ہوئے حلب کی ویڈیواور خاک وخون میں بکھری ہوئی نعشیں ،ہر طرف پھیلا ہوا خون ،ملبوں کے ڈھیر میں دبی ہوئی جانیں ،تڑپتی اور چیختی مائیں اور بہنیں ،زار وقطار آنسو بہاتے ہوئے بوڑھے اور اپنے ہی ہاتھوں میں پھول جیسے بچوں کی لاشوں کو اٹھائے ہوئے باپ کی تصاویر ہر انسان کو بے قرار کئے ہوئے ہیں۔جس کے دل میں رمق برابر بھی انسانیت باقی ہے وہ حلب کے ان حالات کی وجہ سے بے چین ہے ۔آخر یہ کیسی آمریت اور جابریت ہے کہ شہروں کو اجاڑا جارہا ہے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے والے انسانوں کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے ؟ان دردناک حالات میں اور چاروں طرف ہونے والی بم باری کے ہولناک مناظر کے درمیان وہاں کے لوگ عالمِ انسانیت سے مدد کی اپیل کررہے ہیں ،سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیداری کا پیغام دے رہے ہیں اور ظالم وجابر حکمراں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی التماس کررہے ہیں۔BCCاردو نیوز کے مطابق گزشتہ رات ایک رضا کار ’’لینا شامی ‘‘ نے ٹویٹ کیا :’’پوری دنیا کے لوگوں ،سوئیں نہیں ۔آپ کچھ کرسکتے ہیں ،مظاہر ے کریں ،اور اس قتل عام کو رکوائیں۔اپنے ویڈیو پیغام میں لینا شامی نے کہا:ہر کوئی جو مجھے سن سکتا ہو!محصور افراد کا حلب میں قتل عام ہورہا ہے ،یہ میراآخری ویڈیو ہوسکتا ہے ۔آمر اسد کے خلاف بغاوت کرنے والے50ہزارسے زیادہ لوگوں کے قتل عام کا خطرہ ہے،لوگ بمباری میں مارے جارہے ہیں،ہم جس علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں یہ دو مربع میل سے بھی چھوٹا ہے ،یہاں گرنے والا ہر بم قتل عام ہے ،حلب کو بچاؤ ،انسانیت کوبچاؤ‘‘۔منگل کی صبح زندہ بیدار ہونے والے منتر اتارکی لکھتے ہیں: میں اب اپنے خاص دوستوں کے ساتھ قتل عام کا سامنا کرنے کے لئے اب بھی یہاں ہوں اور اس پر باقی پوری دنیا خاموش ہے ۔کاش! ہم اپنی موت کا براہِ راست منظر آپ کو دکھا سکتے ۔مشرقی حلب میں کام کرنے والے شامی ریلیف گروپ وائٹ ہلمٹس نے لکھا : جہنم کا منظر ہے ، تمام سڑکیں اور منہدم عمارتیں لاشوں سے پڑی ہوئی ہیں۔مشرقی حلب سے ٹوئٹ کرنے والے استاذ عبد الکافی الحمدہ نے اسے قیامت کے دن سے تعبیر کیا اور کہاکہ : ہر طرف بم گررہے ہیں ،لوگ بھاگ رہے ہیں ،انہیں پتہ نہیں کہ کہاں جارہے ہیں ،صرف بھاگ رہے ہیں ،سڑکوں پر زخمی پڑے ہوئے ہیں ،کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں جارہا ہے ،کچھ لوگ ملبے دبے ہوئے ہیں ،کوئی ان کی مدد نہیں کر پارہا ہے ،انہیں مرنے کے لئے چھوڑدیا گیا ہے ،یہ گھر ہی ان کی قبر ہے۔یہ دل دہلادینے والی وہاں کی خبریں ہیں اور آپ ان کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حلب میں بمباری کے آغاز سے اب تک تقریبا 2700افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ڈھائی شہری لڑائی کی وجہ سے شہر میں محصور ہوگئے ہیں۔جب یہ تصویریں نگاہوں کے سامنے سے گزرتی ہیں تو دل تڑپ اٹھتا ہے اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں کہ یقیناًحلب میں قیامت برپا ہے اور وہاں کے بے قصور لوگ ظلم وستم کے سخت نشانے پر ہیں ،جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔وہ انسانیت کو پکارتے پکارتے تھک چکے ہیں ،عزت مآب مائیں قوم مسلم کے جیالوں کو آوازیں لگاتی لگاتی چور چور ہوچکی ہیں۔ایک طرف شام و حلب میں نسل کشی اور انسانیت سوزی کا ننگا ناچ کھیلا جارہا ہے ،کمزوروں پر پہاڑ توڑے جارہے ہیں ،آباد محلوں کو ویران اور ہنستے گھروں میں تباہ تاراج کیا جارہا ہے اور دوسری طرف مسلمان حکمران اور دنیا بھر کے مسلمان قائدین اور مسلم ممالک لبوں پر خاموشی کی مہر لگائے ہوئے بیٹھے ہیں ،رگِ حمیت بھڑکتی نہیں اور نہ ہی جذبہ انسانی انہیں بے قرارکرتا ہے ،اگر وہ چاہتے تووہ بشار الاسد اور اس کے کارندوں و مددگاروں کا تختہ پلٹ سکتے اور انہیں انسانیت کے خون سے ہاتھوں کو رنگین کرنے سے روک سکتے لیکن سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ان حالات میں ہر مسلمان کا دل یقیناًاپنے اندر ایک غم محسوس کرتا ہے اور اپنے سینے میں چبھن محسوس کرتا ہے ۔کیوں کہ ہمیں اسلام نے ایک ایسی لڑی میں پرویا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں کسی پر ظلم ہو ایک مسلمان تڑپ جاتا ہے۔ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا:ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت جیسا ہے ،اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے،پھر آپؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے میں داخل کر کے بتایا ۔( بخاری:461)آپ ؐ نے یہ فرمایا کہ : سب مسلمان ایک شخص واحد کی طرح ہیں،اگر اس کی آنکھ دکھے تو اس کا سارا جسم دکھ محسوس کرتا ہے ،اسی طرح اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی تمام بدن تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔(مسلم:4693)مطلب یہ کہ پوری امت مسلمہ گویا ایک جسم و جان والاوجود ہے ،اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں،کسی ایک عضو میں اگر تکلیف ہو تو اس کے سارے اعضاء تکلیف محسوس کرتے ہیں ،اسی طرح پوری ملت اسلامیہ کو ہر مسلمان فرد کی تکلیف محسوس کرنی چاہیئے ،اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا چا ہیے ۔مولانا ابو الکلام آز ؒ نے اپنے انداز میں فرمایا کہ:میدان جنگ میں اگر کسی ترک کے تلوے میں ایک کانٹا چبھ جائے ،توقسم خدائے اسلام کی کہ کوئی ہندوستان کا مسلمان ،مسلمان نہیں ہوسکتا ،جب تک وہ اس کی چبھن کو تلوے کی جگہ اپنے دل میں محسوس نہ کرے،کیون کہ ملتِ اسلام ایک جسم واحد ہے اور مسلمان خواہ کہیں ہون ،اس کے اعضاء وجوارح ہیں ۔(خطباتِ آزاد: 18)اس طرح اسلام نے مسلمانو ں کو ایک لڑی میں پرویا ،اور تمام سرحدوں اور دوریوں کو مٹاکر اخوت و الفت کے کبھی نہ ختم ہونے والے رشتہ میں جوڑا۔
اس موقع پر ہماری ذمہ داری ہے ہم ان تمام مسلمانوں کی سلامتی اور بھلائی کے لئے ،عافیت اور راحت کے لئے ،امن وامان کے لئے بارگاہِ الہی میں دعا کریں ،دعا ہی ہمارے پاس ایک مضبوط ہتھیار اور اہم ترین سہارا ہے ،یقیناًان مظلوموں کی آہیں ضائع نہیں ہوں گی اور بلکتی ہوئی ماؤں کے نالے بے کار نہیں جائیں گے،بچوں کی سسکیاں اور بوڑھوں کی کراہیں ،جوانوں کی شہادت ضرور رنگ لائے گی ،مگر ہماری اخوتِ ایمانی اور حمیتِ اسلامی کا تقاضا ہے کہ ہم شام ،حلب ،فلسطین ،روہنگیا ،برمااور دنیا کے ہر مظلوم انسان کے حق میں خدا سے ضرور دعا کریں ،اور دنیا بھر میں عافیت کے طلب گار رہیں۔اللہ کسی مسلمان کی دعا کو اس کے بھائی کے حق میں غائبانہ جلد قبول فرماتے ہیں۔ولاتحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون انما یؤخر ھم لیوم تشخص فیہ الابصار۔(ابراھیم:42)’’اور یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو کچھ یہ ظالم کررہے ہیں ،اللہ اس سے غافل ہے ۔وہ تو ان لوگوں کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔‘‘
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔