خدا اور محبت

سہیل بشیر کار

ڈرامہ وفلم پروڈیوسر، کہانی کار و ڈرامہ ونویس، ہدایت کار ، اسکرپٹ رائٹر اور معروف ناول نگار ہاشم ندیم کی زیر تبصرہ کتاب "خدا اور محبت”  انتہائی دلچسپ ناول ہے. یہ ناول  قاری کے لئے سبق آموز ہے. پیش لفظ میں مصنف لکھتے ہیں: "میں نے محبت اور مذہب کو جس طرح خود پر وارد ہوتا محسوس کیا، اسے ان صفحات پر لفظوں کی صورت میں بکھیر دیا۔ محبت اور مذہب کی جنگ تو میرے دل نے لڑی اور میری روح نے جھیلی ہے، لیکن جیت مذہب کی ہوئی یا محبت کی … اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں ۔ مقصد محبت یا مذہب میں سے کسی بھی ایک کی برتری ثابت کرنا کبھی نہیں رہا۔ بس کچھ سوال جواب چاہتے تھے۔ لیکن مذہب اور محبت کی اس تکرار میں کچھ نئے سوال جنم لیتے نظر آ رہے ہیں۔ سو میری گزارش ہے کہ اس کتاب کو صرف وہی لوگ پڑھیں جو زندگی میں نئے سوالوں کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جواب البتہ فرض نہیں ہے۔” (صفحہ 7)

 ناول کی کہانی اگرچہ اپنے مرکزی کردار حماد کے اردگرد گومتی ہے لیکن ساتھ میں حماد سے وابستہ درجنوں کردار بھی نہایت ہی سلیقہ سے دکھائی دیتے ہیں.حماد ایک نہایت ہی امیر گھرانے کا فرد ہے، اگرچہ حماد کے گھرانے میں "دلکش” ماحول ہوتا ہے لیکن برکت کے لیے  ایک مولوی صاحب بچے کو قرآن کریم کی تعلیم دینے آتا ہے. ایک دن پارٹی میں مولوی صاحب کو بھی بلایا جاتا ہے لیکن اسی دن مولوی صاحب سخت بیمار ہوتے ہیں. بچے کی ضد کی وجہ سے اگرچہ مولوی صاحب پارٹی میں نہیں آتے لیکن اپنی دو بچیوں کو پارٹی میں بھیج دیتے ہیں. اس دن حماد مولوی صاحب کی باپردہ بڑی بیٹی کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے لیکن مولوی صاحب کی بیٹی ایمان چونکہ باپردہ ہوتی ہے لہذا حماد ایمان کے ساتھ گھل مل نہیں پاتا. ایمان کے جاننے والے حماد کو کہتے ہیں کہ ایمان آپ کو صرف اور صرف اس وقت مل جائے گی جب  آپ کے گھر والے اس کا ہاتھ مانگے گے. حماد اپنے فیصلے سے گھر والوں کو آگاہ کرتا ہے گھر والے نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ احتجاج بھی کرتے ہیں اور ایک دن مولوی صاحب کی علیحدگی میں خوب تذلیل کرتے ہیں. مولوی صاحب کی تذلیل کی وجہ سے مولوی صاحب کئی روز تک بیمار پڑتے ہیں لیکن حماد مولوی صاحب سے منت سماجت کرتے ہیں لیکن مولوی صاحب لوگوں کے طعنوں کا واسطہ دے کر حماد کو انکار کرتے ہیں اور حماد کو کہتے ہیں کہ تمہارا اپنا کوئی وجود نہیں. اسی وجود کی تلاش میں حماد گھر چھوڑ دیتا ہے اور ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرتا ہے اور مولوی صاحب سے کہتا ہے کہ وہ اب مزدوری کرکے اپنے پیروں پر کھڑا ہورہا ہے لیکن  مولوی صاحب اس بار بھی رشتہ دینے سے انکار کرتا ہے. اسی دوران وہ مختلف طریقوں سے ایمان سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے لیکن ایمان کہتی ہے کہ میری انفرادی حیثیت کچھ بھی نہیں. میری مرضی اسی میں ہے جس میں میرے والدین کی مرضی ہے. اسی دوران ایک روز ریلوے اسٹیشن پر حماد کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوتی ہے اس بزرگ کی تعلمیات سے وہ اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ ایک روز عشاء پڑھنے حماد مولوی صاحب کی مسجد تشریف لے جاتا ہء کچھ عرصہ بعد وہ مولوی صاحب کے درس میں بھی شریک ہوتا ہے. ایک دن وہ مولوی صاحب سے ایمان کے بارے میں پھر کہتا ہے لیکن مولوی صاحب سماج کا خوف دلاتے ہیں اور خوب روتے ہیں اور حماد کو دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں. اسی اثنا ایک روز ایمان ریلوے اسٹیشن پر حماد کو قلی کا کام کرتے دیکھتی ہے؛ تو وہ ٹوٹ جاتی ہے، اور اپنی سہیلی کے ذریعہ حماد کو گھر واپس جانے کی تلقین کرتی ہے لیکن حماد ایمان کی محبت میں سب کچھ چھوڑ چکا تھا. اسی دوران مولوی صاحب ایمان کا رشتہ اپنے بھتیجے سے طے کرتا ہے لیکن حماد کے سچی محبت کی وجہ سے ایمان آخر کار حماد کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے. ایک دن وہ حماد سے ملاقات کرتی ہے اپنی مجبوریاں بتاتی ہے اور اپنے محبت کا واسطہ دیتی ہے لیکن جب ایمان گھر پہنچ جاتی ہے اس کی طبیعت بگڑ جاتی ہے. اسی دوران جوں جوں اس کی شادی کی تاریخ نزدیک آجاتی ہے؛ اس کی طبیعت مزید خراب ہوتی ہے. یہاں مصنف نے دل سے محبت کرنے والوں کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے.  ایک دن مولوی صاحب اچانک اپنے گھر حماد کو بلاتے ہیں اور حماد اپنی محبوبہ ایمان کو بستر مرگ پر دیکھتا ہے اور کچھ ہی عرصہ بعد ایمان کی موت واقع ہوجاتی ہے. حماد اس صدمے سے لمبے عرصہ تک نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوجاتا ہے اور کافی عرصہ بعد جب اس کی طبیعت کچھ سنبھل جاتی ہے تو وہ اپنے دوست کامران کے پاس لندن پڑھائی کے لیے جاتا ہے تاکہ اس  کو سکون ملے، یہاں حماد کا ایڈمشن اس یونیورسٹی میں ہوتا ہے جہاں یہودیوں کا غلبہ ہے. یہاں آتے ہی حماد کے بارے میں طلبہ حماد سے الجھتے رہتے ہیں لیکن حماد کے بہترین اخلاق کی وجہ سے وہ سب اس کے دوست بن جاتی ہیں. ایک مشہور یہودی سرائزک جو کہ یونیورسٹی کا ڈین ہے اور بنیاد پرست یہودی بھی ہے کی بیٹی سائرہ حماد کو تنگ کرنے لگتی ہے لیکن جلد ہی حماد کی دوست بن جاتی ہے. یہودی جو کہ دیکھنے میں مضبوط ہے اندر سے بہت ہی کمزور ہے ٹرم پیپر میں جب حماد اپنا موضوع ہالوکاسٹ منتخب کرتا ہے اور جب سرائزک کو یہ معلوم پڑتا ہے کہ حماد ہالوکاسٹ کی حقیقت سے نئی نسل کو آگاہ کرے گا؛ تو وہ مختلف بہانوں سے حماد کا ایڈمشن کینسل کروانے کی کوشش کرتا ہے. وہ پہلے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حماد کسی طرح ٹرم پیپر طالب علموں کے سامنے نہ پڑھ پائے لیکن اسی کی بیٹی ایک بڑی تقریب میں حماد کا پیپر سب کے سامنے پڑتی ہے دوسرے روز جب یہ خبر سبھی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں تو حماد کو لندن چھوڑنا پڑتا ہے تاکہ یہودی اخبارات کی وجہ سے کہیں وہاں کمزور مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچے. اسی دوران سارہ حماد کے پیار میں گرفتار ہو جاتی ہے اور آخر کار مسلمان ہوجاتی ہے حماد اس کا نام ایمان رکھتا ہے۔

 یوں تو یہ ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے لیکن اس میں بہت سی معلومات ہے۔ کہانی  مختلف جگہوں کے بارے میں قاری کو معلومات بہم پہنچاتی ہے. لندن کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’قدامت پسندی اور اداسی لندن شہر کا ہی خاصہ ہے۔ ہر شہر کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ مجھے بھی کبھی پیچھے، چنگھاڑتے شہر اچھے نہیں لگے۔ گرم، حبس زدہ اور بے چین جیسے ہرلمحہ کچھ کھو جانے کا احساس دل کو جکڑے رکھے، مجھے سرد اور ٹھنڈے مزاج کے لوگ اور شہر ہمیشہ سے متاثر کرتے تھے، خاموش اور پرسکون، انسان کا ہر غم ، ہر دکھ اپنے اندر سمیٹ لینے والے شہر لندن بھی انہی شہروں میں سے ایک تھا۔‘‘(صفحہ 12)

مصنف غیروں کی اچھی چیزوں کو دل کھول کر سراہتے ہیں. انگریزوں کے بارے میں لکھتے ہیں: "لندن بالکل ویسا ہی تھا جیسے میں اسے دو سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔ اس بس اسٹاپ کے بالکل سامنے بوڑھا برگد کا درخت اب بھی ویسے ہی کھڑا مسکرارہا تھا جیسے مجھے پھر سے خوش آمد ید کہہ رہا ہو۔ انگریز ایسی باتوں کا بہت دھیان رکھتے ہیں۔ صرف اس درخت کو بچانے کے لیے انہوں نے چند سال پہلے اپنے ماسٹر پلان کے نقشے میں یہاں سے گزرتی سڑک کا رخ موڑ دیا تھا۔ کیونکہ اگر سڑک لندن ماسٹر پلان کے تحت بنتی تو اس درخت کا کٹنا لازمی تھا، لیکن انگلش ایک روایت پرست اور ماضی پرست قوم ہے۔ وہ اپنی یادوں اور اپنی تاریخ کو اتنی آسانی سے مسخ نہیں ہونے دیتے بلکہ اسے بچانے کے لیے جان لڑا دیتے ہیں۔ شاید اسی لیے اس قوم نے برسوں اس دنیا پر راج کیا ہے۔ سچ ہے قومیں یونہی نہیں بن جاتیں، اس کے پیچھے صدیوں کی تربیت اور حوادث کا عمل دخل ہوتا ہے۔” (صفحہ 34) یہودیوں کی تعریف یوں کرتے ہیں: "میں نے سوال کیا: "لیکن تم لوگوں نے اور یہاں کی دوسری بزنس کمیونٹی نے کبھی ان وجوہات پر غور کیا ہے، جو ان یہودیوں کی تجارتی کامیابیوں کا راز ہیں۔“

کامران نے گہری سی سانس لی۔ بات بالکل صاف ہے۔ یہودی کبھی تلخ کلامی سے کام نہیں لیتا اور بزنس کا پہلا اصول ہی خوش اخلاقی ہے۔ سخت سے سخت حالات میں بھی اس کے ہونٹوں سے چپکی مخصوص مسکراہٹ کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ دوسری اہم وجہ ایک یہودی کا دوسرے یہودی تاجر کا خیال رکھنا ہے۔ دو یہودی تاجر آپس میں بدترین اور جانی دشمن بھی کیوں نہ ہوں لیکن اگر ان کا کلائنٹ کوئی ایسی چیز طلب کرتا ہے جو پہلے یہودی کی دوکان پر میسر نہ ہو، تب بھی وہ خود پیدل چل کر اس خریدار کو اس جانی دشمن یہودی کے پاس لے کر جاتا ہے، جہاں اسے وہ ضروت کی چیز مل سکتی ہو۔ یہودی کبھی کسی غیر یہودی کو متعارف نہیں کرواتا۔ یہی اس یہودی تجارت کے پنپنے کا راز بھی ہے۔میں کامران کے خیالات سے کسی حد تک متفق بھی تھا لیکن میرے خیال میں اس نے یہودی تاجروں کی سب سے بڑی معصومیت کا تذکرہ اب تک نہیں کیا تھا۔ داتم سب سے اہم خصوصیت کا تذکرہ کرنا بھول گئے ہو۔ وہ بے ایمان داری۔

یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے تاجر اتنے خوش اخلاق اور ٹھنڈے مزاج کے نہیں ہوتے یہ بھی درست ہے کہ ہم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے بھی کبھی باز نہیں آتے۔ ہمارا اصول ہے کہ اپنا فائدہ ہو نہ ہو لیکن دوسرے کا نقصان ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن ان سب سے زیادہ بڑی وجہ ہے؛ بے ایمانی اور یہودی تجارت میں بے ایمان نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں ان کی کامیابی کا اصل راز یہی ہے۔“ (صفحہ 38) ہالوکاسٹ کو  یہودیوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ دنیا کی ہمدردی حاصل ہو. اس کتاب میں ہولو کاسٹ کے بارے میں بہت ہی اہم معلومات ہے:

"یہودیوں نے اپنے اوپر ہونے والے نام نہاد مظالم کو سب سے زیادہ جرمنی سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے جرمنوں پر 1298ء میں جرمن نائٹ رنڈ فلیش کی سرکردگی میں جرمنی میں موجود ایک سو چھیالیس یہودی بستیوں میں قتل عام کا الزام لگایا گیا۔ پھر 1336ء میں دوسو یہودی بستیوں کو تباہ کرنے کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ لیکن سب الزاموں سے بڑھ کر الزام یہودی لیڈر ڈیوڈ بن گورین نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہٹلر پر لگایا کہ اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران پچاس لاکھ سے زائد یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر ختم کروایا تھا۔ کچھ لوگ یہ تعداد 60 لاکھ تک بتاتے ہیں اور یہودی اسی عظیم الشان اموات کے نظریہ کو ہالوکاسٹ کہتے ہیں۔“

میں نے حیرت سے جوزف کی طرف دیکھا: لیکن اتنی بڑی تعداد میں اگر یہودی مارے گئے ہوں گے تو ان کی موت کا کوئی ثبوت بھی تو ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم اور ہٹلر کا زور تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔“ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ثبوت ڈھونڈ نے والوں اور اس نظریے کے خلاف جانے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ ابھی پچھلے سال ہی آسٹریا کی ایک عدالت نے تاریخ کے ایک استاد پروفیسر ڈیوڈ ارونگ کو تین سال کی سزائے قید سنائی ہے۔ صرف اس جرم میں کہ اس نے ہالوکاسٹ کے دوران یہودیوں کے قتل عام کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔” (صفحہ 167)

مزید لکھتے ہیں: "ہالوکاسٹ کا یہ تمام پرو پیگنڈا یہودیوں نے صرف اور صرف فلسطین کی سرزمین پر اپنی ایک آزاد ریاست بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے کیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی اس ڈرامے کو اسٹیج کرنے کی پوری تیاری کرلی گئی تھی۔ اس وقت چندہ جمع کرنے کی عظیم الشان مہم شروع کر دی گئی تھی۔ امریکہ، برطانیہ اور روس نے جرمن قوم کو برباد کرنے کے لیے یہودیوں کو غداری پر آمادہ کر لیا تھا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ زخم خوردہ جرمن قوم پلٹ کر ان پر وار ضرور کرے گی ۔ وہ جرمنوں کو ہٹلر کی قیادت میں یکجا ہوتے ہوئے دیکھ چکے تھے اور ہٹلر کے عزائم بھی اس کی جنگی تیاریوں سے بالکل واضح تھے۔ اس لیے انہوں نے یہودیوں کو قبلہ اول پر قبضے کا خواب دکھایا اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ان کی پوری مدد کر نے کا یقین بھی دلایا۔ ہالوکاسٹ کا الزام تو ہٹلر اور جرمنوں پر دوسری جنگ عظیم کے بعد لگایا گیا تھا لیکن اس کی قیمت فلسطین کے مسلمانوں نے یہودی بستیوں اور پھر اسرائیل کی صورت میں چکائی۔ اگر ہٹلر ہالوکاسٹ کا ذمہ دار تھا بھی؛ تو یہودی اس بہانے فلسطین کے مسلمانوں پر کیوں ٹوٹ پڑے؟ اور سچ یہی ہے کہ ہالوکاسٹ میں پچاس لاکھ سے ساٹھ لاکھ تک یہودیوں کے مارے جانے کی کہانی صرف اور صرف مفروضہ ہی ہے۔ اتنے بڑے اور اتنے وسیع پیمانے  پر گیس چیمبرز کا بنایا جانا ہی ممکن نہیں تھا۔ جن گیس چیمبرز پر یہودی قاتل گیس چیمبرز ہونے کا الزام لگاتے ہیں ، وہ صرف جرمن فوجیوں کی لاشوں کو جنگ کے دوران ٹھکانے لگانے کے لیے بنائے گئے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ ان چیمبرز کو بھی ٹھیک طرح سے چلانے کے لیےجرمنوں کے پاس پورا ایندھن موجود نہیں ہوتا تھا۔ جرمن پہلے ہی اپنا سب کچھ جنگ میں جھونک چکے تھے۔ ان گیس چیمبروں میں جھونکنے کے لیے ان کے پاس کوئلہ تک کافی مقدار میں نہیں بچا تھا۔ یہ صرف اور صرف ایک صیہونی تحریک ہے، جس کا مقصد اپنے مفاد کے لیے ہلاکتوں کی تعداد میں زبر دست مبالغہ چاہتی ہے۔ تا کہ خود کو مظلوم ثابت کرنے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کیے جاسکیں۔” (صفحہ 313)

کہانی کہانی میں ہی مصنف بہت سی اہم کتابوں کا تعارف کرواتے ہیں ساتھ ہی بہت سے نغموں کی بھی… یہاں زندگی کا فلسفہ ہے، عشق اور محبت کیا ہے اس کو بھی واضح کیا گیا ہے. محبت کے مراحل کا ذکر بھی ہے. مصنف قاری کے سامنے فلماتے ہیں ، ایمان کو قریب سے دیکھنے کا منظر یوں دکھاتے ہیں :”مجھے زندگی میں پہلی بار اس کے حسن کو اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس کی ستارہ جبیں، بڑی بڑی کالی آنکھوں ستواں کی چھوٹی ناک اور لال زمرد جیسے نازک سرخ لبوں کی پنکھڑیاں ٹھوڑی کا خم جیسے کسی مصور نے بڑی ادا سے رنگوں کو ایک مخصوص زاویے پر لا کر موڑ دیا ہو۔ کہیں بھی تو کچھ کمی نہیں تھی۔ اک عجب سانور تھا اس مہ رخ کے چہرے پر۔” (صفحہ 256)

کتاب کو الف پبلشرز سے نہایت ہی عمدہ گیٹ اپ میں شائع کیا گیا ہے. 384 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔ امید ہے پبلشر بہت جلد ہاشم ندیم کے دوسرے ناول بھی شائع کرے گا. کتاب فون نمبر 9718648338 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

مبصر سے رابطہ: 9906653927

تبصرے بند ہیں۔