زندگی نو جون 2023

سہیل بشیر کار

عام طور پر لفظ تزکیہ جب ہمارے ذہنوں میں آتا ہے تو اس کے ساتھ دوسرا لفظ فوراً نفس آتا ہے لیکن بحیثیت امت مسلمہ کے ایک فرد کے؛  ہمیں ہمہ گیر تزکیہ کی کوشش کرنی چاہئے اور جب بات ہو اجتماعیت کی تو اس میں جن چیزوں کا تزکیہ مطلوب ہے اس میں اہم؛ مزاج کا تزکیہ ہے. مزاج کے تزکیہ پر عمومی طور پر لکھا نہیں جاتا حالانکہ قرآن کریم، احادیث مبارکہ میں تزکیہ اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. زندگی نو؛ ماہ جون 2023ء کے شمارے میں ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے تزکیہ مزاج پر روشنی ڈالی ہے. کسی بھی  اجتماعیت سے  وابستہ فرد اس مضمون کو ذہن نشین کرے تو اجتماعیت بہت ہی پرسکون بن جائے گی. غازی بھائی لکھتے ہیں:

 "کروڑوں انسانوں کے مقابلے میں، انسانوں کی فلاح کے لیے اٹھنے والی مٹھی بھر انسانوں کی یہ جماعت انسانیت کے لیے امید کی کرن ہوتی ہے۔ جو لوگ اس اجتماعیت سے وابستہ ہوتے ہیں، اللہ کے فضل خاص سے ہوتے ہیں۔ اگر یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوش نصیبی ہے کہ انھیں دین کی نصرت کے لیے قائم جماعت میں شامل ہونے کا موقع ملا، تو کیا یہ ان کی زندگی کی بڑی بدنصیبی نہیں ہو گی کہ مقصد میں، فکر میں اور طریقہ کار میں اتفاق کے باوجود صرف رفقائے جماعت کے ساتھ مزاج ہم آہنگ نہیں ہونے کی وجہ سے وہ اس جماعت میں نہیں رہ سکے۔ یار ہے بھی تو جماعت کے لیے قوت کا ذریعہ اور قیمتی اثاثہ بنے کے بجائے بھاری بوجھ اور مشکل مسئلہ بنے رہے۔” (صفحہ 5) مصنف اپنے مضمون میں دو اصول بیان کرتے ہیں: 1. اپنے مزاج کو دوسروں کے لیے سازگار بنائیں اور 2. دوسروں کے مزاجوں کو برداشت کریں.

غازی صاحب یہاں عہدِ رسالت کا تذکرہ کرکے قاری کی رہنمائی کرتے ہیں.مصنف نہایت ہی خوبصورتی سے سمجھاتے ہیں :”انسان کو اگر یہ احساس ہو جائے کہ اس کی سخت مزاجی سے دین کی نصرت کے کاز کو کتنازیادہ نقصان ہو رہا ہے، تو وہ اپنے مزاج کو نرم کرنے کی شعوری کوشش کرے گا۔ نرم مزاجی اللہ کی رحمت ہے اور جس طرح اللہ کی ہر رحمت کو پانے کے لیے انسان کوشش کرتا ہے ، اسے پانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے. ” (صفحہ 12)

اپنے مضمون کا اختتام اس طرح کرتے ہیں: "جس دن آپ یہ طے کر لیتے ہیں کہ آپ کا نصب العین آپ کے مزاج سے زیادہ آپ کو عزیز و محبوب ہے اسی دن سے مزاج کا تزکیہ شروع ہو جاتا ہے، تزکیہ کا یہ سفر زندگی بھر جاری رہتا ہے. "

امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے علی گڑھ لٹریری فیسٹیول میں ایک خطاب کیا. اس خطاب کو رسالہ میں "اسلامی تہذیب کے احیا میں نوجوانوں کا کردار” کے عنوان کے تحت  شامل کیا گیا ہے، اس مضمون میں سعادت صاحب نے جہاں اسلامی تہذیب کی خصوصیات کا ذکر کیا ہے وہیں جدید مغربی تہذیب پر تنقید بھی کی ہے. لکھتے ہیں: "جدید مغربی تہذیب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک نہایت غیر ذمہ دار تہذیب ہے۔ اس غیر ذمہ داری کی وجہ سے انھوں نے ایسے معاشرتی اور اخلاقی رویے اختیار کیے جن سے خاندان کا ادارہ تباہ ہو گیا۔ ایسی ٹکنالوجی اختیار کی جس سے خطرناک ہتھیار وجود میں آئے اور بنی نوع انسان کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ وسائل کی ایسی لوٹ مچائی کہ فضا اور پانی زہر آلود ہو گئے اور اگلی نسلوں کی بقا پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا۔ اسلامی تہذیب انسان کو اور انسانی اداروں کو ذمہ دار بناتی ہے۔ ایک مسلمان دریا کے کنارے بھی وضو کرتے ہوئے پانی کا اسراف نہیں کرتا۔ جنگ کی حالت میں دشمن کے معاملہ میں بھی اصول شکنی نہیں کرتا. ” (صفحہ 21) اسلامی تہذیب کی خصوصیات پر روشنی ڈالنے کے بعد آپ لکھتے ہیں:”دوستو، یہ چند خصوصیات میں نے گنائی ہیں۔ اسلام کے روشن دور میں ان سب خصوصیات کی حامل

ایک پاکیزہ تہذیب دنیا کے افق پر نمودار بھی ہوئی اور دنیا کی مختلف تہذیبوں کو متاثر بھی کیا۔ ہمارے ملک کی تہذیب پر بھی اس نے بہت سے اچھے اثرات ڈالے۔ لیکن آج ایک طرف تو اس تہذیب کی روشنی خود مسلم معاشرے میں دھندلا گئی ہے اور دوسری طرف دنیا کے پیچیدہ مسائل اس تہذیب کے احیا کا فوری تقاضا کرتے ہیں۔ "(صفحہ 24) مصنف امت مسلمہ کو سمجھاتے ہیں کہ وہ نئے نئے ideas کے بارے میں سوچیں. یہ تخیلات ہی ہیں جن پر تہذیب تعمیر ہوتی ہے. نوجوانوں سے وہ مخاطب ہو کر کہتے ہیں: "آج امت میں ہر میدان کے ایسے ماہرین کی کوئی کمی نہیں ہے جو بنی بنائی لکیر میں پیٹ رہے ہیں۔ جس شیطانی تہذیب پر وہ صبح شام لعنت بھیجتے ہیں اس کے بنائے ہوئے معیارات اور طریقوں کے مطابق اندھا دھند اپنے اپنے پیشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کو کام یابی سمجھ رہے ہیں اور انھیں اس کا شعور ہی نہیں ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے ان کا اصل فرض ایک نئی اسلامی تہذیب کی بنیادیں کھڑی کرنا ہے۔ ہمارے پاس ایسے نو جوانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو تھوڑا سا پڑھ لکھ کر اپنا راستہ کھو دیتے ہیں کبھی دائیں بازو کے مصنفین کی کتا ہیں انھیں اپیل کرتی ہیں تو کبھی بائیں بازو کی۔ اسلامی جذ بہ زور مارتا ہے تو انھی باتوں کو عین اسلام کہنے لگتے ہیں۔

اسلامی تہذیب کو ضرورت ایسے نوجوانوں کی ہے جو صیح معنوں میں غزالی، ابن تیمیہ اور سید

مودودی کے وارث ہوں۔” (صفحہ 28)

ابھی حال ہی میں ایک عظیم مفکر، داعی اور محقق دانشور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا انتقال ہوا. ان کے افکار کے اصول و منہج کا مطالعہ برادر ذوالقرنین حیدر سبحانی نے پیش کیا ہے. اس شمارے میں اس مضمون کی پہلی قسط ہے جس میں مقالہ نگار نے تین اصول و منہج بیان کیے ہیں :

  1. غیر حتمیت، اختلاف اور تواضع
  2. دین کی تعلیمات کی نوعیت کا صحیح فہم 3. زمانے کی تبدیلی کا گہرا اثر. ذوالقرنین حیدر نے اس مضمون کو لکھنے کے لیے انتہائی محنت کی ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ہر تحریر کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے.

محمد علی اختر ندوی نے ڈاکٹر محمد ترکی کتوع کے ایک مضمون کو اردو کا قالب دیا ہے؛جس کا عنوان ہے "دینی رہنماؤں کے لیے احتیاط و عزیمت کی اہمیت” اس مضمون میں مصنف کہتے ہیں کہ جو لوگ رہبر ہو؛ ان کو ذاتی زندگی میں عزیمت اپنانی چاہیے. البتہ عوام کو رخصت کی راہ بتانی چاہیے. اس مضمون میں سیرت النبی اور آثار صحابہ سے خوب استفادہ کیا گیا ہے.

ماہر تعلیم افضل حسین صاحب نے جماعت کے سالانہ اجتماع 20 تا 22 اپریل میں مرکزی درس گاہ کی رپورٹ پیش کی تھی جو اس رسالہ میں بھی شائع کی گئی ہے. بقول مدیر یہ رپورٹ تعلیم  کے عملی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے بہت سے نقوش راہ روشن کرتی ہے. اس رپورٹ سے مرکزی درس گاہ کے بارے میں اہم معلومات ملتی ہیں البتہ ایسی درسگاہ بند ہونا بہرحال ایک المیہ محسوس ہوتا ہے.

برادر سید تنویر احمد گزشتہ دو ماہ سے ملت کے تعلیمی ایجنڈا پر لکھ رہے ہیں. اس شمارے میں انہوں نے کیرئر گائڈنس، کیریئر کونسلنگ پر نہایت ہی اہم گفتگو کی ہے، امت مسلمہ کو اہم ترین ضرورت کی طرف توجہ دلانے پر؛ تنویر صاحب کامیاب نظر آتے ہیں. البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ مضمون وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے.

ڈاکٹر رضوان صاحب کچھ عرصہ سے منحرف جنسی رویہ پر لکھ رہے ہیں. اس شمارے میں انہوں نے "جنسی انحرافی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس (صنفی شناخت کے حوالے سے)” لکھا ہے، ڈاکٹر رضوان صاحب thinker ہے لہذا ان کی آرا میں تنوع ہے.

بچوں اور نوجوانوں کے حوالے سے بہن ام مسفرہ کھوت بہت اچھا لکھ رہی ہے. اس شمارے میں انہوں نے” نوجوان نسل کو والدین کی ضرورت "کے عنوان پر بہترین مضمون لکھا ہے. ہمارے ہاں عام طور پر بچوں کی تربیت پر لکھا جاتا ہے. نوجوان کی تربیت پر کم توجہ دی جاتی ہے. اس لحاظ سے ام مسفرہ کا مضمون بہت ہی اہم ہے. انہوں نے اپنے مضمون میں ماہرین سے خوب استفادہ کیا ہے؛ ساتھ ہی قرآن کریم سے بھی استفادہ کیا ہے. امید ہے ام مسفرہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گی .

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی زندگی نو میں مستقل طور پر فقہی مسائل پر رہنمائی کرتے ہیں. اس ماہ تین مسائل؛ 1. بڑی مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی2. زکواۃ کے بعض مسائل اور 3. پراپرٹی کا ایک مسئلہ پر انہوں نے روشنی ڈالی ہے.

الغرض زندگی نو(جون 2023) میں نہایت ہی قیمتی مضامین ہیں. مدیر اس کاوش کے لیے مبارکبادی کے مستحق ہیں.

مبصر سے رابطہ :9906653927

تبصرے بند ہیں۔