خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں

افتخار راغبؔ

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں

ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں

محبتیں نہ لٹاتا تو اور کیا کرتا

وفورِ شوق کا آئینہ دار یعنی میں

چمک رہا تھا موافق تری توجّہ کے

خلوص و مہر و وفا کا دیار یعنی میں

 عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی

بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں

مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان

اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں

ہوئی تھی جب بھی ترے التفات کی بارش

لہک اٹھا تھا ترا لالہ زار یعنی میں

دیارِِ شعر و سخن میں تھا جلوہ گر ہر سو

ترے کرم کا حسیں اشتہار یعنی میں

زہے نصیب! حوادث میں بھی نہیں ٹوٹا

ترا غرور ترا افتخار یعنی میں

ہے مستقل مرے سینے میں درد یعنی توٗ

نہ رہ سکا ترے دل میں قرار یعنی میں

ہر ایک بات مری کر رہا تھا رد راغبؔ

مرے سخن پہ تھا کوئی سوار یعنی میں

تبصرے بند ہیں۔