نماز کا مقصد اور فوائد (تیسری قسط)

عبدالعزیز

فرض شناسی:

مختلف انسانی گروہ یا قومیں جو اس وقت کرۂ زمین پر زندگی کی دوڑ میں مصروف ہیں ، ان کی حالت پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ غلبہ و اقتدار اور عروج و اقبال حاصل کرنے میں وہی قوم سب سے زیادہ کامیاب ہوگی جو ایسے افراد سے مرکب ہو جن کو محنت و کوشش اور کام کرنے سے الفت اور سستی و کاہلی سے نفرت ہے؛ یعنی جس قوم کے افراد میں فرض شناسی کا وصف عام ہے اور وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں کسی قسم کا تساہل نہیں برتتے ہیں ۔

اگر کوئی شخص اپنے خاندان کا سربراہ ہے تو وہ اپنے خاندان کے افراد کی پرورش، تعلیم و تربیت اور دوسری ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کیلئے دن رات محنت کرتا ہے۔

اگر کوئی شخص ملازم ہے تو پوری دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کرتا ہے۔ وقت پر حاضر ہوتا ہے اور اپنے اوقاتِ کار میں پوری تن دہی سے کام کرتا ہے۔

اگر کوئی شخص قوم کا سربراہ ہے، لیڈر ہو یا صدر تو وہ ادائے قرض میں ایک نمونے کا کردار پیش کرتا ہے جس سے قوم کے افراد کو رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔

اب دیکھئے؛ نماز کس طرح سے آدمی کو فرض شناسی کی تربیت دیتی ہے۔ نماز ایک فریضہ ہے جسے ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر بالغ مسلمان (مرد ہو یا عورت) پر مقررہ اوقات میں لازم قرار دیا گیا ہے۔

اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَوْقُوْتاًo (پ5، ع12) ۔ [نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیِ وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے]۔

   اب دیکھئے کہ نمازی اس فریضہ کو ہر حالت میں کس اہتمام سے ادا کرتا ہے۔

اذان سنتے ہی نمازی سب کام چھوڑ کر فریضۂ نماز کو ادا کرنے کیلئے مسجد کی طرف روانہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ اسے ایک معین وقت کے اندر اندر کرنا ہے اور دوسرے مسلمانوں سے مل کر ادا کرنا ہے؛ اِلّا یہ کہ کوئی شرعی عذر مانع ہو۔

نمازی سفر میں ہے لیکن وقت آنے پر اس فرض کو ادا کرتا ہے۔ اگر بیمار ہے کھڑا نہیں ہوسکتاتوبیٹھ کر اور اگر بیٹھ نہیں سکتا تو لیٹ کر اسے اشاروں ہی سے ادا کرتا ہے۔

وضو کرنے کیلئے پانی نہیں ملتا یا پانی کے استعمال سے بیماری میں اضافہ کا احتمال ہے تو تیمم سے اس فرض کو ادا کرتا ہے۔

اگر نیند یا غفلت سے یا کسی اور وجہ سے کوئی نماز رہ جاتی ہے تو قضا نماز ادا کرکے اس کی تلافی کرتا ہے۔

دوسرے مقاصد کے علاوہ نماز کو اس طرح دن رات میں پانچ بار پابندیِ وقت کے ساتھ بغیر کسی فوری معاوضہ اور تعزیری دباؤ کے ہر حالت میں ادا کرنے سے اس بات کی بھی تربیت دی جاتی ہے کہ نمازی مسجد سے باہر بھی اپنے فرائض کو ہر حالت میں مستعدی کے ساتھ وقت پر ادا کرے۔

مساوات:

انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود جسمانی حیثیت سے اس قدر کمزور اور عاجز پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت کیلئے اجتماعی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اور اجتماعی زندگی کو اپنانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ سب لوگ کسی نہ کسی حیثیت سے ایک دوسرے کے محتاج ہوں ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ بلحاظ مال و جاہ، بلحاظ قابلیت و استعداد، بلحاظ صحت و قوت اور بلحاظ علم و ہنر ان میں تفاوت ہو۔ ان حیثیتوں میں غیر مساوی ہونا قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس کے خلاف کسی قسم کی جدوجہد کرنا گویا قانونِ فطرت کے خلاف جنگ کرنا ہے اور اس کا نتیجہ لازماً فساد فی الارض ہوگا۔ لیکن اس تفاوت کے علی الرغم انسانی شرافت کا یہ تقاضا ہے کہ :

اللہ تعالیٰ نے جن انسانوں کو اپنی مشیت اور مصلحت سے کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت دے رکھی ہے، ان کو اس فضیلت پر کسی قسم کا گھمنڈ یا فخر کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور جن انسانوں کو ان کا محتاج بنایا گیا ہے ان کو نظر استحسان سے دیکھنا چاہئے۔ ان کی کمزوری یا محتاجی سے کسی قسم کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانا چاہئے۔

انسان ہونے کی حیثیت سے امیر اور غریب، آقا اور غلام، گورے اور کالے سب برابر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں برتر و بزرگ صرف وہی انسان ہے جس میں خدا ترسی اور پرہیزگاری پائی جاتی ہے۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہوتا ہے:

’’اے لوگو! ہم نے تم کو پیدا کیا ایک مرد اور ایک عورت سے اور بنائیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ تمہاری پہچان ہو۔ بے شک اللہ کے ہاں وہی زیادہ شریف و بزرگ ہے جو زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو‘‘ (پ26، ع 13)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت مندرجہ ذیل دو حدیثوں میں بیان فرمائی ہے۔

’’تمام انسان کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں مگر یہ کہ تقویٰ کی بنا پر‘‘۔

’’اللہ تعالیٰ نے اسلام میں جاہلیت کے غرور اور حسب و نسب کے فخر و غرور کو یکسر ختم فرمادیا ہے، اس لئے کہ تمام انسان آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے تھے۔ ان میں اللہ کے ہاں اگر کوئی بزرگ قرار پاسکتا ہے تو وہ جوان میں زیادہ متقی ہے‘‘۔

کتاب و سنت سے صاف پایا جاتا ہے کہ :

’’اسلامی شریعت میں مساوات مطلق طور پر فرض کی گئی ہے۔ تمام انسانوں پر یا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا پر اس نظریہ کا اطلاق ہوتا ہے نہ فرد کو فرد پر فضیلت حاصل ہے نہ جنس کو جنس پر۔ آقا و غلام، حاکم و محکوم سب برابر ہیں ‘‘   ع…  نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

اب دیکھئے کہ نماز کس طرح دن میں پانچ وقت اسلام کے اس نظریۂ مساوات کی عملی تربیت کرتی ہے:

’’سب مسلمان مسجد میں مساوی الحیثیت ہیں ۔ ایک چمار اگر پہلے آیا تو وہ اگلی صف میں ہوگا۔ اور ایک رئیس اگر بعد میں آئے تو وہ پچھلی صفوں میں رہے گا۔ کوئی بڑے سے بڑا آدمی مسجد میں اپنی سیٹ (جگہ) ریزرونہیں کراسکتا۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو مسجد میں کسی جگہ کھڑا ہونے سے روک دے۔ یا جہاں وہ پہلے سے موجود ہو وہاں سے اس کو ہٹا دے۔ کوئی اس کا مجاز نہیں کہ آدمیوں میں سے پھاند کر صفوں کو چیر کر آگے پہنچنے کی کوشش کرے۔ سب مسلمان ایک صف میں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں گے۔ وہاں نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، نہ کوئی اونچ ہے نہ نیچ ۔ نہ کسی کے چھو جانے سے کوئی ناپاک ہوتا ہے  نہ کسی کے برابر کھڑے ہونے سے کسی کی عزت کو بٹّہ لگتا ہے۔ بازار کا جاروب کش آئے گا اور گورنر کے برابر کھڑا ہوجائے گا۔ یہ وہ اجتماعی جمہوریت (Social Democracy) ہے جسے قائم کرنے میں اسلام کے سوا کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہاں روزانہ پانچ وقت سوسائٹی کے افراد کی اونچ نیچ برابر کی جاتی ہے۔ بڑوں کے دماغ سے کبریائی کا غرور نکالا جاتا ہے۔ چھوٹوں کے ذہن سے پستی کا احساس دور کیا جاتا ہے اور سب کو یاد دلایا جاتا ہے کہ خدا کی نگاہ میں تم سب یکسں ہو‘‘۔

یہ صف بندی جس طرح طبقاتی امتیازات کو مٹاتی ہے اسی طرح نسل، قبیلہ، وطن اور رنگ وغیرہ کی عصبیتوں کو بھی مٹاتی ہے۔ مسجد میں کسی امتیازی نشان کے لحاظ سے مختلف انسانی گروہوں کے بلاک الگ نہیں ہوتے۔ تمام مسلمان جامع مسجد میں آئیں ، خواہ کالے ہوں یا گورے، ایشیائی ہوں یا فرنگی، سامی ہوں یا آرین اور ان کے قبیلوں اور ان کی زبانوں میں خواہ کتنے ہی اختلافات ہوں ، بہر حال سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے ہیں ۔ روزانہ پانچ وقت اس نوع کا اجتماع ان تعصبات کی بیخ کنی کرتا رہتا ہے جو انسانی جماعت میں خارجی اختلافات کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں ۔ یہ انسانی وحدت قائم کرتا ہے، بین الاقوامیت کی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور اس خیال کو دماغوں میں پیوست کر دیتا ہے کہ حسب و نسب اور برادریوں کی ساری عصبیتیں جھوٹی ہیں ۔ تمام انسان خدا کے بندے ہیں اور اگر خدا کی بندگی، عبادت پر، وہ سب پر متفق ہوجائیں تو پھر ایک امت ہیں ‘‘۔  (اسلامی عبادات از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت کو ایک ہی شعر میں قلم بند کر دیا ہے  ؎

بندہ و صاحب و محتاج غنی ایک ہوئے

 تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

(اقبال)

اسلام کے اسی نظریۂ مساوات کی بنیاد پر تمام انسانوں کو فکر و ضمیر، عقیدہ اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے،  اور خلافت راشدہ کی تقلید میں اب غیر مسلم قومیں بھی انسان کے حقوق کو اپنے ملی قوانین کے ذریعہ تسلیم کر رہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔