خلیج عرب میں ناول کے بانی: إسماعيل فهد إسماعيل

 محمد راشد الندوي

ہمارے ایک پروفیسر نے ہم سےسوال کیا کسی خلیجی ناول نگار کا نام بتاؤ۔۔۔، ہم خاموش رہ گئے، کیوں کہ ہم کسی نے غیرمصری ناول نگار سے واقف ہی نہیں تھے، لیکن  پروفیسر کے اس سوال  نے ہمیں خلیجی ناول نگاروں کی تلاش  پر مجبور کردیا۔

میں اور عادل بھائی فورا ہی انٹرنیٹ پر خلیجی ناول نگار کا نام تلاش کرنے لگے، اور ہمارے سامنے سب سے پہلے جو نام لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نمودار ہوا وہ تھا "اسماعيل فهد إسماعيل”۔

اور پھر یہی نام میرا پی ایچ ڈی کا موضوع بن گیا، ہمیں علم نہیں تھا کہ خلیج میں بھی ایک ایسے ناول نگار ہیں جن کے تحریرکردہ  ناولوں  کی تعداد 25 سے  بھی تجاوز کر چکی ہے، اور یہی نہیں بلکہ عربی زبان کے طویل ترین ناول نگار کا اعزاز بھی موصوف کو ہی حاصل ہے۔

"اسماعيل فهد إسماعيل” کے والد کویتی، اور ان کی  والدہ عراقی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت  بھی عراق میں ہوئی، ان  کے اندر ذوق مطالعہ پیدا کرنے  میں ان کے والد کا اہم کردار رہا، کیونکہ ان کی عمر چار سال  ہی تھی کہ ان کے والد بینائی سے محروم ہو گئے، گھر میں دینی، ادبی کتب اور عربی ماہناموں کا ذخیرہ موجود تھا، ان کے والد کے لیے کتاب کا مطالعہ کرنا ممکن نہیں تھا، لہذا انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل فہد کو عربی حروف سکھائے، اور پھر ان کی مدد سے لکھنا پڑھنا سکھایا، اسماعیل فہد اپنے والد کو روز کتاب   پڑھ کر سنایا کرتے۔

چھوٹی سی عمر میں  ہی انہوں نے "کلیلہ ودمنہ اور ألف ليلة وليلة"جیسی کتابوں کا مطالعہ کرلیا، ان کا معمول یہ تھا کہ روز جو بھی مطالعہ کرتے اس کو محلے کے بچوں اور بچیوں کے سامنے  بیان کرتے، کبھی کبھار اگر مطالعہ نہیں کرپاتے  تھے تو اپنی طرف سے بچوں کو کہانی سنایا کرتے، یوں ذوق مطالعہ اور شوق بیاں  پروان چڑھتا گیا، جس نے آخرکار ان کو خلیج کے صف اول کے ادیبوں میں  شامل کردیا۔

شروع  میں ان کو  شاعری کا شوق بھی چرایا، لیکن یہ شوق  زیادہ دن نہیں رہ سکا، بالآخر ان کی مکمل توجہ نثر نگاری کی جانب مبذول ہوگئی۔

ان  کی  سب سے پہلی  تصنیف  1965 میں "البقعة الداكنة”  منظر عام پر  آئی، اور  1970 میں ان کا پہلا ناول "کانت السماء زرقاء ” طبع ہوکر آیا، جس پر نامور مصری أدیب "صلاح عبد الصبور” نے مقدمہ لکھا، اور اس کو (رواية القرن العشرين) بیسویں صدی کا ناول قرار دیا۔

 انہوں نے عراق میں تقریبا 25 سال گزارے، جہاں کویتی ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ سوتیلا سلوک ہوتا رہا، لیفٹیننٹ کی طرف داری کی وجہ سے چار مرتبہ جیل بھی گئے، اس کے بعد کویت لوٹے، لیکن  شومئی قسمت کویت میں عراقی سمجھ کر ان کے ساتھ امتیازی رویہ برتاگیا، اس کے بعد  انہوں نے فلپائن کا رخ کیا، وہاں تقریبا دس سال گزارے، اسی دور میں  انہوں نے عربی زبان کا سب سے ضخیم ناول” سباعیات” لکھا جو کویت اور عراقی جنگ سے متعلق ہے، بعد ازاں سری لنکا میں بھی کچھ وقت گزارا، اورعراقی اور کویت جنگ پر اپنی ناراضی کااظہار کرتے رہے۔

 اسماعیل فہد اسماعیل نسلی تعصب کو ناپسند کرتے تھے، 1967 میں جب جمال عبد الناصر نے عرب قومیت کا نعرہ لگایا تو انہوں نے اس کی کھل کر حمایت کی،  انہوں نے کویت کے داخلی مسائل پر بھی کھل کر اپنے ناولوں کے ذریعے تنقید کی، سیاسی مسائل ہو یا معاشرتی، وہ اپنی ناولوں کے ذریعے سنجیدگی سے غور وفکر کی دعوت دیتے تھے، اور کہیں نا کہیں ان کےناولوں میں بقول ان کے ان کی زندگی کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔

ان کے اکثر ساتھی عراقی جنگ میں شہید ہوچکے تھے، ایک بار کہنے لگے کہ سب چلے گئے اب دیکھئے میری کب باری ہے،۔۔۔۔ سفر کویت کے درمیان میری ان سے طویل ملاقاتیں رہی ہیں،  پہلی ہی  ملاقات میں ان کی تواضع و انکساری، شفقت ومحبت نے مجھے متاثر کردیا تھا،  مجھے اپنی گاڑی سے ہوٹل چھوڑنے خود  آئے تھے، اپنا کام خود  ہی کرتے حتی کہ اس پیرانہ سالی میں بھی اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے تھے، ان سے جو بھی  ملاقات کرتا کبھی بھی اجنبیت محسوس نہیں کرتاتھا، انتہائی عاجزی سے پیش آتے، مجھے اپنی تمام کتابیں ہدیہ دی تھی، ایک کتاب ان کے پاس موجود نہیں  تھی تو کچھ دن بعد بیروت سے منگواکر دی، اور کویت کے بڑے ادباء سے بھی ملاقات کرائی، جن میں استاد طلال سعد رمیضی امین عام رابطة الأدباء الكويتين اور استاد سعود السنعوسي قابل ذکر ہیں، کویت کے نوجوان قلم کار وادباء ان کو اپنا استاد تصور کرتے ہیں، کبھی مادیت کی طرف مائل نہیں ہوئے، سری لنکا اور فلپائن میں اپنا گھر لے لیا تھا، لیکن ایسے ہی چھوڑ  کر واپس آگئے تھے۔

وفات سے ایک دن قبل کویت کے ادباء نے ان کے آخری ناول” صندوق أسود آخر” پر مبارک باد دینے کے لیے مجلس منعقد کی تھی، کسی کو گمان بھی  نہیں تھاکہ یہ ان کا آخری دن ہے، عالم عرب کے ادباء نے ان کی وفات کو عربی ادب کی دنیا کے لئے خسارہ قرار دیا، وزارت اعلام کویت نے بھی ان کے بڑے صاحب زادے اسامہ فہد کو تعزیتی پیغام بھیجا۔

جنازہ میں جم غفیر جمع تھا، جسے دیکھ  مجھے ان کا وہ جملہ یاد آگیا جب انہوں نے کہا تھا کہ "قبرستان کی طرف دیکھ کر دل کو طمانیت اور سکون فراہم ہوتا ہے۔”

میں جب ان کے پاس موجود تھا وہ اپنی ناول "السلبیات” کی پروف ریڈنگ کر رہے تھے کہہ رہے تھے اپنی تحریر کی پروف ریڈنگ کرنا بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے، سوشل میڈیا اور فون کے ذریعے میں ان کے رابطے میں رہتا، ہر بات کا جواب دیتے، فون پر کبھی کبھار انگریزی میں بات کرلیتے، جس سے ان کی انگریزی زبان میں مہارت کا اندازہ ہوتا ہے، وہ پڑھنے لکھنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے، جس کی وجہ سے ان کی عائلی زندگی پر بھی کافی اثر پڑا، ان کی دو بیویاں صرف اس لیے چھوڑ کر چلی گئیں کہ صرف پڑھائی میں ہی مصروف رہتے ہیں، جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کو حق تھا وہ چلی گئیں، لیکن ایسی عورت ملنا بہت مشکل ہے جو ہر قربانی برداشت کرلے۔

ان کی طبع شدہ کتابوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے، جن میں تیس سے زائد ناول ہیں،  یہ کتابیں  واقعتا ایسی کتابیں ہیں جو دعوت فکر وانبساط دیتی ہیں،  ثلاثیات رباعیات او ر سباعیات یہ ایسی سیریز ہےجو عربی ناول نگاری میں ایک مقام رکھتی ہے۔

اے ابو فہد!

آپ کی جدائی کا مداوا کرنے کے لئے نہ ہمارے پاس کوئی الفاظ ہیں نہ ہی تعبیرات، آپ ہماری نگاہوں سے دور ہوگئے مگر دل سے کبھی دور نہ ہوسکیں گے۔

رحمه الله.

تبصرے بند ہیں۔