قاضی اطہر مبارکپوری

مبصر: امتیاز شمیم

مصنف: ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی

مترجم: محمد معتصم اعظمی

اشاعت: اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن، نئی دہلی
قیمت: 100روپے

ماضی قریب میں ہندوستان کی علمی شخصیات کے مابین قاضی اطہر مبارکپوری کی شخصیت نہایت ہی بلند و بالا رہی ہے،ان کی خدمات کے مختلف شعبے تھے اور ان میں سے ہرشعبے میں انھوں نے کمال ہنروری کا مظاہرہ کیاہے۔ زیر نظر کتاب ’’قاضی اطہر مبارکپوری‘‘ جیسا کہ نام سے ہی واضح ہوجاتاہے، انہی کے سوانح حیات سے متعلق ہے، اس میں آپ کی پیدایش سے لے کر وفات تک کی علمی اور عملی زندگی کا مجموعی خاکہ مختصر انداز میں کھینچا گیاہے، یہ کتاب در اصل عربی زبان میں لکھے گئے ایک کتابچے ’’القاضی أبو المعالی أطہر المبارکفوری‘‘  کاترجمہ ہے، اس کتابچے کی تصنیف جامعہ کے اسسٹنٹ پروفیسر اور عربی زبان وادب میں گراں قدر خدمات کے عوض ’’صدر جمہویہ ایوارڈ‘‘ سے سرفراز ہوچکے ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی صاحب نے کی تھی اور اپنی ادارت میں نکل رہے سہ ماہی عربی میگزین ’’مجلۃ الہند‘‘ میں شائع کیا تھا، بعد میں اسے باضابطہ کتابی شکل دی گئی، اب اس کا اردو ورژن بھی منظرعام پر آیا ہے، ترجمہ نگاری کا کام محمد معتصم اعظمی نے انجام دیاہے، موصوف عربی زبان وادب میں پی ایچ ڈی ہیں، ترجمہ نویسی کااچھا ذوق رکھتے ہیں اور قاضی صاحب کی مشہور تصنیف ’’عرب وہند عہد رسالت میں‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی کر چکے ہیں، یہ کتاب ان کا دوسرا اہم کام ہے، انہوں نے افادۂعام کے پیش نظر اس کو اردو میں منتقل کیاہے اور اس کے لیے وہ قابل مبارکباد ہیں۔

قاضی صاحب کی پیدایش ۱۹۱۴ء میں مبارکپور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم ’’احیاء العلوم‘‘ مبارکپور سے حاصل کی اور جامعہ قاسمیہ مرادآباد سے دورۂ حدیث مکمل کیا، آپ ایک مصنف، مؤرخ، تحقیق نگار، صحافی، ادیب، شاعر اور مترجم تھے، شعر وشاعری سے بھی دلچسپی رکھتے تھے، اردو صحافت سے بھی آپ کا مضبوط رشتہ رہا؛ چنانچہ انہوں نے کئی اخبار ورسائل میں مدیر اورنائب مدیر کی حیثیت سے کام کیا، ممبئی سے شائع ہونے والے مشہورروزنامہ’’انقلاب‘‘ اور ہفتہ وار اخبار’’البلاغ‘‘ کا نام سر فہرست ہے، ان کی علمی بلند قامتی اس حد تک تھی کہ نہ صرف ہندوستان میں ان کا شمار بڑے علمائے دین میں تھا؛ بلکہ عرب ممالک میں بھی انہیں مقبولیت حاصل تھی اور کئی چھوٹے بڑے اداروں میں اعلی عہدے پر فائزتھے، آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے بانی ممبر تھے، دارالعلوم ندوۃ العلما کی مجلس شوری اور دارالعلوم دیوبند کی مجلس علمی کی رکنیت حاصل تھی۔دیوبندکی شیخ الہند اکیڈمی کے بھی نگراں رہے۔

ان کی تصنیفی خدمات کا دائرہ بہت متنوع اور وسیع ہے، انہوں نے اسلامی تاریخ، تفسیر اور علم حدیث ومحدثین کے ساتھ ساتھ فقہائے کرام کی حیات وخدمات وافکاروخیالات اوردیگر علمی واسلامی موضوعات پر لازوال علمی سرمایہ چھوڑا ہے، خاص طور سے عرب وہند کے مابین تعلقات پر آپ کی کئی گراں قدر کتابیں ہیں، زیر تبصرہ کتاب اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں آپ کی تقریبا ساٹھ مطبوعہ اورغیر مطبوعہ کتابوں کا ذکر ہے، ان میں سے بعض کا قدرے تفصیلی اور بیشتر کا بالاختصار جائزہ بھی پیش کیاگیاہے۔

یہ کتاب گو مختصر ہے، مگر اس میں جامعیت ہے اور قاضی صاحب پرعربی میں لکھی گئی سب سے پہلی باضابطہ اورمنظم کتاب ہے، مصنف نے تحقیق اور باریک بینی سے کام کیاہے اور آپ کی زندگی کی مختلف جہتوں کو قاری کے سامنے لانے کی کامیاب کوشش کی ہے، کتاب کے اخیر میں مصادر ومراجع کی لمبی لسٹ اس کا بین ثبوت ہے، ترجمہ مین آسان لب ولہجہ کا خاص لحاظ رکھاگیا ہے، اس میں سلاست ہے، روانی ہے اور دلکشی ہے، حکیم شمیم ارشاد اعظمی صاحب کتاب کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ:

’’ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے ،لیکن زیر نظر کتاب دیکھ کر بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد معتصم نے اس فن کا نہ صرف حق ادا کیا، بلکہ بسا اوقات اصل کتاب اور ترجمہ میں تفریق مشکل ہوجاتی ہے‘‘۔

طباعت واشاعت کا اہتمام اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن، نئی دہلی نے کیا ہے، سن طباعت ۲۰۱۷ء ہے، ٹائٹل خوب صورت ہے، جس کے بیچوں بیچ قاضی صاحب کی خوش رو تصویر بھی لگائی گئی ہے، کاغذ بھی اچھا ہے، صفحات کی تعداد ایک سو چودہ اور قیمت سو روپے ہے۔ امید ہے کہ اردو داں حلقے میں اس کتاب کو پذیرائی حاصل ہوگی اور قاضی صاحب کی حیات وخدمات پر تحقیق کرنے والے افراد اس کتاب سے رجوع کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔