خواجہؒ کاسلک وتصوف امن وآشتی کاپیغام ہے!

محمد انصارالحق قاسمی

آپ کا نام سید معین الدین حسن ابن حضرت سید غیاث الدین حسن اور داداکانام سید نجم الدین طاہر رحمہم اﷲہے اور والدہ ماجدہ کا نام ام الوراء ؒمعروف بہ ماہ نورہے۔آپ دوبھائی تھے۔اولاد میں تین لڑکے خواجہ فخرالدینؒ ابوالفاخر، خواجہ حسام الدینؒ ، خواجہ ضیاء الدینؒ ابوسعیداور ایک بیٹی بی بی حافظہ جمال ؒ ہیں ۔آپ کا نسب حسینی ہے جوکہ حضرت علی سے جاکرشجرہ ملتاہے۔

آپ کی پیدائش 530 ھ  1135 ء چشت،سنجرگائوں میں ہوئی ، صوبہ خراسان وسستان ،ایران کے علاقہ میں ہے جوقندھار سے شمالی جانب 24 کیلومیٹر کے فاصلہ پرواقع ہے۔آپ کے والد خواجہ غیاث الدین حسنؒ بہت ہی نیک صفت اور بزرگ تھے۔ جائے پیدائش اس وقت حکومت کی ریشہ دوانیوں سے دوچارتھے، حالات ناگفتہ بہ تھے۔ آپ کے اہل خانہ بھی حکومت کے عدم تعاون اورمختلف دشواریوں کی زدمیں تھے جس کی بناء پر ہجرت کافیصلہ کرناپڑا۔والد بزرگوارخواجہ غیاث الدین حسنؒنیشاپورکوچ کرگئے، اس وقت نیشاپوراسلامی مرکزکہلاتھا ،نیشاپور علمی ،دینی اورتصوف کاگہوارہ تھا۔مگر وہاں بھی حکومت الٹ پلٹ کی وجہ سے نیشاپورکاوجود خطرہ میں تھااسی اثناء میں حملہ آوروں کا نیشاپورپریلغارہوا، جس میں آپ کے والدین بھی حادثہ کاشکارہوئے۔اور1150 ء میں داعی اجل کولبیک کہاانا ﷲواناالیہ راجعون۔گویاکہ آپ بچپن ہی میں والدین کی محبت ،شفقت اورسایہ سے محروم ہوگئے، جب آپ کی عمر 15 سال کی تھی۔ والد محترم کی وراثت سے ایک پن چکی اور باغ آپ کے حصہ میں ملا۔دن بھر آپ اسی باغ میں وقت گزارتے اور باغ کی آبیاری کرتے رہتے تھے۔

ایک دن کاواقعہ ہے کہ ایک مجذوب شیخ ابراہیم قندوزی باغ میں تشریف لائے۔ اس وقت آپ باغ میں بیٹھے تھے۔جب اس مجذوب پر آپ کی نظرپڑی تو ادباً آپ اٹھ کھڑے ہوئے اورآپ نے مجذوب کاعقیدت ومحبت کے ساتھ والہانہ استقبال کیا۔ شیخ قندوزی بہت متأثرہوئے کہ ایک اجنبی آدمی کو احترام وعزت دے رہاہے ،مجذوب نے خواجہؒ کودعائیں دیں ، سرپر ہاتھ رکھااور ایک تل کی روٹی کاٹکڑادیا جس کوآپ نے کھایا، روٹی کھاتے ہی آپ نے خودکو ایک دوسری دنیا میں پایا، جب آنکھیں کھلیں تو مجذوب وہاں موجود نہیں تھے۔اس طرح خواجہ ؒ کی زندگی کو دوسری دنیا میں بدل دی۔دل کے اندر جوبھی دنیاوی محبت ، حرص وطمع اور لہوولعب تھے سب سے پاک وصاف ہوگئے۔اس وقت سے ہی دنیا وی زندگی کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔آپ کو یہ احساس ہونے لگاکہ حقیقی زندگی یہ نہیں کچھ اور ہے جس کی تلاش کی خاطر آپ ہر چیز کو خیرآباد کہہ دیا۔ اور باغ کو فروخت کردیا جس سے آپ کے اہل خانہ کاخرچہ چلتاتھا۔ اس پیسے کو اپنے وارثوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا۔

خواجہؒ نے حصول علم کیلئے بخارا کی طرف سفرکیا جوکہ اس وقت علوم ظاہری اور باطنی کامرکزتھا۔وہاں شیخ حسام الدینؒ سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے آپ کوتمام علوم وفنون سے آراستہ کیانیزمشہور ومعروف علماء سے تلمذ ہونے کاشرف حاصل ہوا،بالآخر علوم ظاہری پر مکمل عبور حاصل کرلی۔سمرقندبھی دین اسلامی کاگہورہ تھا وہاں بھی آپ نے دینیات، فلسفہ او ر دیگرعلوم سے بحرورہوئے ۔تقریباپانچ سال میں آپ نے بخارا ور سمرقندکے اندرمکمل علوم پردسترس حاصل کرلی۔

خواجہ ؒ نے یہاں سے روحانی سفرکاآغازکیااورقصبہ ہارون یہ بھی خراسان،ایران کاعلاقہ تھا۔ جہاں خواجہ عثمان احمدؒ ہارونی کی خدمت میں حاضری دی اور ان سے بیعت ہوئے۔انہوں نے آپ کو مریدِ خاص میں شامل کیا، آپ نے اس خانقا ہ میں بھی کئی درویشوں سے علوم باطنی کاشرف حاصل کیا۔ تیس سال تک آپ نے علم روحانی کے حصول کیلئے محنت وریاضت کرتے رہے۔اس بیچ آپ نے شیخ کے ساتھ بغدادمیں محی الدین شیخ عبدالقادرجیلانی سے ملاقات کی جہاں دیکھاکہ ایک علماء کی جماعت عشق الہی میں مست ومگن ہے۔دمشق ہوتے ہوئے حرمین شریفین کی بھی زیارت کی۔1186 ء میں یہ محنت وریاضت رنگ لائی ۔للٰہیت وخلوص نے آپ کو علوم باطنی پر مکمل کامیابی ملی۔ شیخ ہارونیؒ نے جب دیکھاکہ یہ لعل وگوہراپنی روحانی طاقت سے قلوب باطنی وظاہری کو منورکرسکتاہے،خداکے حکم سے ذرہ برابر بھی منحرف نہیں ہوسکتا تو شیخ ہارونیؒ نے خواجہؒ کو خلوت وجلوت سے سے سرفرازفرمایااور خلافت کے ساتھ ساتھ اپنا روحانی جانشیں مقررکیا۔آخرمیں شیخ ہارونیؒ فرماتے ہیں کہ’’ اے معین الدین یہ سب تعلیم تمہاری مکمل تربیت کے لئے تھی، تمہیں ان تعلیمات پر پوری زندگی عمل کرناہے تاکہ قیامت کے دن مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔‘‘

خلافت کے بعد 1187 ء میں آپ عازم حج ہوئے ۔وہاں حج وعمرہ کی ادائے گی کے بعدہٗ مدینہ منورہ روضۂ اقدس پر حاضری دی۔وہاں آپ کو تاجدارمدینہ  ﷺ کاحکم ہوتاہے اے معین الدین ہندوستان( اجمیر) کاسفرکرو۔واپسی میں آپ وطن مالوف چشت،سنجر،سیستان تشریف لے گئے ۔ وہاں سے تبلیغ کیلئے ہندوستان کی طرف رخ کیا۔ہرات،بلخ ہوتے ہوئے سبزوارپہونچے۔سبزوارکاحکمراں شیخ محمد یادگاراس وقت دین سے بے رغبتی کی وجہ سے حقو ق العباد کو نہیں نبھاتاتھا۔ خواجہؒ کو وہاں کی رعایا نے شکایت کی کہ ہم لوگوں پر بہت ہی ظلم وزیادتی کرتاہے۔ آپ نے دین حمیت کی خاطر راہ راست کاسبق دیا اور جب آپکے رابطہ میں آیاتو ایک نیک صفت انسان اورحکمراں کے ساتھ آپ کامریدبن گیا۔ آخر میں تمام دنیاوی خواہشات وترک سلطنت کرکے حضرت کے ہمراہ ہوگئے۔سبزوارسے غزنی کاسفرکیا۔آپ کے ساتھ سلطان المشائخ اوحدالدین کرمانی، قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ، شیخ محمدیادگاراور سیدالسادات فخرالدین غزنوی مع چالیس رفقاء کے ہندوستان کی طرف گامزن ہوئے۔ ولیوں کایہ قافلہ ہندوستان کی سرحدہوتاہواپہاڑوں ،وادیوں اور ریگستانی علاقوں نے حضرت کے بلند حوصلہ، ہمت کوپست نہ کرسکا۔ اس طرح پنجاب سے گزرتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے۔

آخرمیں شیخ علی ہجویری ؒ جوکہ داتاگنج بخش سے معروف پٹن، لاہور میں ہیں انکے مزارمبارک پر حاضرہوئے اور تقریبا ًدوہفتہ تک حاضررہے اورروحانی فیوض وبرکات سے مستفیض ہوئے ۔لاہورچھوڑنے کے بعدپٹیالہ پہونچے۔ بظاہر وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے، لیکن اندرونی طورپروہ آپ کے دشمن تھے۔چونکہ پرتھوی راج کو کسی نے یہ کہاتھا کہ تمہارے سلطنت کازوال ایک درویش کے ذریعہ ہوگا اورتمہاری حکومت تباہ وبربادہوجائے گی۔ درویش کے حلیہ کے بارے میں بھی بتایا تھاکہ وہ اس شکل و ہیئت کے ہوں گے۔اسی وقت سے سرحدی علاقوں میں پرتھوی راج نے اپنے جاسوس چھوڑدیئے تاکہ وہ پہچان سکے ۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیاتھاکہ جیسے معلوم ہوجائے یہ وہی شخص ہے توقتل کردینا۔ ان لوگوں کی تمام حضرات سے ملاقات ہوئی اور شبہ میں پڑگئے شاید یہ وہی لوگ ہیں ،تفتیش بھی کی۔ لیکن مشیت الہی کچھ اور تھی ۔وہ لوگ اس طرح متأثر ہوئے کہ صحیح شناخت نہ کرسکے۔ اور یہ ولیوں کاقافلہ دشمنوں سے محفوظ اپنی منزل پر آگئے۔اجمیر پہنچنے پر خواجہؒ ایک درخت کے سایہ میں آرام فرمائے،تھوڑی دیر کے بعد شتربان آیا اورکہاکہ یہ بادشاہ کے اونٹ کے بیٹھنے کی خاص جگہ ہے۔شتربان بضدہوگیاآپ ؒبہت ہی شائستگی سے جگہ چھوڑدی تاکہ احساس نہ ہو۔ اپنے مریدوں کوساتھ لیکراناساگر(اجمیر میں جھیل) تالاب کے کنارے ایک پہاڑی پر قیام فرمایا۔ایک دو دن بعد ہی اونٹ درخت کے سایہ میں پائوں نہیں رکھ رہاتھا۔ اس کی خبر پرتھوی راج کوہوئی تواس واقعہ سے حیرت زدہ رہ گیا۔یہ حضرت کاپہلاکرشمہ تھا۔بادشاہ نے حکم دیاکہ جاکرمعافی مانگو۔ شتربان نے بہت ادب واحترام اورمنت وسماجت کے ساتھ معافی مانگی۔ حضرت نے حسن معاشرہ کاسلو ک کرتے ہوئے معاف کردیا۔

واپسی پر اونٹ کواپنی جگہ پرصحیح وسالم پایا۔تالاب اناساگر کاخشک ہوجانا اور پھر پانی بھرنا اور جے پال کی جادوگری حضرت کے بہت ہی مشہور کرامات میں سے ہیں ۔بعدمیں جے پال ایمان لایاجوکہ ایک نیک ولی بن گیا۔اس وقت ہندوستان پر سلطان شہاب الدین غوری کی حکومت تھی۔سلطان پرتھو ی راج سے 7بارجنگ ہارچکاتھا۔ یہ وہی شہاب الدین غوری ہے کہ جب خواجہؒ، شیخ شہاب الدین سہروردی اورشیخ اوحد الدین کرمانی رحمہم اﷲ سیروسیاحت کے لئے غورپہونچے توایک نوعمربچہ تیروکمان لئے ہوئے حضرت کے سامنے سے گزرا، حضرت نے اس کو طلب فرمایا اورپوچھا تیرا نام کیاہے؟ لڑکانے جوا ب دیا میرانام شہاب الدین ہے۔ حضرت نے فرمایایہ لڑکا ایک روز دہلی کا بادشاہ ہوگا،حضرت کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی ۔ خواجہ ؒ سے لوگوں نے کہاکہ سلطان شہاب الدین پرتھوری راج سے جنگ ہارچکاہے توآپ نے فرمایا’’ جنگ وتلوار سے فتح نہیں ہوسکتی جب تک کہ ایمان کامل کے ساتھ توکل علی اﷲ نہ ہو ‘‘ سلطان شہاب الدین غورواپسی کے بعد خواجہؒکو خواب میں دیکھاکہ حضرت نے دعاء دی اور کمر پر ایک پٹی باندھی  اورکہاتیاری کرو،یہ مزدہ ٔ جاں فشاں ملناتھاکہ سلطان نے فوج کو حکم دیاکہ اجمیر پر حملہ کرو،یلغارکرتے ہی ایک دن میں فتح ہوئی جس کے مقابلہ کیلئے پرتھوی راج نے 150 راجائوں کے ساتھ انکی فوج کوبھی لڑائی میں شامل کیاتھا۔ ’’خواجہؒ نے خواب میں دیکھاکہ حضور ﷺ فرمارہے ہیں کہ اے معین الدین تم نے ساری سنتوں پرعمل کیا لیکن میری ایک سنت باقی ہے وہ ہے شادی‘‘۔1193 ء میں آپ نے ایک راجہ کی لڑکی سے شادی کی جومسلما ن تھیں ان کانام امۃ اﷲتھا۔ ان کے بطن سے پہلے دولڑکے اور ایک لڑکی بی بی حافظہ جمال ہوئیں ۔دوسری شادی 1223 ء میں بی بی عصمت اﷲسے ہوئی ۔ سید وجیہ الدین مشاہدی اس وقت اجمیر کے کمشنرتھے انکی بیٹی تھیں ۔ ان کے بطن سے آخری لڑکاسید ضیاء الدین ابوسعید ؒپیداہوئے ۔

ہندوستان میں تصوف اسلام کی تشہیرواشاعت میں معاون ومددگار ثابت ہواہے ۔ اس کی ابتداء ہی حضرت خواجہؒ سے ہی ہے، ویسے تصوف اسلام وشریعت میں کوئی نئی جہت اور فکرنہیں بلکہ شریعت وطریقت کے اصول کاپابند ہوناہی تصوف ہے،اسکی اصل ابتداء حضرت علی کرم الﷲ وجہہ سے ہوتی ہے۔اور چشتیہ سلسلہ بھی حضرت علی سے جاکر ملتاہے۔حضرت امام جعفر ؒنے تصوف کو ایک نئی جہت اور رخ دیدی ہے جوکہ پیشوائے مشائخ اورعشا ق وزہاد کے مقتداء بھی ہیں ۔ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حضرت دائو دطائی تشریف لائے اورفرمایا آپ اہل بیت ہیں مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ۔ مگرآپ خاموش رہے جب دوبارہ سوال کیا کہ اہل بیت ہونے کے ناطے آپ کو اﷲ تعالی نے فضیلت بخشی ہے اس اعتبار سے نصیحت کرنا بمنزلہ فرض کے ہے۔ آپ سنتے ہی فرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ روز محشر میں کہیں میرے جدے اعلیٰ کاہاتھ پکڑکر یہ سوال نہ کربیٹھیں کہ تونے میری اتباع کیوں نہیں کی؟ اسلئے نجات کاتعلق کرداروعمل پرموقوف ہے نہ حسب ونسب پر۔ولی ظاہرمیں مخلوق کیلئے اورباطن میں خالق کیلئے۔جب تک انسان خداکی یادمیں دیوانہ نہ ہوجائے اس وقت تک قدرت کے رموزواسرارمنکشف نہیں ہوتے۔اس کیلئے ظاہر میں شعائر اسلام کاپابند ہونالازم وضروری ہے۔حضرت بایزیدبسطامی ؒ فرماتے ہیں جوکہ مادرزاد ولی تھے کہ تصوف نام ہے ’’شریعت وطریقت کا‘‘،جس میں صرف شریعت ہوطریقت نہیں اس کی زندگی فسق وفجورپر مبنی ہے اورجس میں طریقت ہو شریعت نہیں وہ زندیقیت ہے۔ چنانچہ تصوف میں چار سلسلے ہوتے ہیں ۔ چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ اورقادریہ سلسلے بزرگان دین نے اصلاح کیلئے زیادہ مؤثرسمجھااس کومتعین کردیا۔سہروردیہ سلسلہ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ سے ہے، چشتیہ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سے ہے، قادریہ سلسلہ حضرت شیخ عبدالقدرجیلانیؒ سے ہے اورنقشبندیہ سلسلہ حضرت بہاؤ الدین نقشبندی سے ہے۔ا ن چاروں میں سے ہرایک ایساہے کہ اگر اسکواختیارکرلیاجائے تو سلک وتصوف حاصل ہوسکتی ہے۔

حضرت حاجی امداداﷲمہاجر مکی ؒ فرماتے ہیں کہ اتباع وسنت کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں محبوبیت ہے اورمحبوبیت کاخاصہ ہے کہ جب انسان اتباع سنت کاطریقہ اختیارکرتاہے تواﷲتعالیٰ اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جیساکہ اﷲکافرمان ہے’’ اﷲ  تعالی اپنی طرف کھینچ لیتاہے جس کو چاہتاہے اور ہدایت دیتاہے اس شخص کو جواﷲتعالیٰ سے رجوع کرے‘‘(سورہ شوریٰ)۔اتباع سنت ا سکوکہتے ہیں جوطریقہ ہمارے نبی ﷺ نے تجویز فرمایا اور اس پرعمل کرکے دکھایا، یہی اتباع وسنت شریعت وطریقت ہے۔خواجہ ؒ کے خلیفہ ٔ اجل قطب الدین بختیارکاکی ہیں ،سلطان شمس الدین التمش اور بابافریدالدین گنج شکربختیارکاکیؒ کے خلیفہ ہیں اورگنج شکرؒسلطان المشائخ حضرت محبوب الہی نظام الدین اولیاء ؒ کے پیرومرشد ہیں ۔

مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستان کفر و شرک کا گہوارہ تھا، اصنام پرستی عام تھی، ایمان بالغیب کا کوئی تصور نہ تھا کیونکہ یہاں کے باسی محسوس خداؤں کی پرستش کے خوگر بن چکے تھے۔ ہر سْو ظلم و بربریّت کا دور دورہ تھا۔ مختلف مذاہب کے لوگ تو درکنار، ایک ہی دھرم کے پجاریوں میں بھی مساواتِ انسانی کا کوئی تصور نہ تھا۔ ایک آدم کی اولاد چار ذاتوں میں منقسم ہو چکی تھی۔ کسی کی جان و مال یا آبرو محفوظ نہ تھی۔ عورت کو ذلیل سمجھا جاتا ، وہ اپنے شوہر کی موت پر اس کی چتا میں زندہ جل مرنا اپنا مذہبی فریضہ گردانتی تھی۔ برہمن دیگر ہندوؤں کیلئے معاشی مالک تھے۔ اِن حالات میں برصغیر میں مسلمانوں کے دو گروہ داخل ہوئے۔ ایک مسلم فاتحین جنہوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور دوسرے مسلمان صوفیاء عظام، جنہوں نے یہاں کے باسیوں کے دِلوں کو مسخر کیا۔ اِن دونوں طبقات نے برصغیر کی انسانی تہذیب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ مؤخرالذّکر طبقے کے لوگ ایسے بلند کردار، انسان دوست اور بااخلاق تھے کہ انہوں نے رنگ و نسل اور مذہب وملت کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر ایک تک اپنا محبت بھرا پیغام پہنچانے کی سعی کی۔ اِن شخصیات میں اتنی کشش تھی کہ دوسرے مذاہب کے پیرو کار بھی اِن کی خانقاہوں پرحاضری دیتے اور اِن کے پیغام کی تاثیر سے حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے۔

اِن برگزیدہ ہستیوں میں ایک نام حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین حسن سجزی ثم اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کا ہے، جو ہند میں سرخیلِ اولیائِ چشت مانے جاتے ہیں  دراصل خواجہ معین الدین چشتی ؒکی اجمیر میں آمد سے قبل ہندو ذات پات کے ایسے نظام میں جکڑے ہوئے تھے کہ ادنیٰ ذات کے ہندوؤں کو اعلیٰ ذات کے مندروں میں جانے تک کی بھی اجازت نہ تھی۔ اگر کوئی مسلمان ان کی رسوئی میں پاؤں رکھ دیتا تو اِن کا سب کچھ بھرشٹ ہوجاتا تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے چھوت کے اس بھیانک ماحول میں اسلام کا نظریۂ توحید عملی حیثیت سے پیش کیا اور بتایا کہ یہ صرف ایک تخیّلی چیز نہیں بلکہ زندگی کاایک ایسا اْصول ہے جس کو تسلیم کر لینے کے بعد ذات پات کی سب تفریق بے معنی ہوجاتی ہے۔خواجہ غریب نواز ؒکی زندگی میں ہر مذہب کے پیروکاروں کو اْن کی درگاہ پر حاضر ہونے کی اجازت تھی۔ خواجہ اجمیریؒ نے اجمیر میں سکونت پذیر ہونے کے بعد لنگرخانہ قائم کیا جہاں ہندو اور مسلمان غرباء کو روزانہ کھانا ملتاچھات تھا۔

ہندوستان میں تصوف کاعروج حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری ؒ سے ہے اس کے بعد ایشیاء میں اس طرح تصوف کاعروج کسی سے نہیں ہواجس سے اسلام کی تشہیر بھی ہوئی ہو۔ خواجہ ؒ نے تصوف کے ساتھ ہندوستان میں اسلام کافروغ تصوف کے ذریعہ کیاہے۔ جوبلاجبرواکراہ مسلم غیرمسلم سب اس تجویز پر عمل پیرائے ، آج ہندوستان میں مسلمانوں کاوجود تعداد کے اعتبارسے ہے تو خواجہ ہی کی مرہون ومنت ہے کہاجاتاہے حضرت جس کی طرف بنظر خاص دیکھاچاہے وہ مومن ہویاکافروہ ولی بن جاتاتھا۔ یعنی روحانی اثر اس طرح پیوست کرجاتی تھی کہ جوبھی رجوع ہوتااس کا دل تمام دنیاوی چیزوں سے پاک وصاف ہوجاتھا،خواجہ ؒ کے بے شمارکشف وکرامات ہیں ،یہ فیض روحانی آنے والی نسل اورتمام عالم انسانیت کیلئے ایک نمونہ ہے اورخواجہ کاسلک وتصوف امن وآشتی کا پیامبرہے۔ آپ کاوصال 6 ؍رجب المرجب 627 ھ ،1229 ء کو ہوا۔آپ کامزاراجمیر صوبہ راجستھان میں واقع ہے۔

تبصرے بند ہیں۔