دارالقضاء: اہمیت و ضرورت

مفتی محمد تجمل حسین قاسمیؔ

(استاذِ حدیث و فقہ دارالعلوم حیدرآباد)     

موجودہ دور فتنوں کا دور ہے، عالمِ اسلام پر صیہونی اور صلیبی طاقتوں کی یلغار ہے، الکفر ملۃ واحدۃ کے مصداق تمام کافرانہ طاقتیں نہ صرف مسلمانوں کو صفحہء ہستی سے مٹانے میں کوشاں ہیں بلکہ دینِ اسلام اور شریعتِ محمدی کی بیخ کنی میں تمام باطل طاقتیں اپنی قوتیں صرف کرنے میں متحد نظر آتی ہے، حرمین شریفین جیسے مہبطِ وحی مقاماتِ مقدسہ جیسے عظیم ملک میں جہاں محمڈن لاء کا نفاذ ہوتا ہے وہا ں دجالی ابلیسی نظام نے اپنے پنجے گاڑنا شروع کردیئے ہیں، مقامِ قدس(فلسطین) اسرائیلی انبیاء کی آماجگاہ ہے جہاں قرونِ اولی میں کئی ایک پیغمبروں نے عدالتِ الہیہ کا قیام عمل میں لایا تھا، وہاں آج فرعونی و نمرودی طاقتوں نے دجالی نظام کا سکہ بٹھانے کے لئے القدس کو دارالسلطنت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاکہ پوری دنیا میں انا ربکم الاعلی کی منحوس آواز غالب کردی جائے، اور پھر پوری دنیا میں فرعونی و دجالی نظام کا جال پھیلایا جاسکے، اسی تناظر میں  ہندوستان کی موجودہ حکومت کے تانے بانے دجالی طاقتوں سے کچھ زیادہ ہی ملے ہوئے ہیں، اسی بناء پر محمڈن لاء کے عائلی قوانین کو حرف غلط کی طرح مٹایا جارہا ہے، بلکہ دینِ اسلام کے محفوظ ترین قلعے مدارس و مساجد کا وجود بھی خطرے میں پڑگیا ہے، ایسے وقت میں عالم اسلام کی سرد مہری عنداللہ سخت ترین مؤاخذہ کا اندیشہ ہے، مؤاخذئہ الہی سے بچنے کے لئے عامۃ المسلمین اور خاص طور پروارثینِ انبیاء، مسلم ممبرانِ سلطنت و دانشورانِ ملت کو متحد و متفق ہوکر مسلم پرسنل لاء کو مزید استحکام بخشنے کے لئے سرگرم عمل ہونا چاہئے!

طاغوتی و ابلیسی نظام کا مقابلہ کئی ایک تدابیر سے کیا جاسکتا ہے، مگر ان میں سب سے زیادہ مؤثر تدبیر پورے ملک میں اثر انداز ہوسکتی ہے وہ مسلم پرسنل لاء کے زیرِ نگرانی نظامِ دارالقضاء کا قیام ہے، تاکہ ملک کے طول و عرض، شہر بہ شہر، گاؤں درگاؤں نظام شریعتِ محمدی کا جال بچھا کر پوری امتِ مسلمہ کو واعتصموا بحبل اللہ جمیعا کے مصداق ایک ہی لڑی میں پرو کر دجالی نظام کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، اس میں انشاء اللہ تحفظِ دین کے ساتھ طلاق و خلع کے جملہ مسائل کا حل بھی ہے، اور حکومت کی ناپاک نیتوں کا خاتمہ بھی ہے، کیونکہ انسانی مشنری بنانے والے خالق نے ہم کو اپنا خلیفہ اسی لئے بنایا کہ پوری دنیا میں عدالتِ الہیہ کا قیام عمل میں لاکر ابلیسی نظام کی بیخ کنی کی جاسکے(البقرۃ، آیت ؍۳۰)۔

چنانچہ ہر دور میں اللہ نے اپنے پیغمبروں اور انکے جانشینوں سے یہ کام لیا ہے، جب نمرودی طاقت نے سر ابھارا تو ابراہیمی قوت نے اسکی سرکوبی کی، اور جب فرعونی طاقت نے انا ربکم الاعلی کا نعرہ لگایا تو موسوی طاقت نے اسکا گلا گھونٹ دیا، بولہبی و بو جہلی قوتوں نے سر ابھارا تو شریعتِ محمدی کے علمبرداروں نے اسکو کیفر کردار تک پہنچادیا۔

ملتِ اسلامیہ کے عوام و علماء و دانشوران قوم کی بھاری ذمہ داری ہے کہ عدالت الہیہ کے نفاذ کے لئے مسلم پرسنل لاء کے منشور دارالقضاء کی تحریک کو صوبہ کے ہر سمت پھیلائیں، دارالقضاء کا قیام محلہ محلہ قائم کرنے کا عزمِ مصمم کریں، نظامِ قضاء کے قیام کے سلسلے میں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ و فقہاء و قضاۃِ اسلام کے رہنمایانہ خطوط ہمارے لئے حجت ہیں۔ پہلے آپ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ قضاء کسے کہتے ہی ؟

اس سلسلے میں فقہائے کرام نے الگ الگ انداز میں قضاء کی تعریف فرماکر امتِ مسلمہ کو ہر پہلو سے قضاء کی اہمیت کو سمجھایا ہے ؛

(۱)حنفیہ کے نزدیک باہمی خصومتوں اور آپسی جھگڑوں کے خاتمہ کا نام قضاء ہے، (ابن منظور لسان العرب، ۱۵؍۱۸۶)

(۲)مالکیہ کے نزدیک کسی شخص پر شرعی حکم کو لازم کرنے کے طریق پر حکمِ الہی سے باخبر کرنا قضاء کہلاتا ہے، (الحطاب مواھب الجلیل، ۶؍۶۸)۔

(۳)شوافع کے نزدیک دو یا دو سے زائد افراد کے درمیان پائی جانے والی خصومتوں کو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا قضاء کہلاتا ہے، (الشربینی مغنی المحتاج، ۴؍۲۷۳)۔

(۴)حنابلہ کے نزدیک شرعی حکم کو واضح کرنے اور اسکے لازم کرنے کو قضاء کہتے ہیں، (الفتوحی منتھی الارادات، ۲؍۵۷۱)۔

(۵)علامہ قرافی مالکی ؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ’’الحکم انشاء الزام او اطلاق ‘‘، کسی چیز کو لازم کرنے یا کسی چیز کے لزوم کو ختم کرنے کو قضاء کہتے ہیں، (تبصرۃ الحکام علی ھامش، ۱؍۱۲)۔

قاضئی شرعی کیسا ہو ؟

مذکورہ معانی کی پیشِ نظر جو شخص لوگوں کے عائلی اور نزاعی معاملات کے تصفیہ کیلئے امیر کی جانب سے مقرر کیا گیا ہو، وہ قاضی شرعی کہلاتا ہے، (فتاوی عالمگیری ص؍۳۰۶، ج ؍۳)۔ قضاء کا منصب چونکہ اہم ہے، ہر کس و ناکس کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا، اس لئے جملہ آٹھ صفات کا ہونا ضروری ہے ؛

(۱)عاقل ہونا(۲)بالغ ہونا (۳)مسلمان ہونا(۴)آزاد ہونا (۵)بینا ہونا، نابینا کو قاضی بنانا درست نہ ہوگا(۶)بولنے والا ہونا ضروری ہے، گونگا شخص اس کا اہل نہیں ہے (۷)سننے والا ہونا ضروری ہے، بہرے کو قاضی نے بنایا جائے (۸)ایسا عادل ہو کہ کسی پر تہمت لگانے کی وجہ سے اس پر سزا نافذ نہ کی گئی ہو، (بدائع الصنائع، ص ؍۳، ج۷)۔

دارالقضاء کا قیام امتِ مسلمہ پر واجب ہے !

خلف اور سلف سب کا اتفاق ہے کہ حالات امتِ مسلمہ پر کتنے ہی دشوار ہوں دارالقضاء کا قیام اور اس کا نظام امت پر لازم اور ضروری ہے، لا خلاف بین الائمۃ ان القیام بالقضاء واجب(تبصرۃ الاحکام ۱؍۱۲ )۔

قضاء کے قیام کا واجب ہونا کتاب اللہ سے بھی ثابت ہے۔ اللہ تعالی نے داؤد  ؑکو منصب قضاء کی ذمہ داری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھوی‘‘(صٓ ۲۶)۔

اور حضرت سلیمان  ؑکو بھی فیصلہ کرنے کا حکم فرمایا :’’اذ یحکمن فی الحرث ‘‘(الانبیاء، ۲۸)۔

 اللہ تعالی نے کئی ایک مواقع پر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو شریعتِ مطہرہ کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم فرمایا :وان احکم بینہم بما انزل اللہ ‘‘(مائدہ، ۴۸)۔

مسلمانوں کے لئے شرعی فیصلوں کا تسلیم کرنا لازم ہے !

امتِ مسلمہ کو چاہئے کہ ہر حال میں شرعی فیصلوں کو تسلیم کرے اگر کوئی مسلمان اس سے اعراض کرے تو اس کے کفر کا اندیشہ ہے، ارشادِ ربانی ہے :’’فلاوربک لایؤمنون ‘‘الخ، جو لوگ باہمی نزاع میں آپ ﷺ کو حَکَم تسلیم نہ کریں اور آپ ﷺ کے فیصلہ کوبسرو چشم قبول کرنے کو تیار نہ ہوں وہ مؤمن نہیں ہوسکتے، (النساء، ۶۵)، اسکے علاوہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی ظالم و فاسق شمار کیا ہے جو شریعتِ محمدی سے روگردانی اختیار کرتے ہوں (مائدہ، ۴۷)۔

مختلف شہروں و قصبات میں نبوی نظام ِ قضاء کا عملی نمونہ

پورے ملک میں عدالت الہیہ کا قیام عمل میں لایا جائے، اس میں ہمارے لئے اسوئہ نبی ﷺ سب سے بڑی دلیل ہے، حضور اکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد صحابہ کرام کو منصبِ قضاء پر مامور فرمایا، چنانچہ حضرت علی ؓ کو یمن کے ایک حصے پر قاضی مقرر فرمایا، اور ایک حصہ کی قضاء کی ذمہ داری حضرت معاذ ؓ کو سونپی، اسی طرح یمن کے ایک علاقے کی قضاء کی ذمہ داری حضرت دحیہ کلبیؓ  کو عطاء فرمائی، اور حضرت عتاب بن اسید ؓ  کو مکۃ المکرمہ میں عہدئہ قضاء پر مامور فرمایا پھر یہی تعامل خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی جاری رہا، حتی کہ خود حضرات خلفائے راشدین نے بھی قضاء کی ذمہ داریاں سنبھالی اور اس کو بحسنِ خوبی انجام دیا، (ادب القاضی، ۱؍۳۵، ۳۷)۔

غیر اسلامی ممالک میں بھی نظامِ قضاء لازم !

ہندی مسلمان قضاء کا نظام قائم کرنے سے یہ کہہ کر گریز نہیں کرسکتے کہ یہاں اقتدار ِ اعلی غیروں کہ ہاتھ میں ہے، اس لئے اسلامی نظامِ قضاء کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی، ہرگز ایسا نہیں ہے، جہاں اقتدارِ اعلی کفار کو حاصل ہے تب بھی مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے نزاعی اور عائلی مسائل کے حل کیلئے حکومت سے اقتدار حاصل کرکے اسلامی نظام قضاء قائم کریں، اگر حکومت سے اقتدار حاصل نہیں ہے تو اقتدار کے حصول کیلئے تراضئی مسلمین کے ذریعہ نظامِ قضاء کا قیام اور آپسی رضامندی سے کسی باصلاحیت شخص کو عہدئہ قضاء کے لئے انتخاب کرنا چاہئے، ایسا شخص جو تراضئی مسلمین سے قاضی بنایا گیا  وہ قاضی شرعی قاضی سمجھا جائے گا، اور اسکا فیصلہ بھی شرعی فیصلہ متصور کیا جائے گا، (الدر المختار مع الشامی کراچی، ص ؍۳۶۹، ج؍۵)۔

موجودہ حکومت کی اسلام دشمنی روز بروز ترقی پذیر ہے، اللہ جزائے خیر عطاء فرمائے امت کی بہبود و فلاح کے لئے بے چین رہنے والے علمائے ربانیین کو جنہوں نے تحفظِ شریعت کا بیڑہ اٹھایا، انگریز حکومت ہی کے دور میں مسلم پرسنل لاء کے قیام کی داغ بیل ڈال دی گئی، اسلامی تشخص و امتیاز ختم کرنے کے لئے متعصب حکومت نے جب پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کرتے ہوئے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا بگل بجایا تو امتِ مسلمہ میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی، ممبئی کے عروس البلاد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بہ اتفاقِ آراء مسلمانانِ ہند نے حضرت مولانا قاری طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کو بورڈ کا صدر اور حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب نور اللہ مرقدہ کو جنرل سیکرٹری حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ تحفظِ شریعت اور اسلامی نظامِ قضاء کی پائیداری کے لئے انتہائی اہم ترین قوانین مدون کئے جس میں نمایاں طور پر یہ اصول بھی مرتب کیا گیا کہ ’’ہندوستان میں محمڈن لاء کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لیتے رہنااور نئے مسائل کے پیشِ نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کا تحقیقی مطالعہ کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی اساس پر ماہرینِ شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میں پیش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا وغیرہ۔ ایسے سنہرے اصول مدون کئے گئے جس میں نہ صرف تحفظ شریعت ہے بلکہ ملک کی سا  لمیت اور ملک کے ہر شہر ی کیلئے امن وآشتی کی ضمانت بھی ہے۔

عامۃ الناس کی ذمہ داری ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور اس کے اکابرین و اراکین پر اعتماد کرے، دشمن اس متحدہ پلیٹ فارم کا شیرازہ بکھیرنے میں کوشاں ہے، اس لئے بورڈ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کی طرف دھیان بھی نہ دیں، بلکہ اسلامی دستور و نظامِ قضاء قائم کرنے میں ہر ممکنہ تعاون سے دریغ نہ کریں، ہر محلہ کے اربابِ اقتدار ‘بااثر و رسوخ افراداس محلہ کے اراکینِ کمیٹی کے باہم مشاورت سے مسجد کے کسی گوشہ میں یا مستقل کوئی دفترِ دارالقضاء کے قیام کے لئے کوشاں رہیں، تاکہ محلہ کے جملہ نزاعی مسائل خاص طور پر ازدواجی زندگی کے خلع و طلاق کے مسائل حل ہوں، حکومتی عدالتوں کی طرف کوئی مراجعت نہ کرسکے، علماء و خطباء عظام کی ذمہ داری ہے کہ اپنے جمعہ اور اصلاحی خطبات میں عوام الناس کو اس بات پر زور دیں کہ اپنے جملہ نزاعی مسائل خصوصاً ازدواجی اختلافی مسائل کے حل کے لئے دارالقضاء یا علماء سے رجوع کریں۔

دکن کی سرزمین ارباب علم و فن کی آماجگاہ ہے یہاں بھی اکابرینِ امت نے مسلم پرسنل لاء اور تحفظِ شریعت کی بقاء کیلئے بہت سی دینی ‘علمی‘ثقافتی خدمات انجام دی ہیں، الحمدللہ مساجد، مکاتیب اور مدارس کا ایک بڑا جال پھیلایا گیا، جو تلنگانہ و آندھرا کے بہت سے علاقوں کو محیط ہے، اور دکن کی کوک سے اللہ نے ایسے جانباز، دلیر، حق گو قائدین کو جنم دیا ہے، جب ایوانِ سلطنت میں فرعونی و نمرودی طاقتیں مسلم پرسنل لاء، شریعتِ مطہرہ کے خلاف آوازیں بلند کرتی ہیں تو ان کی آوازوں کو دبانے اور ان سے پنجہ آزمائی کی صلاحیت عطاء فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ مسلم پرسنل لاء کی جملہ کاوشوں کو بارآور فرمائے، بورڈ کے جملہ سرپرستان و ممبران کی عمروں میں برکت عطاء فرمائے، اور اسلام کا یہ جھنڈا تا قیامت لہراتارہے، آمین۔

تبصرے بند ہیں۔