دخترانِ اسلام

ریاض فردوسی

کسی بھی انسانی سماج کی ترقی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ معاشرہ  اپنے درمیان عورت کو کیا مقام دے رہا ہے۔ عورت اگرچہ جسمانی اعتبار سے نازک ہے مگر اپنی صلاحیت، ذہانت اور سمجھ بوجھ میں مردوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں۔ تاریخ انسانیت اس بات کی گواہ ہے کہ ملک و قوم کو جب بھی کسی پریشانی کا سامنا ہوا تو عورت نے مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر ملک و قوم کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیاہے۔

مذہب اسلام نے اس باب میں بھی ایک معتدل رائے اپنائی ہے۔ تاریخ اسلام میں ہمیں ہرشعبہئ زندگی میں خواتین کا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ اسلامی تاریخ ہماری مقدس اور  پاک دامن ماؤں اور بہنوں کی بے مثال قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نامکمل ہے۔ مذہب اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تمام آزمائشوں اور مصیبتوں کو سہتے ہوئے ثابت قدم رہیں۔ ان خواتین پر بے انتہا مصیبت اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ لیکن ایثار، تقویٰ و پرہیزگاری سے مزیّن ہوکر دین حق پر ثابت قدم رہ کر یہ واضح کر دیا کہ ہم خواتین دین اسلام کی خاطر قربانی دینے میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ مسلم عورت ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، مؤرخ، شاعرہ، ادیبہ اور محقق سب کچھ ہوسکتی ہے۔ لیکن علم دین پر جو دسترس پہلے حاصل تھی، اب اس کا فقدان ہے۔ جو عالمہ  صحابیہ، تابعی عالمہ پہلے تھی اب الا ماشاء اللہ ان کے معیار کی شاید نظر آتی ہیں۔ ابن قیم نے 22 صحابیات کی تصریح کی ہے جو فقہ و فتاویٰ میں مشہور تھیں۔ شیخ علاؤ الدین حنفی فقیہ مصنف تحفۃ الفقہاء کی صاحبزادی فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا جلیل القدر فقہیہ تھیں۔ ان کے شوہر شیخ علاؤ الدین کاسانی نے تحفۃ الفقہاء کی شرح البدائع الصنائع لکھی۔ شرح لکھنے کے دوران کوئی غلطی ہوجاتی تو وہ اس کی تصحیح کرواتیں فتاویٰ پر ان کے، ان کے والد و شوہر تینوں کی دستخط ہوا کرتے تھے۔ لیکن۔ ۔ ۔ اب بھی صرف چند بہنیں اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب کی پروفیسر سمیرہ ابراہیم، دہلی کی سمینہ شاہ اور پاکستان کی ڈاکٹر بینا شاہین صدیقی وغیرہ۔ (اور مزید نام میرے کم علمی سے مجھے نہیں مل پائے۔ میں معذرت کرتا ہوں)

حضرت خدیجہ ؓ نے اسلام و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے ملا لیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہریں جس میں کہا گیا ہے کہ  ”ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے۔ (والایمان ہو الاقرار باللسان وعقد فی القلب وعمل بالارکان والایمان)

چنانچہ اماں خدیجہ ؓ نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کر دیا، اور اسلام کی ترقی و پیش رفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔ ”سلیمان الکتانی” کہتا ہے: سیدہ خدیجہ ؓنے اپنی دولت پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کو بخش دی مگر وہ یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالی جو ہدایت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت اور دوستی کی وجہ سے عطا کر رہا ہے۔ وہ دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔

حضرت خدیجہ ؓکی مالی امداد کے بدولت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا غنی اور بے نیاز ہوگئے۔ امّاں خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عظمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے۔ ترجمہ: (کسی کے  مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ کی دولت نے پہنچایا)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امّاں خدیجہ کی ثروت سے مقروضوں کے قرض ادا کئے؛ یتیموں، تہی دستوں اور بے نواؤں کے مسائل حل کئے؛ شعب ابی طالب کے واقعہ کے دوران حضرت خدیجہؓ نے اپنی دولت بنو ہاشم اور بنو المطلب کی امداد میں صرف کی۔ ابو طالب اور امّاں خدیجہ ؓنے اپنا پورا مال اسلام اور قلعہ بند افراد کی راہ میں خرچ کیا۔ شعب ابی طالب میں محاصرے کے دوران حضرت خدیجہ ؓکا بھتیجا حکیم بن حزام گندم اور کھجوروں سے لدے ہوئے اونٹ لایا کرتا تھا اور بے شمار خطرات اور زحمت و مشقت سے بنو ہاشم اور تمام مسلمانوں کو پہونچا دیتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے غزوہ خندق میں نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب دوران جنگ ایک یہودی جہاں مسلم خواتین پر حملہ آور ہوا تو آپ نے اس پر ایسا کاری وار کیا کہ اس کا سر کاٹ کر دشمن فوج میں پھینک دیا اس کے بعد دشمن فوج میں کسی سپاہی کی اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ مسلمان خواتین پر حملہ کرتا۔ سیدہ ام عمارۃ ؓایک مشہور صحابیہ ہیں، غزوہ احد میں شریک ہیں، دوران جنگ مشک میں پانی بھر کر لوگوں کو پلا رہی ہیں، لیکن جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر اپنا گھیرا تنگ کردیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب زخمی ہوگئے تو یہ افواہ پھیلادی کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں، اس نازک صورتحال کے موقع پر حضرت ام عمارۃؓ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا اور شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔ آپ ؓنے جنگ یمامہ میں بھی شرکت کی اور دشمن فوج کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔

حضرت اسماءؓ بنت یزید جب چند اورعورتوں کے ہمراہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بغرض بیعت حاضر ہوئیں تو عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں مسلمان عورتوں کی طرف سے کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں۔ حضورﷺ نے اجازت دی تو عرض کیا کہ ہم بھی حضورﷺ کے دست حق پرست پرایمان لائی ہیں۔ مگر ہماری حالت مردوں سے مختلف ہے۔ مرد نماز باجماعت اور نماز جمعہ میں شریک ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھتے ہیں، مریضوں کی عیادت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہیں مگر ہم پردہ نشین ہیں۔ اور ان نیکیوں میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ گھروں میں بیٹھ کر اولاد کی پرورش کرتی ہیں اور مردوں کے مال و اسباب کی حفاظت کرتی ہیں تو کیا اس صورت میں ہم کو بھی ثواب ملے گا۔ آنحضرتﷺ نے صحابہ سے فرمایا کیا تم لوگوں نے کبھی کسی عورت سے ایسی برجستہ گفتگو سنی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺنہیں۔ آپ نے حضرت اسماء ؓکو فرمایا کہ اگر عورتیں فرائض زوجیت ادا کرتیں، اور شوہر کی اطاعت کرتی ہیں تو جس جس قدر ثواب مرد کو ملتا ہے اسی قدر عورتوں کو بھی ملتا ہے۔ (اسد الغابہ ج6 ص18)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک کنیز حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو عنایت کی جن کا نام حضرت فضہ ؓکے نام ہے۔ ان کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے باریاں مقرر کر رکھی تھیں۔ یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ رضی اللہ عنہا کام کرتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک کام فضہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دو۔ آپؓ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ایک مثالی بی بی ہیں۔ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کبھی کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہابیمار پڑیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپؓ نے کہا کہ میرے پدر بزرگوارﷺ نے تاکید کی ہے کہ میں آپؓ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپؓ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپؓ کو رنج ہو۔ اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے کئی جنگیں دیکھیں جن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمایاں کردار ادا کیا مگر کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اور پیچھے رہیں۔ اس کے علاوہ جنگ احد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سولہ زخم کھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا مگر آپؓ نے کسی خوف و ہراس کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرہم پٹی، علاج اور تلواروں کی صفائی کے فرائض سرانجام دیے۔

حضرت سمیہ رضی اللہ عنہ کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مکہ کے کافروں نے  بہت زیادہ ستایا ایک مرتبہ ابو جہل نے نیزہ تان کر ان سے دھمکا کر کہا کہ تو کلمہ نہ پڑھ ورنہ میں تجھے یہ نیزہ مار دوں گا حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سینہ تان کر زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع کیا ابو جہل نے غصہ میں بھر کر ان کی ناف کے نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑیں اور شہید ہوگئیں۔ حضرت سمیہ بنت خباط رضی اللہ تعالیٰ عنہا مظلومانہ شہادت کے علاوہ اور بھی سختیاں جھیل چکی تھیں۔ ان کو گرمی کے وقت سخت دھوپ میں کنکریوں پر ڈالا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا جاتا تاکہ دھوپ کی گرمی سے لوہا تپنے لگے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا ادھر سے گزر ہوتا تو صبر کی تلقین اور جنت کا وعدہ فرماتے یہاں تک کہ سب سے بڑ ے دشمن اسلام ابو جہل کے ہاتھوں انکی شہادت ہوئی۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بہت بڑی سکالر تھیں اور فقہ کی عالمہ تھیں، شاعری، سائنس، طب اور تاریخ و فلسفہ پر بڑا عبور رکھتی تھیں۔ ان  کے علمی صلاحیت کے متعلق حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرا آدھا دین عائشہ کی وجہ سے محفوظ ہوگا۔ آٹھ ہزار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔ (اوکما قالﷺ)

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میری کبھی تہجد کی نماز قضا ہوئی ہو، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا: بیٹا فرید تمہاری تہجد کی نماز کیسے قضا ہوسکتی ہے تمہاری ماں نے تمہیں کبھی بغیر وضو دودھ نہیں پلایا۔ جب مائیں ایسے کردار کی حامل ہوں تو بیٹے فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جیسے پیدا ہوتے ہیں۔

مسلمان خواتین نے جس طرح مذہب اسلام  کے شروعاتی تبلیغ اور اشاعت میں مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اب ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں، ایک بار پھر مذہبی شعار زندہ کرنے کے لیے، مردگی کے حالت میں داخل ہو چکی قوم مسلم میں دوبارہ زندگی کی روح پھونکیں۔ قانون شریعت کی حفاظت میں بھرپور انقلابی کردار ادا کریں۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ قوم کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ظلم و ستم سے لبریز طاغوتی  نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، تاکہ اسلامی انقلاب کا روشن سویرا جلد سے جلد طلوع ہو اور قرآن کریم کا مقصد اصلی کہ(سارے ادیان پر دین اسلام کا غلبہ ہو)اس خواب شرمندہ کی تعبیر ہوسکے۔

(الاستیعاب، کتاب النساء، باب السین3421، سمیۃ ام عمار بن یاسر، ج4، ص419… جنتی زیور، عبد المصطفٰی اعظمی، صفحہ508، ناشرمکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی….اسدالغابۃ، ج7، ص167)

تبصرے بند ہیں۔