دریا زادہ

ادریس آزاد

سقراط حسب معمول دریائے تھبیس کے کنارے ننگے پاﺅں ٹہل رہا تھا۔ کریٹو اور ڈالیاس اس کے ساتھ تھے۔ وہ ان دونوں کے درمیان چلتا ہوا اپنے مخصوص انداز میں بول رہا تھا :۔

”کسی بھی لفظ کا متعین معنی ممکن نہیں ہے۔

کیونکہ معانی کا تعلق فہم منطقی کے ساتھ ہے۔ اور فہم منطقی متغیر ہے اور ارتقاءپذیر۔ معاشرے میں موجود الفاظ معانی کے مختلف مدارج پر ہوتے ہیں۔

جس طرح دریا ایک مچھیرے کے لیے کچھ اور چیز ہے۔ اور کسی شہری خاتون کے لیے ایک اور چیز۔ اس پر مستزاد مرور زمانی ہے۔ جو لفظوں کے معانی پر اثر انداز ہو کر ان کی شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ بعض الفاظ کے معانی بدلنے میں شعوری کو ششیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی الفاظ کے معانی وہی قابل اعتبار ہوتے ہیں جو موجودہ جمہور کے نزدیک متفق علیہ ہوں۔

فہم منطقی کی حرکت کے ساتھ معانی کی حرکت بھی جاری رہتی ہے۔ لفظ کی ادائیگی میں بھی تھوڑا بہت فرق آسکتا ہے۔ لیکن یہ امر لازمی نہیں۔ جبکہ معانی لازمی طور پر وقت کے ہر لمحے میں نئے مفاہیم سے لبریز ہوتا ہے۔‘‘

سقراط کی بات ختم ہوئی تو کریٹو نے قدرے پر جوش لہجے میں کہا:۔

”لیکن سقراط اس طرح سے تو بہت سے ابہامات پیدا ہوجائیں گے۔ اگر معانی کو متغیر مان لیا جائے اور خاص طور پر مرور زمانی کا تابع تو گذشتہ ادوار کے تمام قوانین بے معنی ٹھہر یں گے۔ کیونکہ جب وہ لکھے گئے تھے۔ تو اس وقت ان الفاظ کے معانی کچھ اور تھے۔ آج ان الفاظ کے وہ معانی نہیں رہے۔ اس طرح تو کوئی کتاب، کوئی قانون کوئی روایت قائم نہ رہ سکے گی۔ سب کچھ وقت کا رہزن الفاظ کے بطن سے لوٹتا چلا جائے گا“

سقراط چلتے چلتے رک گیا۔ اس نے گھوم کر کریٹو کی جانب دیکھا۔ پھر اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر اس کا کندھا تھپتھپاکر کہا:۔

”بہت خوب ……….بہت خوب جوان……….یہ بات تو میں نے سوچی نہیں۔ اچھا یوں کرتے ہیں۔ ہم دونوں مل کر سوچتے ہیں۔ ڈالیاس تم بھی آﺅ۔ ہم مل کر سوچتے ہیں کہ الفاظ کے لیے متعین معانی ضروری ہیں یا نہیں۔ سب سے پہلے تم بتاﺅ ڈالیاس …….؟

کوئی لفظ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ تم تو سوفیانس کے بیٹے ہونا ……..تمہارا باپ تو شاعر ہے۔ تمہیں کچھ تو پتا ہوگا کہ آخر لفظ کیسے جنم لیتا ہے”

ڈالیاس اس بات پر خوش تھا کہ سقراط نے اس سے سوال کیا۔ لیکن وہ فوراً جواب نہ دے سکا۔ کچھ دیر کے لیے خاموشی چھاگئی۔ ڈالیاس کچھ سوچ رہا تھا۔ اور پھر شاید اس نے سوچ لیا۔ وہ بولا:۔

”پہلے پہل تو لفظ صرف ایک آواز ہوتا ہے۔ سقراط! ………….اور وہ آواز کسی نہ کسی معروضی اکائی کی پہچان کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یوں کہہ لو کہ اس معروضی اکائی کا نام رکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تمام الفاظ اپنی پیدائش کے وقت اسماءہوتے ہیں یعنی فقط نام۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ………سقراط؟“

سقراط بائیں ہاتھ سے ڈالیاس کا بھی کندھا تھپتھپایا اور ساتھ ہی کہا:۔

”بالکل !……….تم نے بالکل ٹھیک کہا اور وقت کے ساتھ ساتھ اسماءکے بطن سے ان کے مشتقات برآمد ہوتے ہیں۔ جو زمانوں کے ساتھ جڑ کر فعل کی مختلف قسموں کا روپ دھارلیتے ہیں۔ سارے نئے لفظ جو اپنے مادر اسم سے برآمد ہوئے عموماً تو معانی کے لحاظ سے اپنے مبداءکے ساتھ جڑے رہتے ہیں، لیکن بعض اوقات گم شدہ بچوں کی طرح الگ معانی کے ساتھ معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔

”اچھا ! تو تم نے ٹھیک بتایا ڈالیاس !کہ الفاظ شروع میں صرف اسماءہوتے ہیں یعنی فقط نام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مثلاً “دوڑو!” جو ایک فعل امر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اپنی اصل میں اس امر کا نام۔ ہماری دیو مالا کے مطابق زیوس نے تمام دیوتاﺅں کو یہی اسماءسکھائے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسماءکے معانی متعین تھے یا کہ نہیں۔

اور اگر متعین تھے تو کیا وہ اسماءاور ان کے معانی ابھی تک موجود ہیں یا کہ نہیں۔ فرض کرو وہ ابھی تک موجود ہیں تو بہت بڑی مشکل پیدا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس میں شک کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے کہ الفاظ کے معانی فہم منطقی کی حرکت کے ساتھ اپنے پچھلے مفاہیم کھوتے اور نئے نئے مفاہیم کے لبادے پہنتے چلے جاتے ہیں۔ کیوں کریٹو ………! کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسا نہیں ہوتا؟“

سقراط کی بات مکمل ہوئی تو اس نے کریٹو کی طرف دیکھا۔ اب وہ تینوں پھر ٹہلنا شروع ہوگئے تھے۔ کریٹو نے دریا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سقراط سے کہا:۔

”سقراط ……..!کیا شروع دن سے دریا کو دریا نہیں سمجھا جاتا تھا ؟کیا دریا کے یہی ایک متعین معانی نہیں ہیں کہ یہ دریا ہے۔ مرور زمانی کے ساتھ بدلاہوگا تو لفظ بدلا ہوگا۔ معانی تو نہ بدلے ہوں گے۔ اور نہ ہی فہم منطقی کے ارتقاء نے دریا کے معانی کو کچھ اور سمجھ لیا ہوگا۔ اتنی زیادہ مقدار میں دوکناروں کے درمیان پانی کی اتنی عظیم روانی کو نام دینے کے لیے لفظ کوئی بھی رہا ہو ……..معانی تو ہمیشہ یہی رہے ہوں گے ناکہ یہ دریا ہے؟“

اب سقراط کے چہرے پر اطمینان دکھائی دے رہاتھا۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک پیدا ہوئی۔ اس نے کریٹو کی جانب تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا:۔

”حیرت ہے بھئی!……..تم نے تو بات ہی ختم کردی۔ یعنی دریا کا ایک ہی معانی ہے۔ جس پر منطقی فہم کی حرکت کا کوئی اثر نہیں ہوا……..بات ختم۔ ثابت ہوگیا کہ الفاظ کے معانی متعین ہوتے ہیں۔ اب ایک چھوٹے سے سوال کا جواب دو کریٹو! تاکہ آج ہم یہ قضیہ ہی ختم کردیں کہ الفاظ معانی کے بغیر اپنا کوئی الگ وجود رکھتے ہیں یا نہیں۔ آﺅ ہم دریا کے اس متعین معنی کا ہی جائزہ لے لیں جو تم نے طے کیا۔ یعنی دو کناروں کے درمیان بہت سے پانی کی روانی۔

کریٹو ذرا بتانا کہ یہ معانی اس وقت بھی تھا جب دریا کو ایک قہر مان دیوتا سمجھ کر اس کے حضور نذرانے چڑھائے جاتے تھے؟ یا اس وقت بھی تھا جب یہ رب ُالارباب بن کر محبت اور مہربانی کی دیوی کے روپ میں ڈھل کر فصلوں کو سیراب کیا کرتا تھا؟۔ کریٹو کیا گنگا ماتا، ابا سین مہاراج…….یہ بھی دوکناروں کے درمیان بہتے ہوئے محض عظیم پانی ہیں؟……….پھر کیا یہ معانی اس وقت بھی تھا جب اس طاقتور دیوتا کو انسانوں نے اپنا قیدی بنالیا، مسخر کرکے اپنا تابع فرمان بنا لیا۔

اتنا کہ اب وہ گویا سرتسلیم خم اور دست ِ اطاعت دراز کرچکا ہے۔ اس کے پانی کو بڑے بڑے ڈیموں میں روک لیا………پھر اس سے برق پیدا کی………کریٹو !کیا دریا کا یہی معنی سائبیریا اور الاسکا والوں کے پاس بھی ہے، جہاں برف تلے جمے دریا کسی بلوری سرزمین کی انوکھی دنیا کے انوکھے سیارے معلوم پڑتے ہیں؟

کریٹو کیا دریا کا یہی معنی لاہور کے دریائے راوی کا بھی ہے، جہاں گندگی، بدبو، گوبر، کیچڑ، تیل، اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غلاظت ہی غلاظت ہے جو بہنے کی ہمیشہ سے ناکام کوشش کررہی ہیں؟

کریٹو! کیا یہی معنی اس وقت بھی ہوگا جب کوئی دریا نہ رہے گا۔ اور یہ دریا ئے ہاکڑہ کی طرح کسی ریتلے میدان پر ایک خشک سی لکیر ہوگی، جس کی باقی ماندہ پہچان کتابوں میں سے نقشے دیکھ دیکھ کر پوری کی جائے گی؟“

تبصرے بند ہیں۔