فضائی آلودگی: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

محمدصابرحسین ندوی

دنیائے انسانی کی تخلیق وتزئین عالی وبے مثال ہے، اسکی خلقت کا ہر ذرہ شہ پارہ اور قابل دید ہے، آسمان کی بلندی و رفعت، زمین کی بساطت و تواضع، فلک بوس درخت وپہاڑ، دودھیارنگ برفیلی چٹان، ہریالی، زرخیزی وشادابی، بادلوں کی گھٹا، رم جھم بارشوں کی بوچھار، اٹھلاتی ندیاں ، ٹھاٹھے مارتا سمندر، سرسرچلتی ہوائیں ، فولاد کی آہنی، شعلوں کا لاوایا زمین کی پیداوار ہوں یاآسمانی انعامات غرض ؛ہر ایک نظر کو خیرہ، دلوں کو سرور، ذہنوں کو شادمانی وطبیعت کو تازگی بخشتی ہیں ، تو وہیں انکی تخلیق و کاریگری دعوت نظارہ کے ساتھ ساتھ خدا کے ہونے اور اس کے وجود کا پتہ دیتی ہیں ، اور انمیں تفکیر و تدبر کا کھلا پیغام بھی ہے(آل عمران:۱۹۱)حتی کہ ایسے لوگوں کی خود قرآن نے تعریف کی جو غور وخوض کے بعد ایمان لاتے ہیں ۔ واقعہ یہ ہیکہ اللہ رب العزت نے خلقت عالم کی ہر شئی متوازن (perfect )بنائی ہے ’’….وانبتنا فیھا من شئی موزون‘‘(الحجر۱۱۹)ہر قسم کے کھوٹ اور نقص سے بری رکھا ہے چنانچہ قرآن آسمان کے بارے میں کہتا ہے’’والسماء بغیر عمد ترونھا‘‘(رعد:۲، لقمان:۱۰)انہی چیزوں کو قرآن آیات وعلامات سے موسوم کرتا ہے’’ومن آیتہ خلق السموات والارض ….‘‘(روم:۲۲)۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ عصری تحقیقات وجدید انکشافات نے بھی تخلیق خداوندی میں ایسے ایسے رازہائے سربستہ نمایا کئے یا کر رہے ہیں جن سے بے ساختہ زبان ودل تسبیح وتھلیل کے کلمات کہہ اٹھتا ہے، اگر بنیادی واساسی ضروریات پر ہی نظر دوڑائیں (زمین، ہوا، پانی وغیرہ)تو بلا تأمل بارگاہ ایزدی میں سر تسلیم خم کئے نہیں رہا جاتا، غور کیجئے ! زمین خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، اسی پر چلنا پھرنا کاشتکاری کرنا، غلہ اگانا، معاش ومعاد کی فکر کرنا اور جینا مرنا ودفن ہوناہے’’منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً اخری ‘‘(طہ :۵۵)لیکن بظاہر عام وبسیط یہ زمین پہاڑوں اور چٹانوں کے ریزہ ریزہ ہونے (جس میں لاکھوں سال لگتے ہیں )وجود میں آتی ہے، اور جو کیمیائی اجزاء ان پتھروں میں ہوتے ہیں وہی ان سے بنی مٹی کا مزاج ہوتا ہے، یعنی کہیں بنجر تو کہیں زرخیزی وشادابی تو کوئی سپاٹ اور ناقابل کاشت، اسی طرح یہ بھی ایک سائنسی حقیقت ہیکہ ؛زمین پر ہریالی وزرخیزی میں معمولی ساخت کے ہزاروں جانداروں کا اہم رول ہوتا ہے اور یہ جاندار پودوں کے خاندان کے بھی ہوتے ہیں جیسے؛بیکٹیریا، کاہی، پھپھوند کی کچھ اقسام :او رجانوروں کے خاندان سے بھی جیسے؛امیبا(ameoba )، پرامیشیم وغیرہ، یہ ننھے جاندار مٹی میں موجود غذائی اجناس، نیزجانوروں ، پیڑ، پودوں کے مردہ حصوں کوتحلیل کرکے مٹی کا جز بنادیتے ہیں ، کہاجاتا ہے کہ ؛زمین کے اوپر پائے جانے والے جانداروں سے کہیں زیادہ تعداد میں جاندار مٹی کے اندر ہوتے ہیں ، ایک تحقیق کے مطابق پودوں کی جڑوں کے گرد مٹی کے ایک گرام میں اوسطاً۱۰؍ کروڑبیکٹیریا موجودہوتے ہیں ، ان تمام جانداروں کی بقااور اس مٹی میں پرورش پارہے پیڑ، پودوں کی صحت وسلامتی کابراہ راست تعلق اس مٹی سے اور اس کے ماحول سے ہمیشہ رہتا ہے۔ (ماحول ایک تعارف:ص۔ ۱۔ ۲)

انسانی زندگی کا انحصار جن چیزوں پر ہے ان میں سے ایک ہوا بھی ہے، یہ بات یقینی ہے کہ ؛کوئی بھی جاندار ہواکے بغیر زیادہ وقت تک زندہ نہیں رہ سکتا، کہتے ہیں کہ کرہ ارض کے گرد ہوا پھیلی ہوئی نہ ہوتی تو جوں ہی زمین کے ایک حصہ سے سورج غائب ہوتافوراً درجہ حرارت گر کر ۱۶۰ درجہ منفی تک پہونچ جاتا اور یہ ناقابل برداشت سردی تمام جانداروں کو نابود کر کے رکھدیتی، لیکن ہوا اس امر کا سبب بن جاتی ہے کہ سورج سے حاصل کی گئی گرمی زمین سے فوراً خارج نہ ہوجائے(اعجاز القرآن:ص۔ ۱۳۱)اتنی اہمیت کے باوجود ہوا معمولی گردانی جاتی ہے، حالانکہ اسکی تخلیق بھی حیران کن ہے، جیسے کہ؛ اسکی تخلیق کئی اقسام کے گیسوں کے مکسچر سے ہوتی ہے اور اس ہوا میں حجم کے اعتبار سے 78.09% نائٹروجن، 20.95%آکسیجن، 0.93%آرگن، 0.04%کاربن ڈائی آکسائڈاور بہت خفیف مقدارمیں دیگر گیسیس پائی جاتی ہیں ۔ ہوا میں موجود گیسوں میں سے دو گیسیں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زندگی کے وجود اور بقا کیلئے بیحد اہم ہیں ۔ آکسیجن کی مددسے ہرجاندار چاہے وہ پیڑ، پودا ہویاجانور(بمع انسان)یا پھرآنکھ سے نظر آنیوالے خوردبینی جاندار، سبھی اپنی غذا تحلیل کرکے توانائی حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے بغیر جاندار وں کی اکثریت ہلاک ہوجائے گی۔ جب جانور سانس لیتے ہیں تو ہوا کے ساتھ آکسیجن گیس بھی جسم میں داخل ہوتی ہے اور خون میں شامل ہوکر تمام جسم میں پھیل جاتی ہے، جسم کے گوشے گوشے میں جاکر ہر سیل(جاندار کی بنیادی اکائی)تک پہونچ جاتی ہے۔ سیل(cell )کی سطح میں یہ غذا کوتحلیل کرکے توانائی اور کابن ڈائی آکسائیڈبناتی ہے۔ یہ عمل بھی کیمیائی اور ایک طرح کا احتراقی (combustion)نوعیت کا ہوتاہے جس میں گلوکوز کو جلایا جاتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ انسانوں اور تمام دیگر جانوروں کیلئے زہریلی ہے اور جسم سے فوراً خارج کی جاتی ہے۔ جسم کے ہر سیل سے خون اس زہریلی کو اکٹھا کر کے لاتا ہے اور پھیپھڑوں میں چھوڑ دیتا ہے جہاں سے یہ باہر نکلنے والے سانس کے ذریعہ باہر نکل جاتی ہے، یعنی یہ تمام کام اس مختصر سی مدت میں ہوجاتا ہے جس میں ہم سانس لیتے اور چھوڑ تے ہیں ۔
اس زہریلی گیس کو تحلیل کرنے کا زبردست نظم اللہ تعالی نے ہرے پودوں کے ذریعہ قائم کررکھا ہے، ہرے پودے دن کے وقت اس زہریلی گیس کو جذب کرتے ہیں اور سورج کی توانائی کی مدد سے اس گیس کو پانی کے ساتھ ملا کو گلوکوز بناتے ہیں ۔ یہ بھی ایک کیمیائی عمل ہے جس میں نہ صرف گلوکوز کو جو کہ ہرجانور کی بنیادی غذا ہے ؛بنتا ہے بلکہ آکسیجن گیس بھی بنتی ہے جس کو دن کے وقت ہرے پودے ہوا میں خارج کرتے ہیں ، گویاہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈاور آکسیجن کا باہم توازن ہرے پودوں اور جانوروں کی مدد سے قائم رہتا ہے‘‘۔ (ماحول ایک تعارف:۲)عوامل حیات مین سے ایک اہم عامل پانی بھی ہے، پانی کی اہمیت اور نعمت کا تذکرہ بارہا قرآن وحدیث میں ملتاہے (انبیاء:۳۵، زخرف:۱۱، فرقان:۴۸، ۴۹)

پھر بھی انسانی نگاہ میں اسکی قدر؛بقدرے ہے، جبکہ پانی کے اندر تعجب خیز خواص پائے جاتے ہیں ، جن میں سے اسکی حل پذیری بھی ہے، یہ بیشتر اشیاء کو اپنے اندر حل کر لیتا ہے۔ عموما دو طرح کے پانی روئے زمین پر پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقا م پرقابل انتفاع ہے، اگر ان میں ماحولیات کی تبدیلی ہو جائے تو جانداروں کا جینا محال ہو جائے گا۔ ایک کھارا پانی ؛جو سمندروں میں ہوتا ہے، تو دوسرا میٹھا پانی؛جس کے ذخائر کنویں سے لیکردریاؤوں ، جھرنوں ، چشموں ، ندی اور نالوں تک ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہیکہ انسانی زندگی کے عوامل اسکی تخلیق سے قبل ہی وجود پذیر ہوچکے تھے، (اسلام اور ماحولیات:ص۔ ۶۷)اور اس کے بعد ہی حضرت انسان کو بحیثیت امین و ونگراں ان سے استفادے کا موقع دیا گیا ’’انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض والجبال فا بین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان ‘‘(احزاب:۷۲)لیکن امانت میں خیانت، اسراف و ناقدری کی بنا پر آج نسل انسانی کی بقا پر انہی کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے جسے مجموعی طور پر ’’ماحولیاتی آلودگی‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسکے عموماً تین شعبہ قابل ذکر ہیں :زمینی آلودگی، ہوائی آلودگی، اور آبی آلودگی۔ مذکورہ آلودگیوں ہی نے کرہ ارض کے حسن وتزئین وقدرتی توازن کو بگاڑکر رکھدیا ہے، اور پوری انسانیت کو موسمیاتی تبدیلی، درجہ حرارت میں اضافہ، سیلاب، خشک سالی، طوفان، سمندری سطح میں اضافہ و دیگو قدرتی آفا ت سے دوچار کردیا ہے، انسانی عوامل بالخصوص پودوں کے کٹنے کی وجہ سے گزشتہ سوسال سے کاربن ڈائی آکسائیڈکی مقدار ۱۵ فیصدبڑھ گئی ہے اور ہر سال زمین کی در جہ حرارت میں اضافہ ہو رہاہے اور اس اضافہ سے ماحول پر پڑ نے والے اثرات کو Green hous effectیعنی ’’سبز گھر کا اثر ‘‘کہاجاتا ہے۔ ’’

شہری علاقوں میں صحت سے متعلق بیشتر مسائل کے لئے ماحولیاتی آلودگی ہی ذمہ دار ہے، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے صرف انسانوں کی صحت کو ہی خطرہ نہیں بلکہ پورے سیارے پر موجود دیگر ذی روح اشیاء کو بھی اسی طرح خطرہ لاحق ہے، انسانوں کو اسکی وجہ سے گلے، ناک، پھیپھڑے اور آنکھوں میں تکلیف لاحق ہوتی ہے، اسکی وجہ سے سانس کی پریشانی بھی آتی ہے، پہلے سے لاحق شدہ کچھ امراض جیسے انفاخ نسوج(Emphysema)اور دمہ(Asthma)بڑھ بھی جاتے ہیں ، باریک ذرات پھیپھڑے میں گھس جاتے ہیں اور انسان کے سانس لینے کی صلاحیت کو کم کر دیتے ہیں ، سانسوں کے ذریعہ باریک ذرات کے جسم میں جانے وجہ سے شریانوں میں سختی پیداہوتی ہے، اور ہارٹ اٹیک کے علاوہ دیگرقلبی امراض کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے، آلودہ ہوا جسم کی دفاعی قوت کو کم کر دیتی ہے اور جسم کی انفیکشن سے لڑنے کی طاقت اور تنفسی نظام کو بھی متاثر کرتی ہے، آلودہ ہوا سے مسلسل اتصال کی وجہ سے امراض قلب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، جو لوگ کھلے میدان میں کام کرنے اور محنت کی وجہ سے گہری اور تیز سانس لینے کی بنا پر وہ زیادہ تر فضائی آلودگی کے منفی اثرات قبول کرتے ہیں ، آلودگی ہی کی بنا پر ’’تیزابی بارش‘‘ یعنی ایسی بارش جس میں خطرناک حد تک نائٹروجن اور سلفوری تیزاب کی مقدار پائی جاتی ہے، جو کہ ’’فاسل‘‘ ایندھن کے جلنے کی وجہ سے ماحولیات میں پیداہو نے والے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈاور سلفر آکسائیڈ کی کی وجہ سے بنتی ہے، اس بارش کے ہو نے کی وجہ سے درخت و فصلیں برباد ہو تی ہیں اورسمندری جانوروں کوبھی بہت نقصان ہونچتا ہے‘‘(ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ:۳)

قرآن کریم میں دنیا کی تخلیق و تحسین کا تذکرہ بہت سی آیتوں میں مذکور ہے، لیکن انہی آیتوں میں یہ آیت بھی ہے:’’ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس‘‘ (روم:۴۱) یعنی یہ کہ دنیا کی و تخلیق میں خودعاس کے امین و رہبر ہی کی بدولت بد نمائی وداغ اور فساد و بگاڑ پیدا ہوا، حالانکہ بہیترے جگہوں پر قرآن کریم نے انسانی جان کو مخاطب کرتے ہو ئے عرض گو ہے کہ:’’لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا‘‘(اعراف:۸۵، ۵۶وغیرہ)’زمین میں فساد نہ مچاؤ‘ نہ صرف یہ بلکہ اس کے نتیجہ میں قوموں کے دردناک عذاب اور ہلاک و برباد ہونے کا بھی تذکرہ ہے (شوری:۳۰)، ’’افساد و فساد ‘‘کے معنی مفسرین نے بھی مختلف بتلائے ہیں ؛قتادۃ اور سدی کا کہنا ہے کہ :سب سے بڑا فساد خدا کے ساتھ شرک کرنا ہے’’الافساد:الشرک، وھو اعظم الفساد‘‘، اور یہ بھی کہا گیا ہیکہ ؛فساد :قحط سالی، پیداوار میں کمی، اوربرکت کا ختم ہوجانا ہے..اور فساد بحری:بنی آدم کے گناہوں کی وجہ سے سمندری شکاروں کا ختم ہوجانا ہے، اس سے مراد یہ بھی لیا گیا ہے کہ :یہ کساد بازاری اور قلت معاش کی تعبیر ہے، بعضوں کا کا قول ہے کہ:فساد: گناہ، لوٹ مار، اور ظلم و ستم سے کنایہ ہے، یعنی ان اعمال کی وجہ کھیتی، آبادی، اور تجارات وغیرۃ میں فساد واقع ہوا۔

علامہ قرطبیؒ نے ان بیانات کا تجزیہ کرتے ہو ئے نقل کیا ہے کہ:مذکورہ تمام معنی متقارب ہیں …یعنی جب خشکی وتری میں گناہوں کی کثرت ہوئی تو اللہ تعالی نے ان سے بارش روک لی اور غلوں میں کمی کردی، تاکہ ان کے کئے کا مزہ چکھا ئیں ، اور اس طرح وہ توبہ کر لیں ’’والمعنی کلہ متقارب….ای ظھرت المعاصی فی البر والبحروحبس اللہ عنھم الغیث واغلی سعرھم لیذیقھم عقاب بعض الذی عملوا(لعلھم یرجعون)لعلھم یتوبون‘‘۔ (۷)اسی طرح مفسرین میں علامہ یوسف القرضاوی کاماننا ہے؛کہ ’’فساد‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے ایک طرف معنوی چیزوں مثلاً:خدا کی معصیت اور اسکی خلاف ورزی، کفران نعمت، شریعت کے ساتھ تمرد، حرمت کی پامالی، فواحش کا عموم، فضائل میں بگاڑ، خیر میں تا جیل، شر میں تعجیل، ظالموں کا ضعفاء پر ظلم، اغنیاء کا فقراء پر قساوت وغیرہ مراد لی ہیں ، تو وہیں مادی افساد کو بھی شامل کیاگیاہے مثلاً:آبادی کی تخریب، سرسبزی وشادابی کی مردنی، طاہرات کا آلودہ کرنا اور بلاضرورت قدرت خداوندی میں اسراف وغیرہ(۸)اسی طرح ’’لا تفسدوا فی الارض ‘‘(اعراف:۸۵، ۵۶)کی تفسیر کرتے ہوئے ابن عطےۃؒ بھی کہتے ہیں ؛کہ آیت میں ’’فساد‘‘ کا لفظ عام ہے جو کہ کم یا زیادہ ہر قسم کے افساد کو شامل ہے، چنانچہ بقول ضحاک:پھلدار درختوں کو نہ کاٹا جائے اور نہ ہی پانی اور مٹی کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے (المحرر الوجیز لابن وجیز:۲؍۳۱۰)۔

صرف یہی نہیں بلکہ قرآن کے بیان کے مطابق ماحولیات خواہ آبی ہو یا ہویا زمینی اسکی حفاظت ایمان با اللہ کا تقاضہ اور صلاح و تقوی کا معیا ر بھی ہے، جو جتنا صاحب کمال ہو گا وہ اتنا ہی ماحولیات کا خیال کرے گا ؛جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے ’’ولو ان اھل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والارض‘‘(اعراف:۹۶)اللہ تبارک و تعالی نے کفار کو ایمان کی رغبت اس طور پر دلائی کہ ؛اگر وہ ایمان لے آئیں تو اللہ انکی کفالت کریگا، معاش پیداکرے گا، آسمان و زمین کے برکات کھول دے گا اور ان کے لئے ماحولیات درست کر دے گاچنانچہ فر مایا ’’وأن لو ستقا موا علی الطریقۃ لأ سقینھم ماءً عذفاً‘‘(جن:۱۶۔ اور دیکھئے:مائدہ:۶۶)ساتھ ہی انسان کے کفر اور اس کے فساد ماحولیات وظلم وجورکو اس طرح پیش کیا ’’ضرب اللہ مثلاً قرےۃ کا نت آمنۃ مطمئنۃ ےأ تیھا رزقھا رغداً من کل مکان فکفرت بأنعم اللہ فاذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف بما کانوا یصنعون‘‘(نحل:۱۱۲)یہ فرمان خواہ اہل مکہ سے کیوں نہ ہو لیکن آیت عام ہیکہ:انہوں نے آپؐ کو جھٹلایا جبکہ ان کو خوب کشادگی وفراوانی نصیب تھی ایسے میں اللہ نے انہیں بھوک و پیاس اور قحط سالی سے دوچار کردیا، کہیں ایسا نہ ہوکہ ؛اس قانون خداوندی کا نفاذ ہم پر یا ہماری وجہ سے آئندہ نسلوں پر بھی ہوجائے۔

قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے’’لئن شکرتم لأ زیدنکم ولئن کفرتم فان عذابی لشدید‘‘(ابراھیم:۷)یعنی اگر شکر نعمتوں میں دوام و ترقی کا باعث ہے تو وہیں نا شکری نعمتوں کے مسمار بلکہ عذاب الہی کا خطرہ بھی، چونکہ یہ دنیا اور اس دنیا کی تمام نعمتیں اور مخلوقات حضرت انسان کیلئے امانت و نعمت ہیں ایسے ان کا غلط استعمال ناشکری گردانا جائے گا، جو یقیناً رب الہی کے غضب کو بھڑکانے والی اور بقائے انسانی کیلئے مھلک ہے، علامہ ابن قیم ؒ لکھتے ہیں :’’ومن عقوبات الذنوب:أ نھاتزیل النعم وتحل النقم، فما زالت عن العبد نعمۃ الا بذنب ولاحلت بہ نقمۃ الا بذنب کما قال علی بن ابی طالبؓ :مانزل بلاء ولا رفع الا بتوبۃ…مزید لکھتے ہیں کہ:اللہ تعالی کاارشاد ہے’’وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم، ویعفوا عن کثیر‘‘(شوری:۳۰، انفال:۵۳) غرض پرور دگار عالم کسی نعمت کو عطا کر نے کے بعد بدلتا نہیں یہاں تک کہ انسان خود بدل دے، چنانچہ اللہ کی طاعت کو معصیت، شکر کو کفر، خوشنودی کے بجائے ناراضگی کے سباب اختیار کرنے وغیرہایسے میں اللہ تعالی اسے مصائب و آلام میں مبتلا کردیتا ہے، حالانکہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کر نے والا نہیں ، ….ان عقوبات میں سے یہ ہو تے ہیں کہ ؛دین ورزق، علم و عمل طاعت بالجملہ دین و دنیاکی بر کتیں ختم کردیتا ہے ………، اور اس کے گناہوں میں سے یہ ہوتا ہیکہ ؛وہ زمین میں مختلف قسم کے فساد کر نے لگتا ہے، ہوا، پانی، کھیتی باڑی، پھل اور گھروں کو برباد کرنے لگتا ہے‘‘۔ (الجواب الکافی لمن سأل عن الدواء الشافی لابن قیم:۸۲ تا ۱۰۲ ’’بالاختصار‘‘)

بالیقین حضور اکرمؐنے انسانوں کے مابین دو چیزیں چھوڑیں اور ان کے امتساک پر ہدایت کا ضمان دیا؛قرآن اور آپؐ کی سیرت طیبہ’’ترکت فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی أبدا، کتاب اللہ و سنتی‘‘(مستدرک حاکم)اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپؐ کی صفت ’’ما ینطق عن الھوی، ان ھو الا وحی یوحی‘‘ہے، اور آپ کا ہر قول وفعل قرآن کا پر تو اور اخریین میں کامیابی کی ضمانت ہے، چنانچہ قرآن کریم نے جہاں ہر قسم کے افساد و بگاڑ کی پر زور مخالفت کی تو وہیں آپؐ نے ماحولیات کے درست رکھنے اور اس کے لئے کاوشیں کر نے کی ترغیب دی؛گندگی وناپاکی سے تنفر کا یہ عالم کہ آپ ؐنے طہارت، صفائی، ستھرائی کو نصف ایمان تک قرار دیا’’الطھور شطر الایمان…‘‘(صحیح مسلم)بلکہ اسے اللہ تعالی کی محبوب شئی اور اسکی صفت قرار دی’’ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین‘‘(بقرۃ؛۶۲)’’ان اللہ طیب یحب الطیب نظیف یحب النظافۃ…‘‘(سنن ترمذی:۱۷۹۹، مسند ابی یعلی:۷۹۱)ماحولیات میں معاون ووآلودگی کیلئے تریاق کی حیثیت رکھنے والے درخت و پیڑ، پودوں کے لگانے کی فضیلتیں بیان کیں ’’ما من مسلم یغرس غرسا فأکل منہ انسان وا دابۃ الا کان لہ صدقۃ‘‘(بخاری:۲؍۸۸۹، مسلم:۱۴۲ )حتی کہ آپؐ نے فرمایا :اگر قیامت بھی آرہی ہو اور تم میں سے کسی کے پاس ایک پودا ہے تو چاہئے کہ اسے زمین میں لگائے’’ان قا مت الساعۃ وفی ید احدکم فسیلۃ فان استطاع ان لا تقوم حتی یغرسھا فلیغرسھا‘‘(ادب المفرد للبخاری:۴۷۹، مسنداحمد:۱۲۹۰۲)۔

اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے سر بکف مجاہدین کو بھی درختوں کے کاٹنے سے منع فرمایاگیا(الجھاد فی الاسلام ’’مودودی‘‘۳۱۔ ۲۲۷)ساتھ ہی آلودگی سے انسانی جان کی حفاظت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کوڑے، کرکٹ کو گھر نہ رکھنے کی ہدایت دی اور فرمایا یہ شیطانی ٹھکانے ہیں ’’لا تبیتوا القمامۃ فی بیوتکم فاخرجوھا نھاراً فانھا مقعد الشیطان‘‘ (مسندجابر بن عبداللہ:۱۱۱۵، میزان الحکمہ:۱۳؍۲۳۴۰)اور اس سے بھی منع کیا گیا کہ کچرا گھر کے پیچھے بھی رکھا جائے یا پھینکا جائے ؛کیونکہ یہ بھی شیطان کے ٹھکا نے ہیں ’’لا تؤتو ا التراب خلف الباب فا نہ مأوی الشیطان‘‘(میزان الحکمہ:۱۳؍۲۳۴۰)بلکہ آپؐ نے یہودیوں کی مخالفت کرتے ہوئیاپنے صحن کی صفائی ستھرائی کا خاص حکم دیا’’فنظفوا أفنئتکم ولا تشبھو بالیھود‘‘(ترمذی:۱؍۱۰۷) اور اس کار خیر کو اپنے آپ تک محدود نہ رکھتے ہوئے ؛آپؐ نے معروف(ہر قسم کی بھلائی )کو عام کرنے، منکرات(ہر ناپسندیدہ شئی) سے روکنے کو ایمان کا جز قرار دیا(بخاری:۵۹۶، مسلم:۱؍۷۴)بلکہ جو شخص صرف اپنی بھلائی و خیر خواہی کی فکر کرے اور اوروں سے نظریں چرائے ؛ایسوں کو کامل مومن نہیں سمجھا گیا، کیونکہ’’الدین النصیحۃ‘‘( مسلم:۱؍۷۴، وصحاح ستہ) نعمت خداوندی کے ساتھ ناروا سلوک کرنے سے منع فرمایا، روایت ہے کہ آپؐ نے پانی میں خواہ بہتا ہوا ہو یا ٹھہرا ہوا پیشاب کرنے یا منجس کر نے سے منع فرمایا’’لا یبو لن احدکم فی الماء الدائم الذی لا یجری ثم یغتسل بہ‘‘ (بخاری:۱؍۳۷، مسلم:۱؍۱۲۸)’’نھی رسول اللہؐ ان یبال فی الماء الجاری‘‘(مجمع الزوائد:۹۹۳)، راستہ،  سایہ اورلوگوں کی بیٹھکوں یا دوسرے لفظوں میں آبادی میں قضائے حاجت کرنے سے منع فرمایا’’اتقوا الملاعنۃ الثلاثۃ:البراز فی الموارد وقارعۃ الطریق والظل‘‘(ابوداود مع بذل المجھود:۱؍۱۹۔ ۱۸)خود آپؐ کے بارے میں سیرت نگار لکھتے ہیں کہ آپ قضائے حاجت کے لئے بہت دور جاتے اور مناسب جگہ کی تلاش کرتے اور اتنی دور جاتے کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ پا ئے’’اذا اراد البراز انطلق لا یراہ احد‘‘(ابوداود:۱؍۱۲۲)۔

مذکورہ تعلیمات الہی و نبوی اور سر چشمہ فقہ ہی کا وہ دھارا ہے جو عصر حاضر کے ’’فضائی و صوتی آلودگی ‘‘کی تشنگی کی سیرابی کا ذریعہ ہیں ، اور جن پر عمل درآمد اتباع قرآن کا ہی دوسرا نام ہے، کیونکہ قرآن ہی کا کہنا ہے’’یا أیھا الذین آمنوااطیعوا اللہ واطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم‘‘ (نساء:۵۹)بلکہ اس کے بر خلاف کیلئے جہنم کا اعلان ہے’’من یعص اللہ ورسولہ فان لہ نار جھنم‘‘(جن:۲۳)ایسے میں لازمی ہیکہ امانت کے ساتھ دیانت اور نعمت کے ساتھ شکر کا معاملہ کیا جائے اور فساد و افساد سے پر ہیز کیا جائے’’لان شکرتم لأزیدنکم ولان کفرتم فان عذابی لشدید‘‘(ابراہیم:۷)۔

تبصرے بند ہیں۔