دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا

طالب شاہین

(سوپور کشمیر)

اللہ تعالیٰ سورہ العصر میں فرماتے ہے کہ بیشک انسان خسارے میں ہے سوائے اُن لوگوں کے ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻖ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔ اس سورہ مبارک کی روشنی میں یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ انسان کس قدر خسارے میں ہے۔ لامتنا دوڑدوپ کے باوجود انسان خسارہ  برداشت کرتا ہے۔ سال مہینوں میں، مہینے ہفتوں میں، ہفتے دنوں میں اور دن گھنٹوں میں گزرگئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بار پھر وہی بابرکت مہینہ اپنی رحمت اور عظمت سے سایہ فگن ہونے والا ہے۔ جیسے ہی یہ مہینہ حکم خداوندی کے تحت تشریف لاتا ہے، رحمتوں اور برکتوں کی بارشوں کا نزول شروع ہوتا ہے۔ آدمی کا بنجر دل پھر سے بیدار ہوتا ہے۔ شرم و حیا کی فضا نئے سِرے سے جنم لیتی ہے۔

مسجدیں لوگوں کے آنے جانے سے دن رات کھلی رہتی ہے۔ مسجدوں میں نماز، دعا، اذکار وغیرہ کی کثرت سے پابندی کی جاتی ہے۔ انسان کے لئے گناہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ہرطرف بھلائی اور خیر کی فضا پھیلتی ہے۔ رب العٰلمین کی رحمت کے دروازے کھلے رہتے ہے۔ :شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ پس عقل مند انسان اس ماہ میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ رب العٰلمین کی عبادت میں مگن رہتا ہے۔ آدمی اللہ کے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ دل پُرامن اور پُرسکون رہتی ہے۔ لیکن جب رمضان المبارک گذرجاتا ہے، مسجدیں پھر سے خالی پڑتی ہے۔ آباد گلشنوں میں ویرانی پھیل جاتی ہے۔ پُرامن اور پُرسکون فضا پھر سے بدامنی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہی درد و کرب کسی نے شاعری قالب میں  یوں کھینچا ہے:

نمازیوں کا اب سیلاب آنے والا ہے
پتہ چلا ہے کہ رمضان آنے والا ہے 
اب مسجدوں کا زرا دائرہ بڑا کردو 
بس ایک ماہ کا مسلمان آنے والا ہے
گرد سے اٹے ہوئے قرآن صاف کردو 
سنا ہے گمشدہ مسلمان آنے والا ہے

رمضان المبارک ہی وہ مقدس و بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن کریم  کا نزول شروع ہوا۔ یہی وہ عظمت والا مہینہ ہے جسکی آخری پانچ تاک راتوں میں اللہ تعالیٰ نے شب قدر رکھی ہے۔ رمضان المبارک کو قرآن پاک نے ماہ صیام کے خصوصی لقب سے تراشا ہے۔ عرب میں "صیام” اور "صائم "ایسے گھوڑوں کو کہا جاتا تھا جنہیں بطور مشق صحراؤوں میں بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا تاکہ میدان جنگ میں یہ گھوڑے منظم تربیت کے جوہر دکھائے۔ اور اپنے مالک کا صام یعنی فرماں بردار بنے۔ پس مسلمان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تربیت یعنی ماہ صیام کا انتخاب کیا ہے۔ مسلسل ایک ماہ کی اس فکری، روحانی اور جسمانی تربیت سے انسان اپنے مقصد زندگی کو سمجھ پاتا ہے، انسان کے اندر اسلامی فکر جنم لیتی ہے۔ اسی ایک ماہ سے انسان اپنے باقی گیارہ مہینوں کا نصاب سیکھ لیتا ہے کہ مجھے رمضان المبارک کے بعد اپنی زندگی کیسے بسر کرنی ہے۔

شرعی اعتبار سے روزہ نام ہے طلوع صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے پرہیز کرنا۔ حافظ ابن حجر روزہ کی تعریف میں لکھتے ہے کہ "مخصوص وقت میں مخصوص چیزوں سے رکنے کا نام روزہ ہے”۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بابرکت مہینے کا بہت انتظار رہتا تھا پس وہ شعبان سے ہی اسکی تیاری کرتے تھے۔ آپ کے جانثار صحابہ بھی اس مہینے کا انتظار بڑے ذوق و شوق سے کرتے تھے۔ روزہ کے فضائل میں سے ایک فضائل یہ بھی ہے کہ ایمان دار کے تمام سابقہ گناہ معاف کئے جاتے ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزہ رکھتا ہے اسکے سابقہ گناہ بچش دئے جاتے ہے”

رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ رمضان کے پہلے عشرے میں انسان رحمت سے مالامال ہوسکتا ہے کیونکہ ان دنوں رب العٰلمین کے رحمت کے دروازے بلکل کھلے رہتے ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جب رمضان شروع ہوجاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہے "ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہے اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہے اور شیطان جکڑ دئے جاتے ہے "۔ عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ کے حضور رمضان کے دوسرے عشرے میں گڑگڑانا اللہ کو بہت پسند ہے اور اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ اپنے خوشقصمتوں پر رحم فرماتا ہے اور اسکے لغزشوں پر درگزر فرماتا ہے۔ اور رمضان المبارک کے تیسرے عشرے میں آدمی مسلسل محنت سے جہنم کی آگ سے آزادی حاصل کرسکتا ہے۔ بقول شاعر

بخشش بھی، مغفرت بھی، جہنم سے نجات بھی 
دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے لئے ایک محفوظ قلعہ ہے”۔ روزہ کا مطلوبہ مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر تقوٰی کی فضا پیدا ہوجائے۔ اکثر لوگ روزہ رکھنے کے باوجود بھی جھوٹ بولتے ہے یا ُبرے کام کرتے رہتے ہے جو کہ رمضان المبارک کے پیغام کی نافرمانی ہے۔  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہے کہ نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  "جو شخص( بحالت روزہ) جھوٹ بولنا اور اس پر (بُرے) عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اسکی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے”۔

روزہ ایک واحد عبادت ہے جو ظاہری حرکات سے بےنیاز ہے، ایسی عبادت جس سے آدمی ریا سے بلکل لاتعلق ہوجاتا ہے کیونکہ روزے کا عمل خالص اللہ اور اسکے بندے کے درمیان کا ہوتا ہے۔ روزہ باقی عبادات مثلاً نماز، حج وغیرہ سے بلکل الگ ہے۔ اسکا تعلق انسان کے باطن سے ہے نہ کہ ظاہر سے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :ابن آدم کا ہرعمل اسکے لئے کئی گنا بڑھادیا جاتا ہے حتٰی کہ ایک نیکی دس گنا کردی جاتی ہے اور دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں اسکی جزا دونگا۔”

 رمضان المبارک اپنی رحمتوں اور برکتوں کی بدولت بہت مشہور ہے کہ سُنت پر فرض کا اجر ملتا ہے اور ایک فرض پر ستر فرض کا اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ پس ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ رمضان المبارک کا استقبال ذوق و شوق سے کریں۔ خوش دلی سے ماہ صیام کا اہتمام کریں۔ اسی میں ہمارے لئے نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ماہ صیام میں روزہ رکھنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں جہنم کی آگ سے نجات دلائے۔۔ آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔