زکوٰۃ غریبوں کا حق ہے، خیرات نہیں!

احساس نایاب

اے غریب ونادار، محتاج و ضرورت مندوں کی مدد کرنے والو!

امداد کے بدلے کسی کی خودداری کو ٹھیس مت پہنچاؤ،

مانا کہ ابھی ہیں وہ محتاج بہت،

ماناکہ ابھی ہیں وہ مجبور بہت،

ان کی مجبوری کو رسوا  نہ کرو،

ان کی محتاجی کا  تماشہ نہ بناؤ،

وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے،

خدا نہ کرے کل ان کی جگہ

محتاج و ضرورت مندوں کی قطاروں میں تم کھڑے نظر آؤ،

مٹھی بھر اناج کے بدلے

 تمہاری تصاویر ان کی جگہ ہوں ،

آج بھلے خدا نے تمہیں نوازا بہت کچھ ہے,

تنہائی میں بھی دوگے، تو خدا دیکھ رہا ہے،

اپنے مال سے جو دے رہے ہو

وہ کوئی احسان نہیں ہے،

جو جس کا حق ہے اُسی کو لوٹا رہے ہو،

اُس رب کی نعمتوں کے قرض دار ہو تم،

اسلئے خالص اُسی رب کی  رضا کے لئے دو۔

رحمتوں و برکتوں والے ماہِ رمضان مبارک کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف غریبوں، یتیموں، مسکینوں میں صدقہ زکاۃ بانٹنے کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے، کسی کا کہنا ہے کہ اناج دینے سے زیادہ ثواب ملے گا، تو کسی کا ماننا ہے کہ کپڑے بانٹنے سے غریبوں کی زیادہ مدد ہوجائیگی، جس سے ہم اللہ کی رضا حاصل کرسکیں گے۔  الحمد للہ ہمارے ارادے جتنے نیک ہیں ، ہماری نیت جتنی صاف ہے، کاش ہمارا طریقہ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح ہوتا۔  پر افسوس آج ہمارے تمام اعمال اللہ کو خوش کرنے سے زیادہ دنیاوی واہ واہی لوٹنے کے لئے ہوتے ہیں ، لیکن کیا کسی نے یہ سوچا ہے، کہ امداد کا جو طریقہ ہم نے اپنایا ہوا ہے وہ کتنا صحیح ہے ؟

 بھلے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال اللہ کی رضا کے لئے ہیں، لیکن ہمارے طریقے سے کہیں ہم اللہ کو راضی کرنے کی بجائے ناراض تو نہیں کررہے ہیں؟ امداد کے نام پہ غریبوں کے ساتھ اپنی تصاویر کھینچواکر ان کی خودداری کو ٹھیس تو نہیں پہنچارہے ہیں؟ اپنی دریا دلی دکھانے کے چکر میں کہیں ہم انہیں سرِعام  رسوا تو نہیں کررہے ہیں؟

کیونکہ کوئی بھی انسان کسی کے سامنے خوشی سے اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتا بلکہ وقت، حالات اور ان کی مجبوری ہوتی ہے جسکی وجہ سے وہ اتنے مجبور ہوجاتے ہیں کہ اوروں کے سامنے مدد کے لئے ناچاہتے ہوئے بھی ہاتھ پھیلا دیتے ہیں، پر جو صاحبِ استعاعت بندے ہیں ، جو خود کو مومن مسلمان کہتے ہیں، کیا وہ ان کی مجبوری، ان کی حیااور خودداری کو سمجھ نہیں سکتے؟

 دنیا بھر میں مائک سے اعلان کرواتے ہوئے اجتماعی طریقے سے دینے کی بجائے انفرادی طریقے سے آخر ان کی مدد کیوں نہیں کرسکتے؟ کیا تصاویر کھینچواکر سوشل میڈیااوراخباروں میں ڈھنڈھورا پیٹ کر مدد کرنے سے ہی زیادہ ثواب ملے گا؟ یا انفرادی طریقے سے دینگے تو اللہ تعالی ہماری طرف سے کی گئی مدد کو دیکھ نہیں پائینگے؟

 ارے نادانوں! اللہ کی راہ میں اُس ربِ کائنات کی رضا کے لئے جب اپنا مال خرچ کر ہی رہے ہو تو اس کا اجر اسی کے ذمہ چھوڑدو، لوگوں کو دکھاکر ان کی واہ واہی حاصل کرکے کیا مل جائیگا؟

اللہ نہ کرے نیکی کی راہ میں کی گئی ہماری یہ دریا دلی ہماری ایک چھوٹی سی غلطی یعنی دکھاوے کی وجہ سے ہمیں ہی نہ لے ڈوبے۔

اللہ نہ کرے کسی غریب کی شرمندگی اس کی رسوائی اس کے دل کی آہ نہ بن جائے!

جب ہم روزہ اور تمام عبادات صرف اور صرف اللہ کے لئے کرتے ہیں تو زکوٰۃ  اور صدقہ کیوں صرف اللہ کو دکھانے کی نیت سے نہیں کرپاتے؟

کبھی ایک پل کے لئے خود کو ان بے بس اور لاچار غریبوں کی جگہ رکھ کر سوچیں ، اللہ نہ کرے ان غریبوں کی جگہ آپ ہوں اور کوئی مالدار آپ کی تصاویر کھینچتے ہوئے کئی لوگوں کے سامنے آپ کو کچھ پیسہ، اناج، کپڑے دینے کہ نام پہ تپتی ہوئی دھوپ، جان لیوا گرمی، بارش، روزے کی حالت میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کروائے تو کیا آپ کھڑے رہ پائیں گے؟

کیا اُس وقت آپ کی عزت نفس تار تار نہیں ہوگی؟

جب آپ کی عزت نفس کو ٹھیس پہونچ سکتی ہے تو اُن غریبوں کے پاس بھی تو عزت نفس ہوتی ہے، انہیں بھی تو برا لگتا ہوگا؟ انہیں بھی تو تکلیف ہوتی ہوگی؟ پر ان کی عزت اور ہماری عزت میں اتنا فرق کیوں؟

 ان کی تکلیف اور ہماری تکلیف آخر ایک جیسی کیوں نہیں ہے؟

کیا عزت صرف دولت مند انسانوں کی جاگیر ہے؟ جو اپنے پیسوں کے بل پہ دوسروں کی خودداری کو سرِ عام رسوا کرتے ہیں؟

اللہ سے ڈریں! وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا وقت کا چکر ہر وقت گھومتا رہتا ہے اور دولت کبھی کسی کی سگی نہیں ہوتی، آج ایک گھر کی باندی تو کل کسی اور کے گھر کا رخ کرتے دیر نہیں لگاتی، اس لئے جب بھی کسی کی مدد کریں تو ایک بار ضرور اُس انسان کی جگہ خود کو تصور کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ آج اللہ تعالی نے ہمیں کسی کی مدد کرنے کے قابل بنایا ہے، وہ چاہتا تو اُس بندے کی جگہ ہم بھی ہوسکتے تھے، پر شاید اس میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی، شاید ہمارا رب ہمیں مال و زر دیکر آزما رہا ہوگا، ہمارے دل، ہماری روح، ہماری نیت کا امتحان لے رہا ہوگا؟کیونکہ دنیا تو صرف دینے والے کا ظاہر دیکھتی ہے، لیکن اللہ تعالی ظاہر کے ساتھ باطن سے بھی بخوبی واقف ہے، آج وہ دیکر آزما رہا ہے تو اللہ نہ کرے کل لیکر بھی آزما سکتا ہے! اس لئے اپنے کل کے لئے اپنے آج کو بہتر بنالیں ، کیونکہ جو جیسا کریگا ایک نہ ایک دن سود سمیت اسکو وہی ملے گا،

اگر ہم سچے دل سے صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے دینا چاہیں تو طریقے ہزار مل جائینگے، جس سے نہ کسی کی خودداری کو چوٹ پہنچے گی، اور انجانے میں ہم کسی کا دل دکھانے سے بھی بچ جائینگے، اور ہمارا فرض بھی ادا ہوجائے گا. جس کا اجروثواب انشاءاللہ ہمارے گمان سے کئی گنا زیادہ ملےگا. ایک تو زکوٰۃ کا دوسرا سامنے والے انسان کی خودداری، اس کی عزت کو بچائے رکھنے کا، اور ہمارے اس عمل  سے انشاءاللہ اللہ تعالی بھی ہم سے راضی ہوجائینگے. کیونکہ بہترین صدقہ وہی ہے جو دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں ہاتھ کو بھی  پتہ نہ چلے۔

اور خاص کر ان لوگوں کی مدد کریں جو غربت میں رہکر بھی ہزاروں تکالیف برداشت کرتے ہوئے بھی خود سے مانگ نہیں سکتے، ایسے خوددار انسانوں کی تکلیف کو سمجھتے ہوئے ان کی مدد کریں اور زکوٰۃ جتنی جلدی ہوسکے ادا کریں، تاکہ لوگوں کی ضرورتیں باآسانی پوری ہوسکیں اور وہ بھی رمضان میں پیٹ بھر سحری و افطار کرتے ہوئے خوشی واطمینان سے عبادات کے ساتھ عید کی تیاری کرسکیں اور پورے ماہ آپ کے حق میں دعائے خیر کرسکیں جو آپ کی بخشش کا ذریعہ بن جائے، کیونکہ رمضان مبارک میں روزہ کی حالت میں کی گئی دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں اور جتنی جلدی زکوٰۃ دینگے اتنی زیادہ دعائیں بھی حاصل کرینگے۔

ویسے تو ہمارے یہاں آج بھی کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ زکوٰۃ 15 , 21 , 26 , 27 روزہ کو دیں گے تو ثواب زیادہ ملیگا اور اسی سوچ کے چلتے ان مخصوص دنوں کے انتظار میں زکوٰۃ ادا کئے بغیر اپنے پاس ہی رکھ لیتے ہیں .. جبکہ یہ سوچ سراسر غلط ہے. کیونکہ کسی بھی چیز کی اہمیت اُسی وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب اس کی شدید ضرورت ہو جیسے بھوکے انسان کو سوکھی روٹی بھی نعمت لگتی ہے اور پیٹ بھرے انسان کو بریانی بھی کھلادیں تو بھی اسکی  اہمیت اتنی نہیں رہتی اور زکوٰۃ دیتے وقت اس بات کا بھی خاص خیال رکھیں کہ سامنے والے انسان کو کس چیز کی زیادہ ضرورت ہے، کپڑے، اناج یا پیسے اور انکی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے زکوٰۃ کا فریضہ ادا کریں۔

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے دئے گئے کپڑے اور اناج پیسوں کی قلت کی وجہ سے واپس دکانداروں کو آدھی قیمت میں بیچ دئے جاتے ہیں ، جس کو خریدنے والے زیادہ تر غیر مذہب کے مارواڑی دکاندار ہیں اور اس میں بیچارے غریبوں کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ جب ایک غریب کو 10 سے 15 جوڑی کپڑے دے دئیے جائیں تو وہ بیچارے بھوکے پیٹ پریشان حال کتنے کپڑے پہنیں گے اور زکوٰۃ کے نام پہ صرف کپڑے ہی ملتے رہیں تو وہ اپنی باقی ضرورتیں کیسے پوری کرپائینگے؟

 آخر کار مجبوری میں انہیں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے، اس لئے اپنی طرف سے پوری کوشش کریں کہ اس رحمت اور برکت والے ماہِ مبارک میں کوئی بھی انسان مجبور، اداس یا غمگین نہ رہے اور جہاں تک ہم نے سنا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے، جب دولت تو ہر ایک کے پاس ہوگی اور ثواب کی نیت سے دینے کے لئے بھی ہر کوئی تیار ہوگا، لیکن اُس وقت لینے والا کوئی نہیں ہوگا، آج اللہ نے ہمیں دینے کا موقعہ دیا ہے تو الحمدللہ کہتے ہوئے اسکی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کریں۔

اور رہی بات زکوٰۃ کو لیکر شرعی  مسائل کی تو الحمد للہ ہمارے علماء کرام ہم سب کی رہنمائی کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اللہ انہیں اپنی کوشش میں کامیاب کرے اورانہیں جزائے خیر سے نوازیے اور اُمت مسلمہ پہ ان کا سایہ ہمیشہ سلامت رکھے اور رمضان کی برکت سے ان کے آپسی اختلافات کو ختم کر قوم کے لئے انہیں مشعلِ راہ بنائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔