دشمنوں کی سازشوں کوناکام کرنے کا قرآنی نسخہ

منورسلطان ندوی

قرآن کریم کتاب ہدایت اور دستورحیات ہے، یہ کتاب قیامت تک انسانوں کی رہبری کے لئے نازل ہوئی ہے، موجودہ وقت میں مسلمان جن مسائل ومشکلات سے دوچارہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، دنیاکاکوئی ملک ایسانہیں ہے جہاں مسلمان چین سے ہوں، گذشتہ کئی دہائیوں سے عالم اسلام جس نازک دورسے گزر رہا ہے، تاریخ میں اس کی مثال بہت کم ملے گی۔عراق، شام،  اردن اورمصرمیں کشت وخون کابازارجس طرح گرم ہوا، اس نے چنگیزوہلاکو کوبھی شرمندہ کردیا ہوگا۔ شام کی سرزمین آج بھی مسلمانوں کے خون سے لالہ زاربنی ہوئی ہے۔ خودہمارے وطن ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں، پوری امت مسلمہ اس وقت نازک ترین دورسے گزررہی ہے، نکبت وادبارکی گھٹائیں چھٹنے کانام نہیں لے رہی ہیں، اورزوال وپستی کے خاتمہ کے آثارکہیں نظرنہیں آرہے ہیں، اس صورت حال سے ہرباشعورمسلمان حیران وپریشان ہے، اعلی ذہانتیں مسائل کی گتھی سلجھانے میں مصروف ہیں، مگر حل کاسراہاتھ نہیں لگ رہاہے، تدبیریں کی جاری ہیں، منصوبے بنائے جارہے ہیں، مگرکوئی دواکارگرنہیں ہورہی ہے، ہردماغ میں یہی سوال ہے کہ اس زوال کاخاتمہ کب ہوگا؟اورامت مسلمہ کی نئی صبح کب نمودارہوگی؟؟

موجودہ ملکی وعالمی مسائل کوسامنے رکھ کرقرآن کریم میں غورکریں اور اس ربانی وسرمدی ہدایت نامہ میںنسخہ ٔ کیمیاتلاش کریں توبہت اہم حقائق سامنے آتے ہیں، متعدد آیات میں مسلمانوں کوبڑی اہم ہدایات دی گئی ہیں،  اورمشکل حالات کے لئے ایسی تدبیریں بتائی گئی ہیں، کہ ان کی روشنی میں دورحاضرکے مسائل کاحل بآسانی معلوم کیاجاسکتا ہے، سورہ آل عمران(آیت:۱۱۸تا۱۲۰)میں موجودہ منظرنامہ کی تصویرکشی اورپھراس نازک حالت میں مسلمانوں کی رہبری اس طرح کی گئی ہے:

ترجمہ:اے ایمان والو!اپنے لوگوں کے سواکسی اورکورازدارنہ بنائو، کہ وہ تم لوگوںکے ساتھ ساتھ فسادکرنے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھتے، ان کی خواہش ہے کہ تم کو نقصان پہونچے، دشمنی ان کی زبان سے نکلی پڑتی ہے، اوران کے دل میں جو باتیںچھپی ہوئی ہیں، وہ اس سے بھی بڑھ کرہیں، اگرتمہیں عقل ہے توہم نے تمہارے لئے احکام کھول کربیان کردیئے ہیں، تم وہ لوگ ہوکہ ان سے محبت رکھتے ہو، حالانکہ وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، اورتم توتمام کتابوں پرایمان رکھتے ہو، اوروہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، اورجب الگ ہوتے ہیں تومارے غصہ کے انگلیاں کاٹ کھاتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ تم لوگ آپ اپنے غصہ میں مرجائو، بیشک اللہ تعالی دلوں کی باتوں کوخوب جانتاہے، اگرتم لوگوں کو کوئی بھلائی حاصل ہو توان کوناگوارگزرتی ہے، اور اگر تم کسی تکلیف دہ بات سے دوچارہوتووہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اگرتم لوگ صبروتقوی سے کام لیتے رہوتوان کی سازش تم کوذرابھی نقصان نہیں پہونچاسکے گی، کیونکہ ان کے سارے کرتوت کواللہ اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔( تفسیر آسان تفسیرقرآن مجید،  ج۱، ص:۲۶۲، مولاناخالدسیف اللہ رحمانی)

ان تین آیات میں دشمنان اسلام کی جوصفات بتائی گئی ہیں موجودہ وقت میں وہ سب پائی جاتی ہیں، یہ آیات مسلمانوں کے موجودہ حالات کی بہترین عکاسی کررہی ہیں،  پوری دنیامیں جوقومیں اورجماعتیں مسلمانوں کی مخالف ہیں ان کی یہی کیفیت ہے۔

مذکورہ آیات میں سب سے پہلے غیرمسلموں کورازداربنانے اوران سے خفیہ دوستی سے منع کیاگیاہے، غیرمسلموں سے بہترتعلقات شریعت میں محمود اور مطلوب ہیں، ان کے ساتھ دھوکہ،  مکروفریب کی اجازت نہیں ہے، اورنہ ہی ان سے نفرت کرنے کی گنجائش ہے، اسلام دشمنوں کے ساتھ بھی رواداری اور محبت کاقائل ہے، لیکن اسی کے ساتھ مسلمانوں کوان کی چالوں سے ہوشیارکیاگیاہے، آج اس حکم کی خلاف ورزی جس طرح ہورہی ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی  بات نہیں ہے، اکثرمسلم ممالک میں انتہائی حساس شعبے اورسیکیوریٹی وانٹلی جینس وغیرہ کے شعبے غیرمسلم ماہرین کے حوالے ہیں، وہی ان شعبوں کے ذمہ دار ہیں، وہی حکومت کے مشیرہیں، اورانہی کے ذریعہ حکومتوں کے منصوبے اورحکمت عملیاں طے ہوتی ہیں، اس طرح جب ایسے مرشدوں کے ہاتھوں میںملک کی باگ ڈورہوگی تومسلمانوں کے اجتماعی مفادت کے تحفظ کی فکرکہاں ہوسکتی ہے۔

اس لئے اللہ تعالی نے مسلمانوں کوصاف طورپرغیرمسلمانوں سے ہوشیاررہنے کی ہدایت فرمائی ہے، اوران کی اندرونی کیفیت کوظاہرفرمادیاکہ یہ کبھی بھی مسلمانوں کے ہمدرداوربہی خواہ نہیں ہوسکتے ہیں، اس لئے ان پرانحصاراورمکمل اعتمادکی پالیسی درست نہیں ہے۔

اس کے بعددوسراحکم صبراورتقوی اختیارکرنے کاہے، ’ان تصبرواوتتقوا‘ (اگرتم صبروکرواورتقوی اختیارکرو)، ان دونوں صفات کواپنانےکانتیجہ’لایضرکم کیدہم شیئا‘ بتایاگیاکہ اس کی وجہ سے مسلمان دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔

مسلمانوں کے مسائل ومشکلات کے بنیادی اسباب میں غیروں کی سازشیں اور ان کی ریشہ دوانیاں شامل ہیں، عالمی سطح پرانقلابات اورہنگاموں کے پیچھے بعض طاقتوں کے سیاسی تسلط اورسپرپاوربنے رہنے کامنصوبہ ہی توہے، آج دنیاکی کوئی بھی قوم مسلمانوں کی بحیثیت مجموعی ترقی دیکھنانہیں چاہتی، کسی کومسلمانوں کاآگے بڑھنا،  اور مضبوط ہوناگوارہ نہیں ہے، اس لئے ساری قومیں مسلمانوں کوپست کرنے پرمتفق ہیں، آیت مذکورہ میں غیروں کی تمام ترسازشوں سے محفوظ رہنے کی ضمانت دوچیزوں کو اختیار کرنے پردی گئی ہے، اول صبراوردوسرے تقوی۔

اس سورہ میں صبراورتقوی کوایک ساتھ متعددباربیان کیاگیاہے، آگے غزوہ بدر کا ذکرہے، اس موقع پرامدادغیبی کاوعدہ انہی دوشرطوں کی بنیادپرکیاگیاہے، ارشادہے:

بلی ان تصبرووتتقواویاتوکم من فورہم ہذایمددکم ربکم بخمسۃ  آلآف من الملئکۃ مسومین(آل عمران:۱۲۵)

بلکہ اگرتم صبرسے کام لو، تقوی اختیارکرو اوروہ لوگ تم پریکبارگی حملہ آورہوجائیں توتمہارے پروردگارپانچ ہزارفرشتوں سے تمہاری مددکریں گے، جن پرامتیازی نشان رہے گا۔

چندآیات کے بعدیہی حکم اس طرح دہرایاگیا:

لتبلون فی اموالکم وانفسکم ولتسمعن من الذین اوتواالکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکوااذی کثیراوان تصبرواوتتقوافان ذلک من عزم الامور۔(سورہ آل عمران:۱۸۶)

تم لوگوں کی مال اورجان کے سلسلہ میں ضرورآزمائش ہوگی، اورتم ان لوگوں سے جن کوپہلے کتاب دی گئی تھی اورمشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے،  اور اگرتم صبراورتقوی اختیارکروتویہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔

 سورت کے اختتام پرپھرایک بار اس حکم کااعادہ کیاگیا، گویاسورہ میں مذکورہ تمام احکام کاخلاصہ انہی دوباتوں میں جمع ہے:

یاایہاالذین آمنوااصبرواوصابرواورابطواواتقواللہ لعلکم تفلحون (سورہ آل عمران:۲۰۰)

اے ایمان والو!صبروکرو، ثابت قدمی اختیارکرو، تیاررہو، اوراللہ سے ڈرتے رہے، تاکہ تم فلاح پائو۔

سورہ آل عمران کے علاوہ دوسری جگہ بھی صبراورتقوی کاحکم ایک ساتھ آیاہے، حضرت یوسف علیہ السلام کوجب ان کے بھائیوں نے پہچان لیااوران کے اس مقام بلندسے واقف ہوئے توحضرت یوسف علیہ السلام نے اس بلندی کی وجہ بتائی:

قد من اللہ علیناانہ من یتق ویصبرفان اللہ لایضیع اجرالمحسنین۔ (سورہ یوسف:۹۰)

واقعی اللہ نے ہم پراحسان فرمایاجوشخص تقوی اختیارکرتاہے اورصبرسے کام لیتاہے تویقینااللہ تعالی اچھے عمل کرنے والوں کااجرضائع نہیں فرماتے۔

سورہ طلاق میں ہے:

ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا(سورہ طلاق:۲)

اورجوشخص اللہ سے ڈرتاہے اللہ تعالی اس کے لئے نکلنے کاراستہ پیداکردیتے ہیں۔

اس طرح صبروتقوی کے بارباراعادہ کامقصدمسلمانوں کے ذہن نشیں کراناہے کہ صبراورتقوی کے نتیجہ میں ہی مسلمانوں کوکامیابی ملے گی، اورجب یہ دونوں باتیں ان کی زندگی سے مفقودہوجائیں گی توناکامی اورذلت مقدرہوگی، مسلمانوں کے تمام مسائل کاحل انہی دوباتوں میں مضمرہے۔

مولانامفتی محمدشفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں:قرآن کریم نے مسلمانوں کوہرقسم کے مصائب اورپریشانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے صبروتقوی کوصرف اسی آیت میں نہیں بلکہ دوسری آیات میں بھی ایک موثرعلاج کی حیثیت سے بیان فرمایا۔(معارف القرآن، ج۲، ص:۱۶۱)

مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں:

معلوم ہواکہ’ صبراورتقوی ‘دشمنوں کی سازشوں کوبے اثراورنامرادکرنے کے لئے کلیدکادرجہ رکھتاہے، صبراورتقوی ایساجامع لفظ ہے کہ اس میں اللہ سے تعلق اورظاہری تدابیر دونوں جمع ہیں۔(آسان تفسیرج۱، ص:۲۶۲)

سیدقطب شہید ؒ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:

دیکھویہ کتاب ہمیں وہ طریقہ بتاتی ہے کہ کس طرح ہم ان دشمنوں سے جان بچائیں، جس طرح اس کتاب نے پہلی اسلامی جماعت صحابہ کرام کوبھی سکھایاتھاکہ کس طرح ہم ان کی ایذارسانیوں سے بچیں گے، کس طرح ہم ان کے کینہ سے محفوظ ہوں گے، جوہمارے خلاف ان کے دلوں میں چھپاہواہے، اورکبھی کبھارا سکی چنگاری اس کے منھ سے نکل جاتی ہے، وان تصبرواوتتقوا…سووہ طریقہ صبراورعزم کاطریقہ ہے، اوران کے مقابلہ میں ڈٹ جانے کاطریقہ ہے(اگرچہ وہ بہت ہی طاقتور ہوں ) اور ان کی مکاری اورسازشوں کے مقابلہ میں جم جانے کاطریقہ ہے، اگروہ سازشوں اورخفیہ ریشہ دوانیوں کاطریقہ اپنائیں توہماراطریقہ صبراوراپنے نظریہ حیات پرپختگی سے جم جانے کاطریقہ ہوگا، بہہ جانے، ختم ہوجانے اوردوسروں کے مقابلہ میں ذلیل ہونے کاطریقہ نہیں ہوگا، نہ یہ کوئی صحیح پالیسی ہے کہ دشمنوں کوخوش کرنے کے لئے یاان کے متوقع شروفسادکی وجہ سے ہم اپنے تمام نظریات یابعض نظریات کو ترک کردیں۔

دشمنان اسلام کے مقابلہ میں دوسراطریق کارخداخوفی کاطریقہ کارہے، صرف ایک خداسے ڈرنااورصرف اسی کی نگرانی کااحساس رکھنا، تقوی اورخداخوفی ہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسانی دل اپنے رب سے مربوط ہوجاتے ہیں، ان کاتعلق صرف ان لوگوں سے ہوتاہے جوا س اللہ کے نظام میں داخل ہوتے ہیں اوروہ صرف اللہ کی رسی کومضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوتے ہیں، جب ایک دل ذات باری کی معرفت حاصل کرلیتاہے تو پھراس کے اندرسے اللہ کے سوادوسری تمام قوتوں کاخوف دورہوجاتاہے اورجس قدر عزم پختہ ہوجاتاہے اسی قدراللہ سے یہ رابطہ مضبوط ہوجاتاہے، اس لئے وہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا، اورنہ ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرتاہے جواللہ اوراس کے رسول کے دشمن ہیںمحض اپنی جان بچانے کے لئے یادنیاوی عزت وناموس کمانے کے لئے (فی ظلال القرآن، اردوترجمہ، ج۱، ص:۶۹۶)

صبراورتقوی کے الفاظ اردومیں بھی مستعمل ہیں، جس کی وجہ سے ان الفاظ کے کسی خاص مفہوم کی طرف عموماذہن نہیں جاتا، حالانکہ عربی کے ان الفاظ میں بڑی وسعت ہے،  اورمعانی کاایک سمندرچھپاہواہے، بظاہریہ دولفظ ہیںلیکن حقیقت میں ان میں شریعت کاخلاصہ جمع ہے۔

بقول مفتی شفیع صاحب ؒ:صبروتقوی کے مختصرعنوان کے اندرانفرادی اوراجتماعی زندگی کے ہرشعبہ، عوامی اورفوجی نظم ونسق کاایک کامیاب ضابطہ بڑی جامعیت کے ساتھ آگیاہے۔(معارف القرآن، ج۲، ص:۱۶۱)

تبصرے بند ہیں۔